برسا ہے شرق و غرب پر ابرِ کرم ترا/ تحریر: نگہت سلطانہ

masad e nabvi
masad e nabvi
masad e nabvi

برسا ہے شرق و غرب پر ابرِ کرم ترا/ تحریر: نگہت سلطانہ

نگہت سلطانہ

برسا ہے شرق و غرب پر ابرِ کرم ترا
~آدم کی نسل پر تیرے(ص) احساں ہیں بےحساب۔

*بِعثت سے قبل*
دنیا کے حالات کچھ یوں تھے کہ یونان کا فلسفہ، کنفیوشس اور مانی کی تعلیم، بدھ مت ، منوشاستر اور سولن کے افکار عملی زندگی سے کٹ چکے تھے۔ ایران و روم کی دو بڑی  طاقتوں نے ایک شدید قسم کا تمدنی بحران پیداکردیا تھا۔
خطہءعرب میں سبا،عدن اور یمن کی تہذیبیں قصہء پارینہ بن  چکی  تھیں ۔ اب اس وقت شراب،زنا،جوا’ تھے عناصرِ ثقافت۔نظام تمدن میں عورت اسقدر غیر اہم تھی کہ پیداہوتے ہی زندہ گاڑدی جاتی۔
قریش نے مشرکانہ مذہبیت کے ساتھ کعبہ کی مجاوری کا کاروبار چلا رکھا تھا۔
کلامی اور فقہی موشگافیوں کے بازار کے حصص یہود نے آپس میں بانٹ رکھے تھے۔
الغرض انسان خواہش پرستی کی ادنٰی سطح پر گر چکا تھا۔
ان حالات میں
کیا انسانیت کسی صوفی  یاکسی راہب کی منتظر تھی؟
دنیا کوضرورت کسی گوشہ نشیں فقیر کی تھی؟ انسانی آبادیاں  تقاضا کررہی تھیں خانقاہ و درگاہ کا؟؟؟
نہیں۔
انسانیت منتظر تھی محسن انسانیت کی، دنیاراہ دیکھ رہی تھی ایک ہمہ پہلو کردار کی، بستیوں کو ضرورت تھی  ایک مربوط وہمہ جہت نظام حیات کی ۔۔۔!!
اور پھر ۔۔
~حضور (ص) آئے تو کیا کیا ساتھ نعمت لے کے آئے ہیں۔
اخوت، علم و حکمت،آدمیت لے کے آئے ہیں۔
*  پیغمبرِ انقلاب*
محمد (ص) ایک پیغام لے کر  اٹھتے ہیں۔ انسانیت کی ڈوبتی نیّا کا پتوار سنبھالتے ہیں۔
روم و ایران کے پیدا کردہ تمدنی بحران کو توڑنے کے لیےآپ (ص) تیسری طاقت بن کر ابھرتے ہیں حتی کہ دونوں کی کھوکھلی عظمتیں  زمیں بوس ہوگئیں
*آپ (ص) کا شباب*
آپ (ص) نے انتہائی فاسد ماحول کے اندر رہ کر اپنی جوانی کو بے داغ رکھا۔  بدکاری، نظربازی  جہاں عام نوجوانوں کے لیے سرمایہء افتخار تھے وہاں  آپ(ص)  نے اپنے دامن نظر کو اک آن میلا نہیں ہونے دیا۔ پاکباز محمد (ص) نے تو شراب کا ایک قطرہ کبھی زبان پر نہ رکھاتھا
روحانی و جسمانی پاکیزگی کا ایسا کامل نمونہ کب دیکھا تھا مکہ کے معاشرے نے۔ اِس  عفیف نوجوان کی دلچسپیوں پر نگاہ دوڑائیے کہ عنفوان شباب  میں وہ اپنی خدمات  ایک اصلاحی انجمن(حلف الفضول) کے حوالے کردیتا ہے۔
تعمیرِ کعبہ کے موقع پر حجرِ اسود نصب کرنے کے معاملے میں قریش میں کشمکش پیدا ہوتی ہے، قبل اس سے کہ توتکار کسی خونریز لڑائ میں بدل جاتی، امن و محبت کا یہ پیکر وہ  فیصلہ کرتا ہے کہ سارے قبائل کے چہرے کھل اٹھتےہیں۔
میدانِ معاش میں قدم رکھا تو بڑے بڑے سرمایہ داروں کو یہ نکتہ سمجھا دیا کہ دیانت ، صداقت،  اور مخنت سے کاروبار روز افزوں ترقی کرتاہے۔
*بعثت نبوی*

لَقَد مَنَّ اللہَ عَلَی المُؤمنینَ اِذ بَعَثَ فِیھِم رَسُولاً مِّن اَنفُسِھِم ۔۔۔۔الخ (آل عمران۔۔۔۔164)۔۔
دنیا بھر سے سلیم الفطرت افراد کا شمعِ حق کے گرد پروانوں کی طرح اکٹھے ہونا ظاہر کرتا ہے کہ آپ (ص) کی سیرت ایک شخصی سیرت نہیں بلکہ ایک عالمگیر اور بین الاقوامی سیرت تھی۔ گویا آپ (ص) کی سیرت رہتی دنیاتک خالق کائنات کا ایک احسانِ عظیم ہے ساری دنیاکےلیے ہرملک ہر آبادی کے لیے۔
اب قیامت تک جوشخص  بھی انسان دوست ہوگا اور اس زمین کو بدی اور ظلم کے زہریلے کانٹوں سے پاک کرنا چاہے گا، سیرتِ مطہرہ کی خوشبو جب تک اپنے اندر جذب نہیں کرے گا، مقصد حاصل نہیں کر پائے گا۔مگر  آہ۔۔۔۔
آج امتی  معتوب و مغلوب ہیں۔
تو، آپ (ص) کی سیرت  توتاقیامت  مشعلِ راہ ہے۔
*موجودہ حالات*
تاریخ نے ثابت کیا ہے کہ میگنا کارٹا اور انقلابِ فرانس کے انسانی حقوق کا منشور اور اقوامِ متحدہ میں انسانی حقوق کے مسودات اور  “انسانی حقوق” کی تنظیموں نے انسان کو کچھ نہیں دیا، سوائے چند کھوکھلے نعروں  کے اور مخصوص  معیار پہ پورااترنے  والوں کےلئے نوبل پرائز ۔
آج ایسا لگتا ہے کہ جنگلی درندوں کے معمولات سے متاثر ایک چھوٹا سا گروہ ہے جو “انسانی حقوق” متعین کرتا ہے، دور جایلیت میں عورت زندہ گاڑی جاتی تھی۔  ،،تہذیب وترقی،،  کے اس دور میں  صنف نازک  سے زندگی کی بھاری قیمت وصول کی  جاتی ہے۔اسکی حیثیت کو تب تک تسلیم ہی نہیں کیاجاتا جب تک وہ مکمل طور خود کو مرد کے قالب  میں  نہ  ڈھال  لے۔  تحریک آزادئ نسواں کے بعد اب آسمانِ دنیا پر ایل جی بی ٹی وغیرہ

 کے خوفناک بادلوں کا ظہور پیغام دیتا ہے کہ نسلِ انسانی کی بقا کو شدید خطرات لاحق ہوچکے ہیں۔ دوسری طرف سود خوری پوری دنیا میں کینسر کی طرح انسان کے بدن سے انسانیت ختم کررہی ہے۔
*پس چہ باید کرد؟*
اے امتِ مسلم!! دنیامیں آج اگر ہم مسلمانوں کا وجود ہے تو محسنِ انسانیت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جانفشانیوں کے طفیل ہے۔ اصلاح و فلاح کے لیے ایک مکمل ضابطہ (آپ ص کی جدوجہدکی صورت میں) موجود ہے۔
کچھ تو بارِ احسان محسوس کرو،کچھ تو نبی (ص)  سے وفا  نبھاؤ۔ تم  مغرب  کے سائنسی اکتشافات و ڈیجیٹل ترقی سے مرعوب ہو ناں؟…ارے میدان تو خود تمہی نےانھیں دیا۔
ایک انگریز مصنف رابرٹ بری فالٹ  اپنی کتاب ” دی میکنگ آف ہیومنٹی

میں لکھتا ہے ” مسلمانوں نے سائنس کے شعبےمیں جو کردار ادا کیا،وہ حیرت انگیز دریافتوں یا انقلابی نظریات تک محدود نہیں ۔بلکہ یہ ایک حقیقت ہے کہ آج کی ترقی یافتہ سائنس ان کی مرہونِ منت ہے۔”
سو، احساسِ کمتری سے نکل آؤ۔ نبی( ص) سے سچی محبت کا ثبوت دو، ۔۔۔۔

آج کوئی تو ہو جو امت کی ڈوبتی نیّا کو سہارا دے،۔۔۔پھر وہ مردِ کوہستانی ہو یا مردِ صحرائی۔
*اسے کرنا یہ ہےکہ*
خود محبت و دعوت کا عملی نمونہ بنے۔ قوتِ قاہرہ کی ضرورت مسلّم، مگر محبت کی طاقت لاجواب ہے۔
بقولِ اقبال
مثل بوقیدہے غنچے میں پریشاں ہوجا
رخت بردوش ہوائے چمنستان ہوجا
ہے تنک مایہ ، توذرے سے بیاباں ہوجا
نغمہء موج سے ہنگامہء طوفاں ہوجا
قوت عشق سے ہرپست کوبالاکردے
دہر میں اسم محمدسے اجالاکردے
۔۔۔
*ارباب حل وعقدسےچند  گزارشات*
“رحمۃ اللعالمین اتھارٹی” بنا دینے سے کوئی مقصد حاصل نہیں ہوگا۔ ضرورت رحمۃ اللعالمین کو “اتھارٹی” ماننے کی ہے۔
نظامِ تعلیم کی مخلصانہ جانچ کیجئے اور محسنِ انسانیت( ص) نے جس نظامِ تعلیم کی بنیاد رکھی تھی، اسے عصری تقاضوں کے ساتھ ہم آہنگ کرکے پورا خاکہ ترتیب دیجئے۔
پارلیمنٹ کے فلور پر کوئی بھی فیصلہ و قانون سازی کرتے ہوئے یہ ضرور سوچئے کہ اس وقت ہمارے سامنے نبئ رحمت (ص)خود موجود ہوتے تو ہم کس نہج پر قانون سازی کرتے۔  اور پھر انسانی حقوق کا پہلا چارٹر (خطبہء حجۃ الوداع) نہ صرف اپنی پارلیمنٹ میں نافذ کیجئے بلکہ اس کی گونج سارے عالم میں پھیلا دیجئے۔
*امت مسلمہ کی قیادت سے*
کہنا یہ ہے کہ غزہ میں ایک برس سےجاری  آگ اور خون کاکھیل ،معصوم بچوں کی چیخیں، نہتے شہریوں کی آہ وبکا یہ سب اس پیاری مسجد اقصی کے سائے تلے ہورہاہے جہاں اس نبی نے تمام انبیائے کرام کی امامت فرمائی ،جہاں سے سفرمعراج کے لیے اڑان بھری جس کے نام کی آپ لوگ اتھارٹیز بناتے ہیں، کمیٹیاں تشکیل دیتے ہیں،کانفرنسز منعقد کرتے ہیں *واللہ یہ نمائشی اقدامات تمھیں پکڑ سے بچا نہیں پائیں گے ۔تمھارے خلاف غزہ والے چارج شیٹ تیار کرچکے وقت ہے ۔اب بھی اپنافرض یادکرلو۔
کاش تمھیں اپنا فرض منصبی یادآجائے ۔تب تمھیں یہ فانی جاہ و منصب ہیچ نظر آئیں گے امت کی بقا کی خاطر جان دینے سے بڑھ کے کوئی لذت کاکام تمھیں دکھائی  نہیں دے گا۔جھوم کے گاو گے اور زمانہ سنے گا۔۔
‘میرا پیمبر عظیم تر ہے ۔
شعور لایا،کتاب لایا
وہ حشر تک کا نصاب لایا۔
دیا بھی کامل نظام اس نے
اور آپ ہی انقلاب لایا
وہ ہر زمانے کا راہبر ہے
میرا پیمبر عظیم تر ہے ”۔

 


Discover more from Press for Peace Publications

Subscribe to get the latest posts sent to your email.