تجزیہ :شمس رحمان

یہ مضمون خاص طور سے آزاد جموں کشمیر کے آزادی و ترقی  پسندوں اور  ان تمام ریاستی باشندوں کے لیے لکھا گیا ہے جو اس خطے میں ایک جمہوری ، بااختیار اورباوقار فلاحی حکومت دیکھنے کے خواہشمند ہیں۔میں نے  اس میں  ایک آزادی پسند مشاہدہ کار طالب علم کی حیثیت سے    مذکورہ سیاسی قوتوں کے لیے جمہوری عمل میں حصہ لینے کی ضرورت ، اہمیت اور طریقہ کار پر اپنی سمجھ بوجھ کے مطابق رائے کا اظہار کیا ہے۔ شروع میں تین کلیدی اصطلاحات کی وضات کی گئی ہے جس کے بعد اصل سوال پر بحث کی گئی ہے کہ جمہوری عمل میں کیوں اور کیسے حصہ لیا جانا چاہیے۔

آزاد کشمیر

1946

میں ” آزاد کشمیر” کے تصور کی ابتداء سے لے کر آج تک ‘آزاد کشمیر’ کے تصور اور موجود آزاد جموں کشمیر حکومت تک بہت کچھ لکھا گیا ہے جس کا یہاں طوالت سے بچاؤ کے لیے صرف خلاصہ ہی پیش کیا گیا ہے۔

آزاد کشمیر کا ابتدائی تصور جو آل جموں کشمیر مزدور کسان پارٹی کے کنونشن منعقدہ  1946 میں پیش کیا گیا تھا وہ ایک ‘سوشلسٹ جمہوریہ’ کا تصور تھا  جس کا تفصیلی خاکہ پریم ناتھ بزاز نے فراہم کیا تھا۔ اس کی تفصیلات ان کی کتاب ‘ آزاد کشمیر : ایک سوشلسٹ جمہوری تصور’ میں دیکھی جا سکتی ہیں۔ تاہم ‘آزاد کشمیر’ کی جو پہلی حکومت جس کا اعلان چار اکتوبر 1947 کو راولپنڈی سے ہوا اس کو عارضی جمہوریہ کا نام دیا گیا۔ یہ اعلان مسلم کانفرنس کے ایک دھڑے کی طرف سے کیا گیا۔ عملی طور پر یہ حکومت،  اعلان اورایک کاغذی حکومتی ڈھانچے سے آگے نہ بڑھ سکی۔ اس کے صدر غلام نبی گلکار ریاست کے مہاراج ہری سنگھ کو ‘گرفتار’ کرنے ( اور شیخ عبداللہ کو اس کا حصہ بنانے) کے لیے سری نگر چلے گئے اور وہاں جا کر خود گرفتار ہو گئے۔ لہذا پاکستان کے ارباب اختیار نے ریاست پر قبائلی حملے کے دو روز بعد ‘آزاد’ کشمیر’  کے نام سے چوبیس اکتوبر کو ایک حکومت قائم کر دی۔ یکم جنوری 1948 کو بھارت کی طرف سے کشمیر مسئلے کو اقوام متحدہ میں لے جانے کے بعد اس حکومت کی موجودگی  کو ‘مقامی اتھارٹی’ کے طور پر تسلیم کیا گیا اور 28 اپریل 1949 کو پاکستان کے حکمرانوں نے اس حکومت کے سربراہ سردار محمد ابراہیم خان سے مہاراجہ راج سے چھڑائے جانے والے دوسرے ریاستی حصے گلگت بلتستان کے ساتھ ساتھ خارجہ امور، دفاع اور رائے شماری وغیرہ  سے متعلقہ اختیارات بھی لے لیے۔ لیکن جلد ہی اس کے اندرونی اختیارات پر بھی وزارت امور کشمیر اور بعد ازاں کشمیر کونسل بٹھا دی ۔ یوں یہ حکومت ایک تابعدار ، بے بس، مجبور اور لاچار و بے اختیار اور بے وقار مقامی اتھارٹی بنتی چلی گئی۔ اس خطے کے عوام جنہوں نے دو قومی نظریے کے اثر تلے ‘تحریک آزاد کشمیر’ کے قائدین کی طرف سے مسلمانوں کے لیے باوقار اور با اختیار حکمرانی اور خوشحالی کی آس میں ریاست جموں کشمیر کے اندر مہاراجہ کی طرف سے محدود مگر فروغ پذیر جمہوری عمل کو لات مار کر بغاوت کی تھی،  ‘آزادی’ کے بعد ‘ غیر مسلم’ راجوں اور افسر شاہی کی جگہ مسلم قبائل کے  راجوں اور مسلم قبائل کی  افسر شاہی کے راج میں آگئے۔ آزادی صرف ‘نئے مہاراجوں اور نئی افسر شاہی’ کو ہی نصیب ہوئی۔

تقسیم سے پہلے اس خطے جس کو ‘آزاد کشمیر’ کا نام دیا گیا ، میں بے شک اوپرلہ اور بااختیار طبقہ اکثریتی طور پر غیر مسلموں پر مشتمل تھا اور استحصال کی مختلف شکلیں بھی موجود تھیں جن کی جڑیں صدیوں میں اتری ہوئی تھیں،  لیکن تقسیم کے بعد صرف یہ تبدیلی آئی کہ غیر مسلموں کے قتل اور فرار کے بعد ان کی جگہ مسلمانوں نے لے لی۔ایک عام آدمی کے لیے  روزمرہ زندگی میں سوائے مذہبی آزادی کے احساس کے ، طبقاتی اور استحصالی جبر میں کوئی خاطر خوا فرق پیدا نہ ہوا۔ خطے کے وسائل اور اختیارات کے استحصال میں بھی مہاراجہ راج کے اہلکاروں کی جگہ پاکستانی اور ان کے ایستادہ حکمرانوں کے بیٹھ جانے سے کوئی فرق نہ پڑا بلکہ اس میں اضافی ہی ہوتا چلا گیا۔  مختصر یہ کہ  فرسودہ استحصالی  ڈھانچہ نہ صرف موجود رہا  بلکہ  اب اس کے خلاف مذہب کے نام پر آواز بھی نہیں اٹھائی جا سکتی تھی ۔ جو آوازیں اٹھیں ان کو ‘ عام آدمی’ تک پہنچنے سے روکنے کے لیے ان کے کانوں میں ‘اسلام’ اور ‘ پاکستان’ کی مخالفت کے الزامات  کی روئی ڈال دی گئی ۔ بھلا ہو ڈڈیال کے محنت کش جہازیوں کا جنہوں نے مہاراجہ عہد میں ہی میرپور میں معاشی تنگدستیوں سے بھاگ کر ‘ولایت’ دریافت کیا تھا کہ یہاں پائی جانے والی غربت اور افلاس کی شدت کو کم کرنے کے ایسے عمل کا آغاز کیا جس سے نہ صرف عام آدمی کی ایک بڑی اکثریت کو معاشی خوشحالی نصب ہوئی بلکہ آزادی کے بعد پیدا ہونے والے ‘آزاد’ کشمیری  حکمران  مگر بدعنوان طبقے کے بھی وارے نیارے ہو گے اور پاکستان کے بد عنوان حکمرانوں کو بھی ذر مبادلہ اور بینکوں اورقدرتی وسائل کی شکل میں دولت لوٹنے کا  ایک وسیلہ جاریہ ھاتھ لگ گیا۔ تارکین وطن میں جو چند آزاد کشمیری برطانیہ کے کاروباری میدان میں اپنی صلاحیتوں کے بل بوتے پر کامیاب ہوئے تو انہوں نےاپنے وطن میں بینکاری کے ذریعے مقامی معیشت کو اپنے پاؤں پر کھڑا کرنے کی کوشش کی تو پاکستان میں پیپلز پارٹی کی پہلی جمہوری حکومت نے دن دھاڑے  ڈاکہ مار کر ان بینکوں کو بند اور بینکاروں و سرمایہ کاروں کو  بدنام کر کے جیل میں ڈال دیا۔

تقسیم سے پہلے اس خطے میں اوپری طبقہ جس کو مہاراجہ راج میں جاری استحصال میں حصہ ملتا تھا وہ مہاراجہ راج میں شریک اہلکاروں،  بڑے زمینداروں اور چند کاروباریوں پر مشتمل تھا۔ تقسیم کے بعد اگرچہ سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کی حد تک اسلام اور مسئلہ کشمیر موجود رہے لیکن عملی طور پر اس ہی طبقے سے سیاست میں آنے والے برادری اور علاقہ پرستی کے ہتھیاروں سے پاکستان کے حکمرانوں کے ہاتھ خطے کا اختیار اور وسائل بیچ کر عام آدمی اور باقی ماندہ وسائل کو لوٹ کر حکومت اور انتظامیہ میں ‘حکمران طبقے’ کی شکل اختیار کر گئے۔

آزاد جموں کشمیر میں جمہوری عمل

آزاد  جموں کشمیر میں جمہوری عمل اس ہی تناظر میں پروان چڑھا۔ 1961 تک تو اس خطے کو، جہاں 1947 میں متحدہ ریاست میں ہونے والے اخری انتخابات کے وقت جمہوری عمل جڑ پکڑ چکا تھا ، کاروبار کے طور پر ‘کاروباری قواعد’ ( رولز آف بزنس) کے تحت ہی چلایا گیا ۔ 1961 تک قانون ساز کونسل کی شکل میں یہ جمہوری عمل جاری رہا لیکن تب تک ‘آزاد پسند’ آوازیں ‘ الحاق پاکستان ‘ کے نام پر آجارہ داری کے عادیوں کو للکارنے لگیں تو پاکستان کی اس پہلی نام نہاد جمہوری حکومت کے زیر سایہ یہاں خود مختار کشمیر کے حامیوں کو انتخابی عمل اور ملازمتوں سے باہر رکھنے کے لیے ‘ الحاق پاکستان سے وفاداری ‘ کے حلف کی شق متعارف کروا کر یہاں کے جمہوری نظام میں جو معمولی سی روح موجود تھی اور فروغ پذیر ہو سکتی تھی اس کا گلا گھونٹ دیا گیا ۔ یوں اس طبقے کو جس نے مہاراجہ عہد کے استحصالی ڈھانچے میں غالب غیر مسلموں کے چلے جانے کے بعد ان کی جگہ لی تھی مزید کھل کھیلنے کا موقع میسر آگیا اور آزادی پسند  نظام سے باہر اپنی سیاست کرنے پر مجبور ہو گئے۔

حق پرست

حق پرست کی اصطلاح سے میرا تعارف یہاں آزاد کشمیر کے موجودہ بلدیاتی انتخابات ( نومبر دسمبر 2022)   میں ہوا ہے۔ یہ ان امیدواروں کے لیے استعمال ہوئی ہے جن میں آزادی پسند اور ترقی پسند دونوں شامل ہیں لیکن انہوں نے الحاق کی شق کے باوجود انتخابات میں حصہ لینے کا فیصلہ کیا۔ میرے خیال میں یہ ایک موزوں اور وسیع تر اصطلاح ہے اور آزادی پسندوں اور ترقی پسندوں کے لیے آزاد کشمیر کے جمہوری عمل میں حصہ لینے کے لیے یہ ایک جامع شناخت ہے۔ یہ درحقیقت ان کی وہ شناخت ہے جو موجود زمینی سیاسی حالات اور حقائق  سے پیدا ہوئی ہے اس لیے تمام ‘قوم پرستوں، خود مختاریوں، آزادی پسندوں اور ترقی پسندوں’ کو  سیاسی جدوجہد کے اس نئے مرحلے پر اس ہی اصطلاح کو اپنانا چاہیے کیونکہ آزاد کشمیر کے اندر وہ سیاسی حق پر ہیں اس لیے حق پرست ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہر گز نہیں کہ ‘الحاق نواز ‘ جماعتوں میں کوئی حق پر نہیں ہے اور کوئی حق پرست نہیں ہے۔ درحقیقت تمام الحاق پسند جماعتوں میں کارکنان کی اکثریت بنیادی طور پر حق پرست ہے اور رہنماؤں میں بھی کئی ایک حق پرست ہیں لیکن متبادل نہ ہونے کی وجہ سے اس ناحق نظام کا حصہ ہیں ۔ درحقیقت آزاد کشمیر کے عوام کی اکثریت حق پرست ہے۔

الحاق کی شق کے بعد حق پرستوں کا ایک بڑا حصہ  کچھ مجبوری میں، کچھ احساس جرم کے زیر اثر اور کچھ شعوری طور بھارتی مقبوضہ کشمیر کو ‘آزاد’ کروانے کی جدوجہد میں مشغول ہو کر ‘آزاد’ کشمیر کے سیاسی عمل میں حصہ لینے کو ‘آزادی’ مخالف سمجھنے اور قرار دینے لگے۔ کچھ نے الحاق کی جماعتوں میں شامل ہو کر سیاسی اور انتظامی  میدانوں روزگار حاصل کر لیا۔

جمہوری عمل میں حصہ کیوں لینا چاہیے؟

ریاست کی تقسیم جو مختلف اندرونی اور بیرونی  سیاسی، معاشی اور عسکری عوامل کا نتیجہ تھی نظریاتی اعتبار سے وہ ایک اور دو قومی نظریے کی کشمکش سے پیدا ہونے والی ہندوستان کی تقسیم کے عمل سے جُڑی ہوئی تھی۔  تقسیم کی لکیر کے ایک طرف آل جموں کشمیر نیشنل کانفرنس جو کہ انڈین نیشنل کانگرس کے قریب اور زیر اثر تھی کو ریاستی باشندوں کی بھاری اکثریت کی حمایت حاصل تھی اور دوسری طرف آل جموں کشمیر مسلم کانفرنس کو جو کہ پاکستان مسلم لیگ کے قریب اور اس کے زیر اثر تھی۔ سوائے چند آوازوں کے بھارتی استعمال میں آنے والے ریاستی علاقوں میں نیشنل کانفرنس یا الحاق ہندوستان کے خلاف کسی قسم کی کوئی قابل ذکر مزاحمت اور جدوجہد نہیں ہوئی تھی اور نہ ہی پاکستانی زیر استعمال علاقوں میں الحاق پاکستان کے خلاف، بلکہ دونوں حصوں میں کشمیر کی بڑی جماعتوں کی قیادت اور عوام کی بھاری اکثریت ایک طرف سیکولرازم کے نام پر بھارت کے ساتھ ( ایک قومی نظریہ) اور دوسری طرف اسلام کے نام پر پاکستان کے ساتھ ( دو قومی نظریہ) جانے پر خوش تھی۔ آزاد کشمیر کے علاقوں میں جو لڑائی لڑی گئی وہ ہندو ڈوگرہ راج کے خلاف پاکستان کی سرپرستی میں لڑی گئی جس میں آزاد کشمیر بھر میں غیر مسلم آبادی کا قتل عام کیا گیا اور دوسری طرف وادی میں قبائلی حملہ آوروں کے خلاف نیشنل کانفرنسی ملیشیاء نے مزاحمت کی اور جموں میں ہندوؤں نے مسلمانوں کا قتل عام کیا۔ اس تناظر میں ہونے والی ریاست کی تقسیم اس لحاظ سے کامل تقسیم تھی کہ ایک طرف بھارت نواز نیشنل کانفرنس اور دوسری طرف پاکستان نواز مسلم کانفرنس کے علاوہ کوئی قابل ذکر  سیاسی جماعت موجود ہی نہیں تھی۔

ریاست اور خاص طور سے وادی اور آزاد کشمیر میں بھارت اور پاکستان کے سرکاری بیانیوں کے غلبے اور آجارہ داری میں تبدیلی کا عمل اس وقت شروع ہوا جب ایک طرف نیشنل کانفرنس اور دوسری طرف مسلم کانفرنس کی حکومتوں کو مختلف خدشات اور الزامات کی بنیاد پر دہلی اور اسلام آباد  والوں نے  ہٹا دیا اور دونوں طرف مقامی ریاستی حکومتوں کی اندرونی خود مختاری اور تشخص کو پامال کرتے ہوئے دہلی اور کراچی ( بعد ازان اسلاما آباد) کی گرفت کو مختلف ترامیم اور اداروں کے ذریعے مضبوط کرنا شروع کیا گیا۔ تفصیلات میں جائے بغیر تبدیلی کے اس عمل کے دو کلیدی مراحل کا مختصر ذکر یہاں مناسب ہو گا۔

پہلا مرحلہ تھا رائے شماری کا ۔ اگرچہ اس سے پہلے میرپور میں ایک خود مختاری پسند جماعت ‘عوامی کانفرنس’ وجود میں آچکی تھی لیکن اس کا اثر میرپور کے چند سیاسی کارکنان تک محدود تھا۔ جبکہ شیخ عبداللہ کی معزولی اور گرفتاری کے بعد وادی میں اٹھنے والے رائے شماری کے نعرے کی گونج نے لکیر کے دونوں طرف بھارت اور پاکستان کے بیانیوں کے خلاف ایک نیا سیاسی ابھار پیدا کر دیا۔ اس نے پہلے بھارتی مقبوضہ علاقے اور پھر پاکستانی مقبوضہ علاقے میں محاذ رائے شماری کی شکل میں ایک موثر آزادی پسند پلیٹ فارم تشکیل دیا جس کا اثر و رسوخ قیادت کے سمجھوتوں اور حدود کے باوجود بتدریج فروغ پاتا رہا۔

قومی آزادی کا مرحلہ

دوسرا مرحلہ قومی آزادی کا مرحلہ تھا جس نے نوجوانوں میں رائے شماری سے مایوسی کے احساسات سے جنم لیا اور  جو مختلف موثر اقدامات اور واقعات سے توانائی پاتا ہوا 1987 میں بھارتی قبضے کے خلاف ایک بڑی عوامی مزاحمتی تحریک کی شکل اختیار کر گیا۔ مجموعی طور پر بھارت و پاکستان کے بیانیوں کے مخالف ان دونوں مراحل کے دوران ریاست کے دونوں اطراف خاص طور سے وادی، آزاد کشمیر اور تارکین وطن کشمیریوں میں آزادی کے بیانیے کے لیے جگہ اور گنجائش وسعت پذیر رہی۔ پاکستان اور بھارت کے حکمرانوں اور قبضہ مشینری بشمول مقامی کل پرزوں کے مسلسل جبر اور پروپیگنڈے کے  باوجود آزادی کی سوچ و فکر و نظریے کی حمایت میں اضافہ جاری ہے۔ اگرچہ بھارتی مقبوضہ وادی کشمیر میں 5 اگست 2019 کے بعد سے مزاحمتی اور آزادی پسند سیاست کی پیدا کردہ اس سیاسی جگہ کو فوجی قبضے میں لے لیا گیا ہے ،  اکثر آزادی پسند قیادت اور کارکنان کو جیلوں میں ڈال رکھا ہے اور فوج کی ایک بڑی تعداد اور سول مشینری کے ہاتھوں کئی ایک جابرانہ اقدامات اور ہتھکنڈوں کے ذریعے مزاحمتی سیاست کو ختم کرنے کا کام مسلسل جاری ہے لیکن آزادی کی سوچ و فکر اور امنگیں بھرحال موجود ہیں۔

دوسری طرف آزاد کشمیر میں جیسا کہ اوپر بیان کیا 1975 کی دہائی میں آزاد کشمیر سے آزادی پسندوں کا ایک بڑا حلقہ بھارتی مقبوضہ کشمیر کی آزادی میں مصروف ہو گیا تھا اور آزاد کشمیر سے ہزاروں جوان بھارتی قبضے کے خلاف لڑنے کے لیے وہاں گے تھے۔  لیکن اس دوران آزاد کشمیر میں بھی خود مختاری کے نظریے اور یاست کو فروغ حاصل ہوا ۔ اس کے نتیجے میں جموں کشمیر لبریشن فرنٹ آزادی پسندوں کی سب سے بڑی جماعت بن کر ابھری۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ ترقی پسند فکر و سیاست کی علمبردار تنظیمیں جو جموں کشمیر لبریشن فرنٹ کی طرف سے بھارتی مقبوضہ علاقے میں تحریک کے مخالف تھے کہ ‘آزادی کی یہ تحریک آزاد نہیں تھی’ ان کے نظریاتی اثرو رسوخ اور قبولیت میں بھی اضافہ ہوا۔ بلکہ لبریشن فرنٹ کے اندر بھی درحقیقت ترقی پسندانہ نظریات کو پذیرائی ملی جس کے نتیجے میں وادی کشمیر کے حالات کے تناظر میں ابھرنے والے اور آزاد کشمیر کے تناظر میں ابھرنے والے خود مختاری کے تصور اور اس کے پرچارکوں میں کشمکش بھی پیدا ہوئی جو مختلف گروپوں کی شکل میں سامنے آئی اور آ رہی ہے۔  تاہم مجموعی طور پر آزاد کشمیر میں اس وقت حق پرست ( آزادی پسند، ترقی پسند) ایک بڑی عددی اور سیاسی قوت بن چکے ہیں۔ لیکن وہ تاریخ کے ایک ایسے مقام پر کھڑے ہیں جہاں رائے شماری اور مسلح جدوجہد کے ذریعے قومی آزادی کے مراحل اپنا اپنا کردار ادا کر کے تاریخ کا حصہ بن چکے ہیں۔ حالات ایک نئے موڑ پر آ چکے ہیں۔ اس مقام سے آگے بڑھنے کے دو راستے نظر آتے ہیں۔

ایک ہے موجودہ روش قائم رکھنا ۔ پوری ریاست کو متحد کرنے کے لیے جس خطے میں موجود ہیں اس کے سیاسی و معاشی حالات سے کٹ کر چلتے رہنا۔اس کا نتیجہ میرے خیال میں فرسٹریشن اور بیزاری میں اضافے کی شکل میں نکلے گا اور بتدریج یہ تنظیمیں مزید توڑ پھوڑ کا شکار ہو کر گپ شپ گروپ یا بہت زیادہ ہوا تو اپنے اپنے سرپرستگان کے لیے عارضی دباؤ پیدا کرنے والی قوتوں کی شکل اختیار کرتے جائیں گے۔

دوسرا راستہ یہ ہے کہ ریاست کے دیگر خطوں کو وہاں بسنے والوں پر چھوڑ دیں اور جس خطے میں موجود ہیں اس کے ہر ایک پہلو اور سطح پر بھرپور شعوری اور منظم حصہ لیں۔

حصہ کیسے لیا جانا چاہیے ؟

مثالی طور پر تو اس کا آغاز تمام حق پرست جماعتوں کے قائدین اور حق پرستوں جماعتیں چھوڑ کر پاکستانی یا کشمیری انتخابی جماعتوں میں جانے والے اور حق پرست سیاست کے انفرادی حامی رہنماؤں کی ایک کم از کم دو روزہ مشاورتی کانفرنس سے ہونا چاہیے جس کا بنیادی مقصد آزاد کشمیر میں ایک جمہوری سیاسی جماعت کے قیام پر اتفاق رائے قائم کرنا ہونا ہونا چاہیے۔

اس میں تقریروں کی بجائے مختلف سیشنوں میں جماعت کے قیام کے مختلف پہلوؤں پر ورکشاپیں ہونی چاہیں جن میں جماعت کے قیام، نام ، منشور ، تنظیم سازی ، قیادت و دیگر عہدوں کے انتخابات کے طریقہ کار اور سیاسی حکمت عملی پر اتفاق رائے حاصل کرنے  جیسے پہلوؤں اور معاملات پر کھل کر  بحث مباحثہ ہونا چاہیے۔

بنیادی اور مرکزی تھیم حق پرست سیاست کی مضبوطیاں ، کمزوریاں، خطرات اور مواقع اجاگر کرنا ہونا چاہیے جس کے بعد مضبوطیوں اور مواقع کو عمل جامہ پہنانے اور کمزوریوں کو دور کرنے اور خطرات کا مقابلہ کرنے کے طریقوں اور درکار وسائل اور ان کے حصول پر حقیقت پسندانہ لائحہ عمل تیار کرنے پر سیشن ہونے چاہیے۔

آخری سیشن میں جماعت کے منشور کے سیاسی، معاشی، اقتصادی، انتظامی اور ثقافتی پہلوؤں پر متعلقہ شعبوں میں دلچسپی اور مہارت رکھنے والے حاضرین پر متشمل کمیٹیاں قائم کی جائیں جو اندرون اور بیرون وطن متعلقہ افراد کی مدد سے کمیٹیوں کو وسعت دے کر دی گئی مدت تک تحقیق کر کے اپنے اپنے شعبے کے لیے عملی اور حقیقت پسندانہ دستاویزات تیار کریں ۔

ان تمام دستاویزات کی تیاری کے بعد ان کی روشنی میں جماعت کا منشور تیار کیا جائے جس کے بعد رکن سازی کے لیے مدت کا تعین کیا جائے ۔ اس مدت کے دوران ریاست بھر میں اور بیرون ریاست رکن سازی کی مہم چلائی جائے جس کے دوران تمام دستیاب ذرائع استعمال کر کے منشور کو زیادہ سے زیادہ افراد تک پہنچایا جائے اور جماعت کے تمام ارکان ( ابھی سب ارکان ہی ہوں گے کوئی قائد نہیں ہو گا) ممکنہ زرائع سے معاشی وسائل اکٹھے کریں جو کہ ایک عارضہ اکاؤنٹ کمیٹی کے ذریعے جماعت کے اکاونٹ میں جمع ہوں۔

اس کے بعد متفقہ مدت کے بعد انتخابات کا اعلان کیا جائے اور انتخابات میں کوئی بھی کارکن کسی بھی عہدے کے لیے مقابلے میں اپنا نام دینے کا مجاذ ہونا چاہیے ۔ انتخابی مہم کے دوران تمام امیدوار جمہوری انداز میں مہم چلائیں اور انتخابات کے نتائج کو تسلیم کرتے ہوئے جیتنے اور ہارنے والے میدان عمل میں عوامی حمایت حاصل کرنے اور جماعت کے ارکان کی تعداد میں اضافے کے لیے سرگرم عمل رہیں۔

منشور کی   مجوزہ بنیادیں

ظاہر ہے منشور و آئین اور حکمت عملیاں  کارکنان کی مشاورت سے ہی طے کیے جائیں گے تاہم مثال کے طور پر کچھ تجاویز یہاں پیش کی جا رہی ہیں۔

نچوڑ

یہ مضمون ذاتی سمجھ بوجھ کی روشنی میں آزاد جموں کشمیر میں موجود اور سرگرم تمام حق پرست جماعتوں اور حق پرست سیاست کے حامیوں کے لیے لکھا گیا ہے۔ اگرچہ یہ خیال تو کئی سالوں سے پل رہا تھا  اور اس پر گاہے گاہے لکھا بھی لیکن موجودہ بلدیاتی انتخابات میں حق پرست امیدواروں   کو ملنے والی پذیرائی سے حوصلہ افزائی پا کر کھل کر  اپنی تجاویز پیش کی ہیں۔ اس کا مقصد  جمہوری عمل میں حصہ لینے کے حوالے سے ایک مثبت اور صحت مند بحث کا آغاز کرنے  کی کوشش کرنا ہے۔  چونکہ میری حیثیت  ایک مشاہدہ کار اور سوچنے والے سے زیادہ   نہیں ہے اس لیے اصل کام سیاسی میدان میں سرگرم عمل سیاسی ذہن و فکر اور عملی تجربہ رکھنے والے حق پرست سیاستدانوں کا ہے کہ وہ کس طرح الگ الگ  تنظیمی اور نظریاتی دائروں سے نکل کر  ایک  باقاعدہ اور باضابطہ سیاسی جماعت  قائم کرنے کے لیے مشترکہ کوششیں اور کاوشیں کر سکتے ہیں۔ اس کے بغیر ظاہر ہے کہ یہ تجاویز محض   ایک لکھاری کے الفاظ   جملوں اورخواہشوں کا مجموعہ ہی رہیں گی۔

 

Leave a Reply

Discover more from Press for Peace Publications

Subscribe now to keep reading and get access to the full archive.

Continue reading

×

Send a message to us on WhatsApp

× Contact