کتاب: بین کرتی آوازیں مبصر : ارشد ابرار ارش

You are currently viewing کتاب: بین کرتی آوازیں مبصر : ارشد ابرار ارش

کتاب: بین کرتی آوازیں مبصر : ارشد ابرار ارش

مبصر : ارشد ابرار ارش

علی گڑھ یونیورسٹی سے تحصیل یافتہ ، “لفٹ” اور” نوحہ گر” جیسے معروف ناولوں کی خالق ڈاکٹر نسترن احسن فتیحی کے بارے مجھ جیسوں کیلیے کچھ کہنا تو یقیناً سورج کو چراغ لکھنے برابر ہی ہے 

اور ڈاکٹر صاحبہ کے مکمل فن و ادب کا احاطہ تو ایک تفصیلی مضمون کا متقاضی ہے مگر میں یہاں کچھ 

” بین کرتی آوازیں “  آپ کی سماعتوں تک پہنچانا چاہتا ہوں جو سرحد پار سے اس خوبصورت کتاب کی صورت مجھ تک پہنچی ہیں ۔ 

پریس فار پیس کے زیرِ ادارت شائع شدہ مذکورہ کتاب غالباً ڈاکٹر صاحبہ کا پہلا افسانوی مجموعہ ہے اور اپنے ان افسانوں میں وہ کچھ ایسی آوازوں ہر بات کرتی دکھائی دیتی ہیں جن پر کبھی کوئی  کان نہیں دھرتا ، جن چیخوں کا گلہ گھونٹ دیا جاتا ہے اور ایسے چہرے تراشتی نظر آتی ہیں جنہیں یہ زر پرست دنیا دار بے چہرہ کر دیتے ہیں ۔ 

وہ دن بدن مشینی پیرہن اوڑھتی زندگی پر بھی فکر مند رہتی ہیں اور نسلِ نو کی سرشت سے گم ہوتی اقدار پر بھی دُکھی ہیں ۔ 

وہ سڑکوں پر سیاسی ریلیوں کی صورت آئے روز بڑھتی ہوئی  بھیڑ سے بھی پریشان دکھائی دیتی ہیں اور پیٹ کا جہنم بھرنے ، دال روٹی کے لیے پریشان ہوتے لوگوں کے چہرے بھی نقش کرتی ہیں ۔

اس حقیقت سے قطعاً انکار نہیں کہ کسی بھی معاشرے کی تخلیق و تعمیر میں ایک عورت کا کردار مرکزی ستون سے کم نہیں ہوتا اور یہ بھی سچا سچ ہے کہ عورت مرد کی نسبت زیادہ حساس اور مرمریں جذبات کی حامل ہوتی ہے تو معاشرے میں سر اٹھاتی کسی بھی تبدیلی کو مرد کے مقابلے میں عورت کے دیکھنے اور جانچنے کا زاویہ نظر بھی مختلف اور الگ ہوتا ہے ۔ 

کتاب میں شامل ڈاکٹر صاحبہ  کے زیادہ تر افسانوں کے مرکزی کردار بھی عورت کے ارد گرد ہی تعمیر کیے گئے  ہیں ۔ چونکہ مصنفہ کی تخلیق کا صنفی سانچہ بھی یہی ہے

 تو وہ ایک عورت کے احساسات ، خیالات اور جذبات کو باریک بینی سے نہ صرف سمجھتی ہیں بلکہ انہیں صفحہ قرطاس پر بکھیر کر دنیا کے دسترخوان پر طشت ازبام کرنا بھی بخوبی جانتی ہیں ۔ 

گھر گر ہستی سنبھالتی عورت ، شوہر کے آرام و سکون اور بچوں کی تربیت اور فکرِ مستقبل میں گھلتی عورت ، مسمار ہوتی معاشرتی اقدار پر کڑھتی عورت ،  اپنے ملکی و سیاسی منظر نامے پر رنگ بدلتی تصویروں اور سیاست دانوں کے بھاشن پر اندر ہی اندر کڑھتی عورت ہر افسانے میں مختلف قالب اور سوچ و فکر کے ساتھ دکھائی  دیتی ہے ۔ 

موضوعاتی تنوع اگرچہ کم ہے مگر ڈاکٹر صاحبہ نے اپنے گہرے مشاہدے ، عمیق مطالعے اور زیرک نگاہی سے افسانوں کے فطری بہاؤ، تراش خراش اور نوک پلک میں کہیں کوئی  کمی نہیں چھوڑی ۔

 خیال کی وسعت اور مطالعے کی کثرت ان کے افسانوں کے کینوس مزید وسیع کر دیتے ہیں ۔ تصنع اور لفظی ملمع قاری سے احتراز کرتے ہوۓ وہ اپنے پیغام کی ترسیل کو زیادہ اہم سمجھتی ہیں ۔ ان کے ہاں لفظوں کی تکرار نہیں پائی جاتی بلکہ ہر سطر پر وہ قاری کے ذخیرہ الفاظ میں مزید اضافہ کر دیتی ہیں ۔ مکالموں سے کنی کتراتی ہیں اور بیانیہ انداز میں پڑھنے والوں کو سحرزدہ رکھتی ہیں ۔ کتاب میں شامل افسانوں میں مجھے ذاتی طور پر بین کرتی آوازیں ، یہ عجیب عورتیں ، کشمکش ، ایڈہسو ، نسل ، کال بیلیا اور دُمڑی کی دال بہت اچھے لگے ہیں ۔

کتاب سے منتخب شدہ کچھ سطور آپ سب احباب کے لیے یہاں پیش کر دیتا ہوں ۔ 

“… جسم کو جب آساٸش ، مصنوعات ، زیباٸش اور نمود کی خواہش میں بے جا مصروفیات کیلیے کوہلو کا بیل بنا دیا جاتا ہے تو روح ان بندشوں سے راہِ فرار کی تلاش میں سر پٹکنے لگتی ہے “۔   (“صندوق”) 

“… جس گھر میں اولاد ہوتے ہوۓ بھی روشنی نہیں ، آواز نہیں، وہاں سے برکت اور خوشیاں تو روٹھ جاتی ہیں ۔

یااللہ تو نے انسانوں کو زندگی صرف اس لیے عطا کی تھی  کہ اس سے عبرت حاصل کی جاۓ۔۔۔ ؟ “

                                 (” انگلی کی پور پر گھومتا چاند “)

“… حقیقت اور خواب جب خلط ملط ہو جاٸیں تو جینا محال ہو جاتا ہے ۔ زندگی اور موت کی دو انتہاٶں کے درمیان یہ خواب ہی تو ہیں جن کے پیچھے ہم عمر بھر بھاگتے دوڑتے رہتے ہیں ۔ ”       (  “یہ عجیب عورتیں” )

“… لوگ عمر کا حساب نہ جانے کیوں دنوں ، ہفتوں ، مہینوں اور برسوں میں رکھتے ہیں جبکہ عمر کا حساب تو تجربوں ، حادثوں ، سانحوں اور سفروں میں رکھنا چاہیے ۔” 

                                             ( “کال بیلیا “)

“… ماں نام کی مخلوق صرف گزارہ کر کے اور کروا کے کیوں خوش رہتی ہے ؟ 

 ماسٹری کر لو کہ پیٹ کی بھوک مٹے  ، شادی کر لو کہ جسم کی بھوک مٹے ، کیا بھوک سے آگے اور پیچھے کچھ سوچنا نہیں چاہیے ؟”    ( “سادہ اوراق” ) 

“… وقت کہاں بدلتا ہے ۔۔۔ ؟ وہ تو اپنی مستانہ رفتار سے چلتا رہتا ہے ۔ ٹک ، ٹک ، ٹک، ٹک ۔۔۔ سال میں اکتیس ملین سیکنڈز کا حساب دیتا ہوا ، جذبات ، احساسات ، معصومیت اور انسانوں کو روندتا ہوا گزرتا جاتا ہے ۔

بدلتے تو کردار ہیں ، کرداروں کے چہرے ، خواب اور خواہشیں ، ان کے طریقے ، سوچ ، انداز ، فکر ، ضرورتیں اور ان کے بدلاٶ کے دھچکے سہتے سہتے زندگی اپنی جگہ خالی اور اسے پُر کرتی ہوٸی ، موسم بدلتے ہیں ، تاریخیں بدلتی ہیں اور ان سارے بدلاٶ کو ہم بس وقت کے کھاتے میں ڈالتے چلے جاتے ہیں ۔”          ( “سادہ اوراق”)

آخرش دوستو ۔۔۔۔ ایک کتاب سے بڑھ کچھ بھی خوبصورت نہیں ۔ کتابیں پڑھتے رہا کریں ۔ 


Discover more from Press for Peace Publications

Subscribe to get the latest posts sent to your email.