تاثرات :مہوش اسد شیخ
پریس فار پیس نام ہے اعتماد کا۔ اس ادارے کی شائع کردہ کتب کی تو میں دیوانی ہوں، عمدہ کاغذ بہترین ڈیزائننگ، طباعت و اشاعت ۔ اس کے علاوہ ان کی شائع کردہ کتب کا مواد بھی معیاری ہوتا ہے۔
“اک سفر جو تمام ہوا” قانتہ رابعہ ایک معروف مصنفہ کی نئی کتاب ہے جو حالیہ ہی پبلش ہوئی ہے۔ قانتہ رابعہ صاحبہ کا نام ہر ماہ بیشتر رسائل و ڈائجسٹ میں دکھائی دیتا ہے، ماشا اللہ اب تک ان کی دو درجن کتب شایع ہو چکی ہیں۔ کئی کتب پر مقالات لکھے جا چکے ہیں۔ بچپن میں بچوں سے اکثر پوچھا جاتا ہے آپ بڑے ہو کر کیا بنیں گے اگر آج کوئی مجھ سے یہ سوال کرے تو بے اختیار میرے منھ سے نکلے گا ،”قانتہ رابعہ بنوں گی”۔ میں بھی ان کے طرح تسلسل سے اور بہترین لکھنا چاہتی ہوں۔ ایسا لگتا ہے وہ معاشرے کے ہر فرد کی نفسیات جانتی ہیں۔ سوچ پڑھنے کی ماہر ہیں۔
ان کی تحاریر ایسی ہوتی ہیں جیسے ہمیں گھریلو واقعات سنائے جا رہے ہو، متوسط طبقے کے مسائل بیان کیے جا رہے ہیں لیکن یکدم کسی نقطے پر کہانی شاندار افسانہ بن جاتی ہے۔ وہ معاشرے میں جابجا بکھرے واقعات سے کہانیاں کشید کر لینے کا ہنر رکھتی ہیں۔
میں پروفیسر خالدہ پروین سے متفق ہوں۔ وہ لکھتی ہیں” ایک نقطے یا ایک بات سے کہانی کا تانا بانا تیار کر لینا مصنفہ کا کمال ہے۔ افسانوی مجموعہ میں موجود کہانیاں ہمارے اردگرد معاشرے میں جابجا بکھری دکھائی دیتی ہیں جنھیں مصنفہ کے سادہ بیانیہ نے سہل ممتنع کی صنف سے متصف کر دیا ہے ۔ پڑھ کر لگتا ہے ایسا افسانہ لکھنا تو بالکل بھی مشکل نہیں لیکن لکھنے پر آئیں تو قلم ساتھ نہ دے”۔
اس کتاب میں چوبیس معاشرتی افسانے موجود ہیں۔
سب سے پہلا افسانہ” زمانے کے انداز بدلے گئے“ اپنی نوعیت کا ایک منفرد افسانہ ہے مختلف ادوار میں تربیت کا، نئی نسل کا موازنہ کیا گیا ہے ۔ اس افسانے کی مختصر منظر نگاری خاصی متاثر کن ہے ۔ سارا نقشہ آنکھوں کے سامنے کھنچ جاتا ہے۔
“چار دن کے فاصلے پر عید “ رمضان کے حوالے سے، جذبہ ایمان کو ابھارتی ایک خوبصورت تحریر ہے ۔ نوکری یا گھریلو مصروفیات کی آڑ میں روزے چھوڑ دینا بالکل بھی صحیح نہیں۔
“کہانی اشرف المخلوقات کی “ میاں بیوی کے رشتے میں احساس پر لکھی گئی ایک بہت پیاری سی تحریر ہے۔ اس رشتے میں احساس بہت حساس پہلو ہے ۔
“دل ویراں” عورت کے بننے سنورنے کے شوق پر لکھا گیا افسانہ ہے، عورت بھلے کسی بھی عمر کو پہنچ جائے مگر یہ شوق موجود رہتا ہے مگر یہ زمانہ ۔…سمجھے تب ناں
“ممتا تو بس ماں کی ہے “ اس کہانی نے تو رلا ہی دیا۔اس تحریر کو پڑھ کر لگا جیسے نفیسہ بیگم خود قانتہ رابعہ ہی ہیں۔
“اب تماشہ دیکھ “ چینل والوں پر گہری تنقید ہے جو ان مصیبت زدہ خواتین کو بھی دنیا والوں کے سامنے لا کھڑا کرتے ہیں جو اپنے گھروں میں پردے میں رہتی ہیں۔ سیلاب میں لٹ جانے والوں کو اپنے بے سروسامانی سے زیادہ اس بات کی پریشانی تھی کہ اب چینل والے آئیں گے اور ان کی ویڈیو بنے گی۔
دیسی گھی کا سبق” “
بہترین مثال سے سبق دیا گیا، اتفاق سے آگے رمضان آ رہا ہے، یہ کہانی سبھی کو پڑھنی چاہیے۔
“صدقہ”“ نوکروں کا حق مارنے والوں کے لیے بہترین کہانی ہے ۔
“احساس ” دوسروں کا احساس کرنے والوں کی شاندار کہانی ہے۔ جیسا کہ پہلے بھی لکھ چکی ہوں کہ مصنفہ کی کہانیاں ابتدا سے عام سی کہانی لگتی ہے لیکن آگے چل کر بہترین سبق آموز تحریر میں بدل جاتی ہے۔ یہ بھی عام ہر گھر کی کہانی جیسی تحریر تھی مگر سبق بہت خوب رہا۔
“عارضی ٹھکانہ “نے تو سوچ کے کئی در وا کر دیے۔
“یو ٹرن ” ان لڑکیوں کے لیے بہترین سبق ہے جن کی نئی نئی شادی ہوئی ہے یا ہونے والی ہے۔
“گھنا سایہ “باپ کی محبت کی خوبصورت کہانی ہے۔” فالوورز کی دنیا “ نے جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔
“ایک سفر جو تمام ہوا“،” ولی“،” تقدیر “،” نسلوں کی آمین “،” اپنی نبیڑ تو“،” تو کیا ہوا“، ” نیا ذائقہ “، ” عام الحزن “، ” اپنے من میں ڈوب کر “ بھی شاندار کہانیاں تھیں۔
کچھ افسانے ایسے موضوعات پر مشتمل ہیں جن پر زیادہ لکھا نہیں جاتا یا کوئی قلم اٹھانا نہیں چاہتا لیکن ان کرداروں پر لکھے جانے کی ضرورت ہے۔
” زمین کے بوجھ،“،” بھید“ ۔
بہترین افسانوی مجموعہ کی اشاعت پر ادارے اور مصنفہ دونوں کو ڈھیروں مبارک باد ۔
Discover more from Press for Peace Publications
Subscribe to get the latest posts sent to your email.