بقلم: نگہت سلطانہ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔سرپٹ دوڑا جارہاتھا گھوڑے کی طرح۔۔  کئ تگڑے نوجوان اس کے پیچھے بھاگے، مگر اسے قابو نہ کر سکے۔ بھاگا جارہاتھا اور کہے جارپاتھا   38،345   اور  16000  اور۔۔۔اور 88،295۔۔

لوگ انگشت بدنداں کہ یہ ہے کون کہہ کیا رہا ہے۔۔۔!!

“چھلاوہ ہے یہ تو کوئ۔۔”

“نہیں۔۔۔مجذوب ہے.”

“دیوانہ ہے پکڑو ۔۔۔”

“پکڑو اسے۔۔”

کئ نوجوان اس کے پیچھے پیچھے بھاگ رہے تھے۔ اتفاق سے سڑک پر ٹریفک بھی زیادہ نہیں تھی ۔ ایک جگہ وہ رکا مگر ایک ثانیے کی تاخیر کئےبنا اچھلا اور سڑک کنارے ایک خالی پلاٹ کے گردا گرد بنی دیوار پہ جاکھڑاہوا اور انتہائ دکھی لہجے میں وہی اعداد وشمار دہرائے۔

اور پھر اسی چار دیواری پہ چلتا ہوا دوسری طرف کود گیا۔

لوگ دیکھتے رہ گئے، کدھر چلا گیا کچھ پتہ نہ چلا۔۔۔شام کے سائے گہرے ہورہے تھے۔خالی سڑک پہ آہستہ آہستہ چہل پہل بڑھنے لگی ۔لوگ اپنی اپنی راہ ہو لیے۔

________________

 اسے اس اندھیر نگری میں داخل ہوئے کچھ  لمحے ہی بیتے تھے۔ واپس جانے والوں کے قدموں کی چاپ اسے اب بھی سنائی دے رہی تھی۔ کل تک وہ ان سب کے درمیان تھا، یہ اس کے اپنے تھے ۔ عام لوگ  تو اس کے دیدار کو ترس جاتے تھے۔ وہ ہر ایک سے ملاقات تو نہیں کر سکتا تھا۔  بڑا آدمی تھا۔ اس کے کندھوں پر کروڑوں لوگوں کی ذمہ داری کا “بوجھ” تھا۔ لوگ اس کی دولت اس کے پر تعیش طرزِ زندگی پر رشک کرتے تھے۔ اس کے دوست بھی کافی تھے اور دشمن بھی بہت تھے۔ اس نے اپنے  بچوں کے لیے بلکہ نواسوں پوتوں کے لیے بھی کافی مال ودولت اکٹھا کرلیاتھا.

 موسم گرما میں وہ ان سب کے ساتھ یورپ کے دورہ جات پلان کرتا تھا۔ہردن عید, ہر شب شبِ برات تھی۔ پانچوں گھی میں اور سر کڑاہی میں۔۔ پھر یکایک اس کے ملک میں احتجاجی ریلیوں اور دھرنوں کا نہ رکنے والاسلسلہ شروع ہوگیا۔ عوام کاٹھاٹھیں مارتا سمندر اس سے مطالبہ کررہا تھا کہ صیہونی سفاکیت پہ خاموشی بذاتِ خود ایک ظلم ہے۔ہر روز  جھلستے تڑپتے موت کے منہ میں جاتے غزہ کے معصوم بچوں کی تصاویر اخبارات میں دیکھتا تھا اور خود کو مطمئن کر لیتا کہ “میں تو مجبور ہوں میرے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں کیا کرسکتا ہوں۔۔”

لیکن آج وہ سب منظر کہیں گم ہوگئے تھے. وہ  عیش، وہ جائیدادیں، وہ سیر و سیاحت، مزے، وہ گھی وہ کڑاہی بھی سب پیچھے چھوڑ آیا تھا۔ تنِ تنہا پڑا تھا بے جان و بے حس ۔۔۔ شدید خوف اس کے اعصاب پر سوار تھا ۔۔۔ اچانک ایک خیال کوندا کہ آٹھوں یہاں سے نکل بھاگوں، مگر جب خود کو حرکت دینا چاہی تو پتہ چلا کہ  اس سے سب اختیارات سلب کر لیے گئے ہیں۔ شدید پریشانی نے اسے آن گھیرا ۔

  اچانک جیسے پھاٹک کھلنے کی آواز آئی۔ دو انوکھی صورت والے آئے اور اس کے دائیں بائیں کھڑے ہو گئے۔ آف اس قدر خوفناک صورتیں ۔ اس کا جی چاہا کہ آنکھیں بند کر لے مگر نہ کر سکا۔ اگلے ہی لمحے اس کی زبان ان کے سوالات کے جوابات دے رہی تھی بلکہ ایک ایک عضو بول رہاتھا اور اس کی مرضی کے خلاف بالکل صحیح صحیح جواب دے رہے تھے۔  اس کی زبان بولے جا رہی تھی۔ کہ ایک خوفناک دھماکہ ہوا اسے یوں لگا اس کے جسم کے ہزار ٹکڑے ہو گئے۔ وہ چلّانا چاہتا تھا، بھاگ جانا چاہتا تھا۔ لیکن کچھ بھی تو اس کے اختیار میں نہیں تھا۔

اسے لگا جیسے احتجاج کرتے مظاہرین کی آوازیں اس کے پردہء سماعت کو پھاڑ کے رکھ دیں گی، وہ کہہ رہے تھے  “غزہ کے معصوم بچوں کے کٹے پھٹے لاشے تمھیں آواز دے رہے ہیں…”

  اور پھر ۔۔۔ اگلے ہی لمحے اس کا جسم اصلی حالت میں واپس آگیا۔ وہ شکرادا کرنا چاہتا تھا, مگر اب کے ایک نئ مصیبت نے آن لیا۔ اس نے دیکھا اس تاریک کوٹھری میں آگ کا بڑا سا الاؤ روشن ہو گیا ہے۔۔۔

“یہ خواب ہے نا تھوڑی دیر تک اس خواب سے باہر آ جاؤں گا.” اس نے سوچا…

 “سنو! مظلوموں کو، تمھارے دینی بھائیوں کو زندہ جلایا جاتا رہا  اور تم چپ رہے۔ تمہاری کتابِ زندگی مکمل ہو چکی، دروازے بند ہو چکے، فیصلہ ہو چکا۔ اب تمہارا یہ خوفناک خواب تا قیامت ختم نہیں ہوگا.” ایک بھدی سی آواز نے اسے مزید خوفزدہ کردیا۔ اور پھر یہی ہوا، آگ کا الاؤ خود ہی ٹھنڈا ہوا۔ وہ سر تا پا جل چکا تھا۔ عجیب سڑاند اس کوٹھڑی میں پھیل چکی تھی۔ کرب سے چلّانا چاہتا تھا ۔۔ کراہنا چاہتا تھا ۔۔ پانی کے چند قطروں کی فرمائش کرنا چاہتا تھا، مگر کچھ بھی تو نہ کر سکا۔ چند لمحے یونہی بیت گئے ۔۔۔۔ پھر اس کا بدن اپنی اصلی حالت میں واپس آگیا۔ وہ آنکھیں مل لینا چاہتا تھا۔ اک لمحےکے لیے خوش ہونا چاہتا تھا کہ چلو یہ خواب تو ٹوٹا۔۔۔ لیکن یہ کیا ! اگلے ہی لمحے آگ کا الاؤ دوبارہ روشن ہوچکا تھا اور۔۔۔ اور اس کا ایک ایک عضو دوبارہ اس ہولناک آگ کا ایندھن بننے لگا تھا۔۔۔

________________

اس کی خدا داد صلاحیتوں سے کون ناواقف رہا ہوگا، لیکن اب کے جو کام اس نے کیا تھا اس نے اسے شہرت کی بلندیوں تک پہنچا دیا ۔۔۔ وہ اپنی گفتگو میں اکثر پہاڑی علاقہ جات اور گوٹھوں  کی “مظلوم” خواتین کا تذکرہ کرتی رہتی تھی کہ ان خواتین کو گھروں میں بند رکھا جاتا ہے۔ یہ الگ بات ہے اس نے جب بھی ان  عورتوں سے بات چیت کی انہیں اپنی زندگی سے خوش پایا ۔۔۔ اب کے اس نے اپنے ملک میں طلاق یافتہ خواتین پر ڈاکیومنٹری بنائی. گیارہ منٹ کی یہ ڈاکیومنٹری چند ہی دنوں  میں کروڑوں لوگوں کے لائکس اور کمنٹس لے چکی تھی.

 ۔۔۔ اپنے ملک میں اس کا انٹرویو کرتے ہوئے صحافی اس سے بار بار پوچھتے تھے..

 “غزہ کی مظلوم خواتین پر کب فلم بنائیں گی ؟”

تو ہر بار وہ موضوع بدل دیا کرتی تھی۔ غزہ پہ قیامت صغریٰ نہ تھمی ۔۔۔ ضمیر فروشی کی منڈی کی رونق بھی کبھی کم نہ ہوئی، مگر کچھ ایسا ہو گیا کہ آج اس کے اپنے ،بھیگی آنکھوں کے ساتھ اسے یہاں چھوڑ گئے تھے ۔۔۔

گھپ اندھیرا، چھوٹی سی کوٹھڑی کوئی در نہ کوئی روزن، وہ تن تنہا۔ اس نے پورا زور لگا کر چلّانا چاہا۔ مگر آواز حلق میں پھنس کر رہ گئی۔ ہاں اگلے ہی لمحے  دلدوز مناظر پہ مشتمل ایک خوفناک وڈیو  اس کے سامنے چلا دی گئی تھی۔ ایک سکول پر شدید بمباری اور بچوں کی چیخ و پکار ۔۔۔ اس نے کانوں میں انگلیاں ٹھونس لینا چاہیں، آنکھیں بند کر لینا چاہیں ۔۔۔ لیکن ۔۔۔ آہ ۔۔۔ یہاں تو ایک انگلی کا اشارہ  آنکھ کی ایک جھپکی تک اس کے اختیار میں نہ تھی۔ اس نے پورا زور لگا کر بولنا چاہا ” یہ۔۔۔ یہ ک۔۔۔کیا ہے؟؟یہ۔۔۔ یہ اتنے بڑے بڑے شعلے۔۔۔ یہ دھواں۔۔۔ یہ بارود کی بو۔۔۔ یہ بچوں کی چیخیں ۔۔۔۔یہ نوزائیدہ بچوں کے بدن کے کٹے پھٹے ٹکڑے۔۔۔ اف یہ  کیا ہے سب۔۔۔”

وہ چاہنے کے باوجود کچھ نہ بول سکی ۔ اگلے ہی لمحے شعلے اس کی طرف لپکنے لگے۔۔۔ بچوں کی چیخیں اس کے کان کے پردے پھاڑ دینا چاہتی تھیں۔ کٹی پھٹی  نعشیں اس کے قریب آرہی تھیں۔۔۔۔اور۔۔۔۔پھر وہ اس کے ساتھ لپٹ گئیں۔۔

“بچاؤ !  بچاؤ ! بچاؤ!

ارے کوئ ہے۔۔۔”

پکارنا چاہتی تھی، صدا دینا چاہتی تھی۔ مگر  ہر صدا گھٹ کے رہ گئ۔ اس کی چیخیں بچوں کی چیخوں میں مدغم ہو چکی تھیں۔۔ پل دو پل کے لیے یہ خوفناک آوازیں تھم گئیں۔ اس نے کان لگا  کر سنا۔۔۔

اس کی کوٹھڑی کے اوپر کچھ لوگوں کے  واپس جانے کی اور باتیں کرنے کی آواز آرہی تھی ” بہت بڑی آرٹسٹ تھی.”

“ہاں جی بس زندگی نے وفا نہیں کی.”…” بے چاری اچانک ہارٹ اٹیک کے شکنچے میں آگئ۔۔۔”

________________

قیمتی ریشمی پردے، اعلی معیار کی نشستیں، انمول فانوس، تیز روشنی بکھیرتے قمقمے ، اور  مشروبات اور ریفریشمنٹ اور۔۔۔۔ اور  گراں مایہ قبائیں ، پینٹ شرٹس نکٹائیاں ۔۔۔ اور پروٹوکول اور سیکیورٹی کے انتظامات۔۔۔۔   یہ سب رنگ تھے او آئ سی کے اجلاس کے۔

سب “قائدین”آچکے تھے ۔ بس ایک نشست خالی چھوڑ دی گئ تھی۔ وہ جو اتنے بڑے اسلامی ملک کا حکمران چند دن پہلے جہانِ عدم کوسدھار گیا تھا اس کی تعزیت کی علامت کے طور پہ یہ نشست خالی رکھی گئ تھی۔۔۔۔

غزہ پہ  اسرائیلی جارحیت پہ یہ قائدین”دکھی”  تھے ۔۔مگر “بےبس” تھے بے چارے ۔ طاقتور ٹینکوں ، طرح طرح کے میزائلوں، جوہری ہتھیاروں سے بھی لیس، معدنی وسائل۔۔۔۔ اور۔۔۔ اور تیل کی دولت سے مالامال۔۔۔ بہترین فوجیں ، بہترین انسانی دماغوں کی آبادیاں  رکھنے والے یہ مسلم دنیا کے حکمران لکڑی کے ساکت و جامد تختے دکھائ دے رہے تھے  یا ماٹی کے بے جان مادھو۔ اوروں کے اشاروں پہ ناچنے والی یہ مشرق وسطی، جنوبی ایشیا، شمالی افریقہ، وسطی ایشیا کے ممالک پہ مسلط  پتلیاں اپنے سامنے لکھی لکھائ تقاریر اور قراردادیں لیے بیٹھی تھیں ۔تھوڑی دیر تک اجلاس کا باقاعدہ آغاز ہو جائے گا ۔اسرائیل کو تسلیم(سوائے ایک دو کے) کیے بیٹھے یہ “مسلم حکمران”  اسرائیل کی بڑے پیار بھرے انداز میں

 “مذمت “کریں گے۔۔۔

علاوہ ازیں عالم اسلام کی ایک ،مایہ ناز ڈاکومینٹر،  کی تعزیت کی قرارداد بھی ایجنڈے میں شامل تھی

اجلاس شروع ہوا ہی چاہتاتھا کہ  خالی نشست کے نیچے سے اچانک ایک نوجوان نمودار ہوا. بلا کی تیزی سے  ان پتلیوں پہ جھپٹا۔۔۔ اور پھر کسی کی قبا نوچ ڈالی کسی کی نکٹائ کھینچ لی۔کسی کاگریبان پکڑلیا

“بے حمیتو! 38،345 شہدا کا خون تمھارے کندھوں پہ ہے۔۔۔۔ 16000 معصوم بچے تمھاری بے غیرتی کی نذر ہوگئے۔ بے حس ہو ذہنی غلام ہو ، سفاک ہو،ظالم ہو تم ظالم تم نے۔۔۔۔ ‘”

وہ پوری آواز سے چلّا رہاتھا۔۔

“یہ کون جاہل ہے پکڑو اسے۔۔۔۔ یہ جانتا نہیں ہم کس قدر “طاقتور” ہیں۔۔۔ پکڑو عبرت کا نشان بنادو اسے۔۔”

اور پھر  کئ ہاتھ اس کی جانب بڑھے گرفتار کر لیاگیا۔۔

اب جب مکمل سکون ہوگیا تو اجلاس کی کاروائ باقاعدہ شروع ہوئ.

________________

 اک معصوم سی چڑیا اڑتی اڑتی آئ اور بحیرہ روم سے پانی کا ایک  قطرہ  اپنی چونچ میں لیے بستی کی طرف محوِ پرواز ہوگئ۔۔۔

یہ بھی پیچھے ہولیا۔۔۔

“میں بستی میں لگی آگ بجھانے جارہی ہوں. دیکھا نہیں کیا؟ بچے زندہ جلادیے اسرائیل کی قابض فوج نے ۔ تم بھی پانی بھر لاؤ چونچ میں جلدی کرو۔۔۔”

چڑیا اسے ترغیب دلا رہی تھی.. مگر یہ کلموہا ۔۔۔ زبان کا کسیلا۔۔۔ جب بھی بات کرے گا جلی کٹی ۔۔۔

“یہ منہ اور مسور کی دال۔۔۔ اتنے سے پانی سے آگ بجھ جائے گی کیا؟۔۔ہونہہ۔۔۔”

“ارے اپنا فرض تو نبھانا ہے نا کل بڑی عدالت میں پیشی ہے جانتے ہو نا۔ جلدی کرو چونچ بھر پانی لے آؤ۔۔ رات بھیگنے کو ہے ہم  صبح کا انتظار کرتے رہے تو وہ  انسانیت کادشمن۔۔۔ وہ خون کاپیاسا۔۔۔ وہ آگ و بارود کے کھیل کے لیے  غزہ کے پھولوں کو ایندھن بنا لے گا کاگاجی!”

“اے! ساری انسانیت کادرد اپنے سینے میں رکھنے والی بھولی چڑیا! تم تو بخوبی جانتی ہو میں کم بخت ہوں۔۔۔کم نصیب ہوں۔۔۔۔ میرے نصیب میں کہاں انسانیت کی خدمت۔۔

یہ کہا اور واپس اڑ گیا۔

Leave a Reply

Discover more from Press for Peace Publications

Subscribe now to keep reading and get access to the full archive.

Continue reading

×

Send a message to us on WhatsApp

× Contact