دانیال حسن چغتائی
حبشہ کی ہجرت کرنے والے دوسرے قافلہ میں ہر خاندان کا کوئی نہ کوئی فرد شامل تھا اس لئے مکہ کے ہر گھر میں کہرام مچ گیا۔ مسلمان حبشہ میں سکون و اطمینان سے رہنے لگے۔ یہ خبر سن کر قریش مکہ بہت مضطرب ہوئے۔ یہ مسئلہ دار الندوہ میں پیش ہوا اور بعد غور و خوض طے کیا گیا کہ ایک سفارت نجاشی کے پاس بھیجی جائے۔ چنانچہ عمرو بن العاص (بعد میں فاتح مصر) اور عبداللہ بن ابی ربیعہ ( ابو جہل کا ماں جایا بھائی) کو جو گہری سوجھ بوجھ کے مالک تھے اور ابھی مسلمان نہیں ہوئے تھے , بہت سے تحائف دے کر حبشہ روانہ کیا گیا۔
انھوں نے حبشہ جا کر سب سے پہلے نجاشی کے امرأ اور مذہبی پیشواؤں سے ملاقات کی اور ان سے نجاشی کے دربار میں اپنے معروضہ کی تائید کرنے کی درخواست کی۔ جب مذہبی پیشواؤں نے اس بات سے اتفاق کرلیا کہ وہ نجاشی کو مسلمانوں کے نکال دینے کا مشورہ دیں گے تو یہ دونوں نجاشی کے دربار میں حاضر ہوئے اور تحفے پیش کرکے اپنا مُدّعا عرض کیا۔
اے بادشاہ ! آپ کے ملک میں ہمارے کچھ ناسمجھ نوجوان بھاگ آئے ہیں۔ انہوں نے اپنی قوم کا دین چھوڑ دیا ہے لیکن آپ کے دین میں بھی داخل نہیں ہوئے ہیں بلکہ ایک نیا دین ایجاد کیا ہے جسے نہ ہم جانتے ہیں نہ آپ۔ ہمیں آپ کی خدمت میں انہی کی بابت ان کے والدین , چچاؤں اور کنبے قبیلے کے عمائدین نے بھیجا ہے۔ مقصد یہ ہے کہ آپ انہیں ان کے پاس واپس بھیج دیں کیونکہ وہ لوگ ان پر سب سے اونچی نگاہ رکھتے ہیں اور ان کی خامی اور عتاب کے اسباب کو بہتر طور پر سمجھتے ہیں۔
جب یہ دونوں اپنا مدعا عرض کر چکے تو پیشواؤں نے کہا۔ بادشاہ سلامت ! یہ دونوں ٹھیک ہی کہہ رہے ہیں۔ آپ ان جوانوں کو ان دونوں کے حوالے کردیں۔ یہ دونوں انہیں ان کی قوم اور ان کے ملک میں واپس پہنچا دیں گے۔
لیکن نجاشی نے سوچا کہ اس قضیے کو گہرائی سے کھنگالنا اور اس کے تمام پہلوئوں کو سننا ضروری ہے چنانچہ اس نے مسلمانوں کو بلا بھیجا۔
دوسرے دن مسلمان حضرت جعفربن ابی طالب رضی اللہ عنہ کو اپنا ترجمان بنا کر نجاشی کے دربار میں حاضر ہوئے۔ مسلمان یہ تہیہ کرکے اس کے دربار میں آئے کہ ہم سچ ہی بولیں گے خواہ نتیجہ کچھ بھی ہو۔
اندر داخل ہونے سے قبل انھوں نے آواز دی۔
بادشاہ سلامت ! اللہ والوں کا گروہ اندر آنے کی اجازت چاہتا ہے۔
نجاشی نے یہ آواز سن کر دربان سے کہلوایا کہ ان کلمات کو پھر سے دہرائیں۔ مسلمانوں نے ان کلمات کو دہرایا تو نجاشی نے جواب میں کہا۔ اللہ کے حکم سے داخل ہوجاؤ کہ تم اس کی ہی حفاظت میں ہو۔
مسلمان السلام علیکم کہتے ہوئے دربار میں داخل ہوئے لیکن نجاشی کو سجدہ نہیں کیا تو امراء نے سجدہ نہ کرنے کی وجہ پوچھی،
مسلمانوں نے جوابا کہا کہ ہم اللہ کے سِوا کسی اور کو سجدہ نہیں کرتے، اس کے بعد نجاشی نے کفّار قریش سے کچھ سوالات کئے۔
عمرو بن العاص نے عرض کیا۔ اے بادشاہ ! ہم اپنے آبا و اجداد کے دین پر تھے، انھوں نے اسے چھوڑ کر ایک نیا دین اختیار کیا ہے۔
نجاشی نے حضرت جعفر بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے پوچھا۔ یہ کونسا دین ہے جس کی بنیاد پر تم نے اپنی قوم سے علٰیحدگی اختیار کرلی ہے لیکن میرے دین میں بھی داخل نہیں ہوئے ہو اور نہ ان ملتوں ہی میں سے کسی کے دین میں داخل ہوئے ہو؟
انھوں نے جواب دیا، ہم نے اپنے آبا و اجداد کے بُت پرستی کے دین کو چھوڑ کر دین اسلام کو اختیار کر لیا ہے جسے ہمارے رسول محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سکھایا ہے جن پر بذریعہ وحی اللہ کے احکام نازل ہو رہے ہیں۔
یہ سن کر نجاشی نے دربار میں راہبوں , مذہبی پیشواؤں اور علماء کو جمع کرکے ان سے پوچھا، کیا حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور روزِ قیامت کے درمیان کوئی اور نبی آئے گا؟
انھوں نے کہا “قسم ہے اللہ کی ! ایک رسول ضرور آئے گا جس کی آمد کی بشارت حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے دی ہے اور فرمایا کہ جو اس رسول پر ایمان لائے گا وہ مجھ پر ایمان لائے گا اور جو ان کے ساتھ کفر کرے گا وہ مجھ سے کفر کرے گا۔
یہ سن کر نجاشی نے حضرت جعفر رضی اللہ عنہ سے پوچھا مجھے بتاؤ کہ وہ کس بات کا حکم دیتے ہیں اور کن چیزوں سے منع کرتے ہیں؟
حضرت جعفر رضی اللہ عنہ نے ایک برجستہ تقریر کی جس میں عرب جاہلیت کی حالت اور اسلامی تعلیمات کا بہترین خلاصہ پیش کیا جسے اہلِ بلاغت نے ابلغ الخطبات کا نام دیا ہے۔
حضرت جعفر نے کہا۔
اے بادشاہ ! ہم لوگ ایک جاہل قوم تھے۔ بتوں کو پوجتے تھے , مردار کھاتے تھے , بدکاریاں کرتے تھے , ہمسایوں کو ستاتے تھے , بھائی بھائی پر ظلم کرتا تھا , قوی لوگ کمزوروں کو کھا جاتے تھے۔
ہم اسی حال میں تھے کہ اللہ تعالیٰ نے خود ہم ہی میں سے ایک رسول بھیجا جس کی شرافت اور صدق و دیانت سے ہم لوگ پہلے سے ہی واقف تھے۔ اس نے ہم کو اسلام کی دعوت دی اور یہ سکھلایا کہ ہم پتھروں کو پوجنا چھوڑدیں , سچ بولیں , خونریزی سے باز آئیں , یتیموں کا مال نہ کھائیں , ہمسایوں کو چین سے رہنے دیں , عفیف عورتوں پر بدنامی کا داغ نہ لگائیں , نماز پڑھیں , روزے رکھیں , زکوٰۃ دیں , صرف ایک اللہ کی عبادت کریں اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائیں۔
ہم اس پر ایمان لائے , شرک اور بت پرستی چھوڑ دی اور تمام بُرے کاموں سے باز آئے۔ اس پر ہماری قوم ہماری جان کی دشمن ہوگئی اور ہم کو مجبور کر رہی ہے کہ اُسی گمراہی میں پھر واپس آجائیں۔ آخر ہم مجبور ہوکر آپ کے ملک میں نکل آئے۔ دوسروں کے بجائے آپ کے پاس آنا پسند کیا اس امید پر کہ اے بادشاہ ! یہاں ہم پر ظلم نہ ہو گا۔
نجاشی نے کہا، جو کلام الہٰی تمہارے پیغمبر پر اترا ہے اس کا کچھ حصہ سناؤ۔
حضرت جعفر رضی اللہ عنہ نے سورۂ مریم کی چند آیات کی خوش الحانی سے تلاوت کی جسے سن کر نجاشی پر رقت طاری ہوگئی اور آنسوؤں سے اس کی داڑھی تر ہو گئی، پھر کہا، خدا کی قسم ! یہ کلام اور انجیل دونوں ایک ہی چراغ کے پرتو ہیں۔
یہ کہہ کر نجاشی نے سفرائے قریش سے کہا, تم واپس چلے جاؤ, میں ان مظلوموں کو ہرگز ہرگز تمہارے حوالے نہ کروں گا. مسلمان مہاجروں سے مخاطب ہو کر بولا, جاؤ ! میری مملکت میں امن کے ساتھ زندگی بسر کرو, پھر تین بار کہا اگر تمہیں کوئی گالی بھی دے گا تو اس پر تاوان لگے گا.
یہ سنتے ہی قریش کے دونوں سفراء بڑے بے آبرو ہو کر دربار سے نکل گئے لیکن پھر عمرو بن عاص نے عبداللہ بن ربیعہ سے کہا اللہ کی قسم ! کل ان کے متعلق ایسی بات لاؤں گا کہ ان کی ہریالی کی جڑ کاٹ کر رکھ دوں گا . عبد اللہ بن ربیعہ نے کہا, نہیں ! ایسا نہ کرنا.. ان لوگوں نے اگرچہ ہمارے خلاف کیا ہے لیکن ہیں بہرحال ہمارے اپنے ہی کنبے قبیلے کے لوگ مگر عَمرو بن عاص اپنی رائے پر اَڑے رہے۔
دوسرے دن عمرو بن العاص نے دربار میں رسائی حاصل کی اور نجاشی سے عرض کیا. حضور ! کیا آپ کو معلوم ہے کہ وہ لوگ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی نسبت کیا اعتقاد رکھتے ہیں؟
نجاشی نے مسلمانوں کو دربار میں طلب کیا ۔ تمام راہب اور علماء بھی دربار میں بلائے گئے۔ مسلمانوں کو تردد ہوا کہ اگر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ابن اللہ ہونے سے انکار کرتے ہیں تو نجاشی ناراض ہو جائے گا , اس لئے کہ وہ عیسائی ہے۔ مسلمانوں کو گھبراہٹ ہوئی لیکن انہوں نے طے کیا کہ سچ ہی بولیں گے , نتیجہ خواہ کچھ بھی ہو..
نجاشی نے حضرت جعفر رضی اللہ عنہ سے پوچھا “عیسیٰ بن مریم علیہ السلام کے بارے میں تم لوگوں کا کیا عقیدہ ہے..؟”
حضرت جعفر رضی اللہ عنہ نے کہا”ہم عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں وہی بات کہتے ہیں جو ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لے کر آئے ہیں یعنی حضرت عیسیٰ اللہ کے بندے , اس کے رسول , اس کی روح اور اس کا کلمہ ہیں جسے اللہ نے کنواری پاکدامن حضرت مریم علیہا السلام کی طرف القا کیا تھا.
یہ سن کر نجاشی نے زمین سے ایک تنکا اٹھایا اور کہا.. “واللہ ! جو تم نے کہا حضرت عیسیٰ علیہ السلام اس تنکے کے برابر بھی اس سے زیادہ نہیں ہیں۔
پادری اور راہب جو دربار میں موجود تھے نہایت برہم ہوئے، ان کے نتھنوں سے خرخراہٹ کی آواز آنے لگی.. نجاشی نے ان کے غصہ کی کچھ پرواہ نہ کی اور قریش کے سفیر ناکام نکل آئے۔ نجاشی نے حکم دیا کہ قریش کے وفد کے تمام تحائف واپس کر دیئے جائیں اور وہ ملک چھوڑ کر چلے جائیں۔
حضرت اُم سلمہ رضی اللہ عنہا جنہوں نے اس واقعے کو بیان کیا ہے , فرماتی ہیں کہ اس کے بعد ہم لوگ وہاں بہترین ملک میں بہترین پڑوسی کے ساتھ مقیم رہے۔
ماخذ تاریخ کے اوراق
Discover more from Press for Peace Publications
Subscribe to get the latest posts sent to your email.