سفرنامہ: یہ جو چین کو عِلم سے نسبت ہے
مصنّفہ: سیّدہ تسنیم جعفری
جائزہ: شجاعت علی راہی
مستنصر حسین تارڑ اور امجد اسلام امجد جیسے لوگوں نے ہماری ادبی عادتیں کچھ ایسی بگاڑی ہوئی ہیں کہ سفرنامے کے تصوّر سے ذہن میں ایک رومان پرور خیال انگیز فضا ابھر کر سامنے آ جاتی ہے۔ ہم طلسمی غرفوں سے جھانکتے ہوئے یا تو کوہِ قاف جیسی دیومالائی فضا میں معلّق ہو جاتے ہیں جہاں گلیشئیرز کے ٹوٹنے کی خوف ناک آوازیں سنائی دیتی ہیں یا پھر ذہنی پینوراما میں امجد اسلام کے لطیفے ٹڈی دَل کی طرح چھا جاتے ہیں جو ہمارے تن بدن میں گدگدیاں کرتے پھرتے ہیں۔
ان سے پہلے بہت سے سفرناموں میں ہمارے رومانی مزاج رکھنے والے بزرگوں نے حسن و رعنائی کے حوالے سے خوب کھُل کھیلا تھا جس کا جادو مستنصر صاحب نے اپنی تخلیقی قوت سے توڑ کر سفرنامے کو ناول جیسا روپ عطا کیا۔
کوئی ڈیڑھ ہزار برس پہلے چین کے ہیون سانگ اور فابیان نے برصغیر پاک و ہند کی سیاحت کی تھی اور اپنے مقبول سفرنامے قلم بند کئے تھے۔ ان کایہ قرض کسی حد تک چکانے کے لئے ہماری نیک اطوار تسنیم جعفری ہوا کے دوش پر سوار اپنے بھائی شوکت (“ابابیل” والے) کے پاس پہنچ گئیں اور انہوں نے ایک گھریلو سفرنامہ رقم کر ڈالا۔ یہ سفرنامہ کیا ہے، ایک دلکش روزنامچہ ہے جس میں گھر کے دو تین افراد چین میں شہر شہر قریہ قریہ گھومتے ہیں اور ہماری مصنّفہ چار ہزار برس پر محیط ملک کوکھنگال کر معاشی، تعمیراتی، تاریخی، تہذیبی اور ثقافتی تناظر میں اپنے تاثّرات ذخیرہ کرتی جاتی ہیں۔
چین دنیا کی قدیم ترین تہذیبوں اور سلطنتوں میں سے ایک ہے۔ یہ چینی ہی تھے جنہوں نے کاغذ، چھپائی، بارود اور قطب نما جیسی ایجادوں سے دنیا میں انقلاب بپا کیا۔
چینیوں نے خود کو محفوظ رکھنے کے لئے وُہ حیرت انگیز دیوار تعمیر کی جسے چاند کی دوری سے بھی دیکھا جا سکتا ہے۔ دیوارِ چین کی تعمیر کے پہلے سو سالوں میں دشمن تین بار چین پر حملہ آور ہوئے لیکن نہ تو وہ دیوار کو پھلانگ سکے نہ ہی اسے توڑ سکے۔ یہ الگ بات کہ دربان سے سازباز کرکے اپنا کام دکھا گئے۔ مصنفہ تسنیم جعفری نے چین پہنچنے کے بعد جو پہلا معرکہ سر کیا وُہ اس عظیم الشان دیوار کی زیارت تھی۔
چین کے حوالے سے سرکارِ دو عالَم صلی اللہ علیہ و آلِہٖ و سلّم سے منسوب سچی یا معروضی حدیث کے علاوہ ہم اس عظیم ملک کو الٰہ دین اور اس کے جادوئی چراغ کی نسبت سے بھی جانتے ہیں۔ پھر ہماری خواتین چینی ریشم کی دل دادہ ہیں تو ہمارے جمال پرست اہلِ نظر چینی پینٹنگز کے سِحر میں مبتلا ہیں۔ ماہرینِ معاشیات اہلِ چین کی حیران کن اور غیرمعمولی معاشی قوت پر انگشت بدندان ہیں تو جگ بھر کے انجنئیر اس جناتی مخلوق کی تعمیراتی مہارت پر جو 1800 اپارٹمنٹس اور دفاتر پر مشتمل 57 منزلہ عمارت صرف 19 دنوں میں کھڑی کر دیتے ہیں یعنی روزانہ کی بنیاد پر تین منزلیں ۔۔ اور اب یہ یاجوج ماجوج تین ماہ کے عرصے میں 200 منزلہ اسکائی سکیپر تعمیر کرنے کا ڈول ڈال رہے ہیں۔
چین کی معاشی اور تعمیراتی پیش رفت نے تسنیم جعفری کو بےپناہ متاثّر کیا۔ وُہ لکھتی ہیں
آپ چین کا دورہ کریں تو آنکھیں ساتھ نہیں دیتیں کہ اس کی بےاندازہ ترقی کو صحیح طور سے دیکھ پائیں۔ دیکھ پائیں تو زبان ساتھ نہیں دیتی کہ اسے بیان کریں۔” (ص 9
خدا لگتی یہ ہے کہ وُہ چین جو کبھی گندھارا تہذیب کی صورت میں بدھ مت کا مرکز رہا تھا، تیسرے میلینیم میں جدت کا پاور ہاؤس ہے۔ اِس باکمال قوم نے “اپنی اچھی روایات گنوائی نہیں بلکہ سنبھال کر رکھی ہوئی ہیں۔”112ص
محنت چینیوں کے خمیر میں شامل ہے۔ ہماری مصنفہ نئے چین کے بارے میں رقم طراز ہیں
“یہ ہے نئے چین کی اہمیت کہ دنیا کا ہر بڑا برانڈ وہاں موجود ہے۔ اکثر تو بڑی کمپنیوں نے اپنے حقوق بھی چین کو بیچ دئیے ہیں۔ ہر بڑی کمپنی اپنے برانچ وہاں فخریہ کھولتی ہے اور گراں خواب چینی اب یہ سب برانڈز استعمال کرنے میں حق بجانب ہیں کہ اس دن کے لئے انہوں نے نہ صرف بڑی قربانیاں دی ہیں بلکہ محنت بھی کی ہے۔” (133)
وُہ دن ہوا ہوئے جب برطانیہ سیاسی چال چل کر اس قوم کے افراد کو لوٹس ایٹرز بنایا کرتا تھا۔ ماؤزے تنگ جیسی قدآور شخصیت نے افیون کی دلدل میں دھنسی ہوئی قوم کو خوابِ غفلت سے جگا کر اور غیرملکی استعمار سے نجات دلا کر انہیں نئی راہیں سجھائیں اور گراں خواب چینی توتو اور یانگسی کے دریاؤں کو عبور کر کے آگے بڑھے تو برطانیہ، فرانس اور امریکہ کے منہ کھُلے کے کھُلے رہ گئے۔
جس طرح ہمیں بیسویں صدی کے وسط میں محمد علی جناح جیسا بالاقد قائد میسر آیا، اہلِ چین کو اس دور میں ماؤزے تنگ جیسا وژنری راہنما ملا اور پھر چینیوں نے اپنے اس قائد کے سامنے اپنی پلکیں بچھا دیں۔ اس کے منہ سے جو فرمان جاری ہوا، پوری چینی نے اسے وظیفۂ عمل بنا لیا:
“جب چیئرمین ماؤ نے صنعتی ترقی کے لئے اسٹیل بنانے کا فیصلہ کیا تو تمام ملک سے لوہے کی چیزیں اکٹھا کر کے بھٹی میں ڈالی گئیں تاکہ اس سے اسٹیل بن سکے۔ عوام کا
گھروں سے اپنے استعمال کی چیزیں حتیٰ کہ چاقو چھریاں تک قومی خزانے میں جمع کروا دینا اس کی سب سے بڑی مثال ہے۔” ص157
بےشمار خوبیوں سے متصف چینی قوم اپنی بےکراں مشقت، ٹیم ورک، وقت کی پابندی، صبر و تحمّل کے سبب اب ہر اہلِ فکر و نظر سے خراجِِ عقیدت وصول کرتی ہے:
“سلام ہے اس قوم کو جو ایسے ایسے کام کر لیتی ہے کہ انسانی عقل دنگ رہ جائے۔ ہزاروں سال خاموشی سے اپنے ہی خول میں بند رہنے والی اس قوم نے جب ترقی کرنے کی ٹھانی تو دنیا کو حیران کر دیا اور جدید ترین ایجادات کر کے سب سے آگے نکل گیا۔” ص230
چینیوں کی اس شاندار پیش رفت کا ایک مثالی نمونہ بیجنگ کا اڑن طشتری گلاس برج ہے جو چین میں شیشے کا بنا ہوا پہلا پُل تھا جس کے بعد اب تک چین میں ایسے 2300 پُل مزید بن چکے ہیں۔
چین کے لوگ خود کو صنعتی رنگ روپ دیتے ہوئے بدترین آلودگی کا شکار ہوئے مگر تسنیم جعفری کے بقول “اس بدترین آلودگی سے بچنے کے لئے انہوں نے پھر سائیکل کا سہارا لیا۔ بجلی کے اسکوٹر بنائے۔درخت لگائے۔ فیکٹریوں کی جگہ پارک بنائے اور جنگل اُگائے۔” اور یوں “آلودگی کو کمال مہارت اور منصوبہ بندی سے کنٹرول کیا۔” (93)
سب سے زیادہ آلودگی دو کروڑ آبادی والے شہر بیجنگ کی ہے جہاں جگہ جگہ لوگ آلودگی سے بچنے کے لئے ماسک لگا کر پارکوں میں گھومتے ہیں اور کئی مقامات پر “آکسیجن کیفے بھی کھُل گئے ہیں جہاں لوگ بیٹھ کر آکسیجن کے کش لگاتے ہیں۔” (ص92
چینیوں نے فطرت سے اپنا رشتہ بڑی خوب صورتی اور منصوبہ بندی سے جوڑ رکھا ہے۔ سبزہ و گُل اور ہریالی کی فراوانی دیکھ کر انسان کی آنکھیں روشن ہو جاتی ہیں۔ ہزارہا پھولوں کو اس قرینے سے اگایا جاتا ہے کہ زمینی قطعے بہشت کے مناظر پیش کرتے ہیں۔ تسنیم جعفری لکھتی ہیں:
“بیجنگ سے باہر نکل کر سارا راستہ سبزے سے ڈھکا ہوا تھا۔ کہیں وہ منظّم کھیت کی شکل میں تھا۔ کہیں صرف گھاس کے میدان کی صورت تو کہیں جنگل۔ یوں لگتا تھا جیسے میں نے سبز رنگ کی عینک لگا رکھی ہے۔ کوئی ایک انچ جگہ بھی سبزے سے خالی نہ تھی۔۔۔ اکثر جگہوں پر تو جنگل کا گمان ہوتا تھا۔ یہ جنگل خودساختہ تھے یعنی ہر تھوڑے فاصلے پر بےتحاشا شجرکاری کی گئی تھے جو تازہ آکسیجن تو فراہم کرتے ہی ہیں، اس کے علاوہ انہیں بلڈنگز بنانے کے لئے بھی لکڑی وافر مقدار میں چاہئیے ہوتی ہے جب کہ کاغذ اور ٹشو پیپر بھی لکڑی سے بنتا ہے۔۔۔ کیا عمدہ منصوبہ بندی کی گئی تھی کہ ایک درخت کاٹا تو دس اُگا بھی دئیے گئے۔ ان کا یہ رویہ ابھی کا نہیں، قدیم زمانوں سے ان کا یہی وتیرہ ہے۔” ص148
سفرنامے کے مطالعے سے ہم پر مصنفہ کے کچھ راز ہائے درونِ خانہ بھی کھُلے، مثلا”
ہم ان کے چہرے پر سدا ایک تبسم کھِلا ہوا دیکھ کر سوچتے تھے کہ غصّہ انہیں چھو کر بھی نہیں گزرتا ہوگا مگر اب معلوم ہوا کہ وہ جب چاہیں غصے کا ہتھیار استعمال کر لیں۔
ہاں، یہ ضرور ہے کہ یہ
Incredible Hulk
والا غصہ نہیں ہے۔
دوسرے ہمیں یہ بھی پتا چلا کہ کچن بڑا ہو تو وہ اس میں کرکٹ نہیں کھیلتیں۔
تیسرے وہ جہاں جاتی ہیں موسم خوشگوار ہو جاتا ہے۔ اکثر بادل، بارانِ رحمت اور چھاتا ساتھ لے کر جاتی ہیں۔
چوتھے یہ کہ وہ آفس کے اس ایریا میں بھی فوٹوگرافی کرتی پائی جاتی ہیں جہاں فوٹو لینے کی ممانعت ہے اور پھر اپنے عمل کا یہ جواز پیش کرتی ہیں کہ وہ پاکستانی ہی کیا جو قوانین کی پاس داری کرے۔
پانچویں یہ کہ انہیں کبھی کبھی سیب سے بھی ڈیزل کی بُو آنے لگتی ہے۔
چھٹے یہ کہ اگر کھانا وافر ہو اور پُرذائقہ ہو تو ان کا پیٹ کھانے دیکھ اور سونگھ کر ہی بھر جاتا ہے۔
کتاب میں پاکستانی کھانوں کے ساتھ چینی ثقافتی ڈشز کا بھی ذکر ہے، مثلا” سموسوں سے مشابہ ڈمپلن کا تذکرہ جو بھاپ پر پکائے جاتے ہیں۔ چینی خود تو قدرے خورد قد واقع ہوئے ہیں لیکن ان کی سبزیاں بڑے سائز کی ہیں۔ ڈیڑھ فٹ لمبی ہری مرچ بھی اُگا لیتے ہیں۔ ان کے یہاں ابلے ہوئے لہسن کی پوتھیاں ملتی ہیں جنہیں آپ چاہیں تو سر کے میں ڈبو کر کھائیں، چاہیں تو ساس میں ڈبو ڈبو کر چاپ اسٹاک سے کھائیں۔ اگر آپ کھانا پکانے کے ماہر ہیں تو آلو کو ہزار طریقوں سے پکا کر کھائیں اور کھلائیں۔ کھانا کھانے سے پیٹ میں درد ہو تو دوا استعمال کرنے کی بجائے گرم پانی پی کر مرض کا فطری علاج کر لیں۔ ٹھنڈا پانی پینے سے چینی ویسے ہی الرجک ہیں کہ ٹھنڈے پانی کو مضرِ صحت جانا جاتا ہے۔کھانے سے پہلے پانی کا جگ آجاتا ہے جس میں خشک پھول تیر رہے ہوتے ہیں۔ مصنفہ کو چینی قہوہ بہت بے ذائقہ لگا اور ریسٹورانٹس میں ساسز اور سرکوں کی بُو بسی ہوئی لگی جہاں آپ پرات کے کھولتے ہوئے پانی میں اپنی پسند کی چیز منگوا کر خود پکا سکتے ہیں، چاہے وہ گوشت کے پار چے ہوں یا سبزیاں۔ چینی بالعموم سادہ خوراک کھانے کے عادی ہیں۔ کہیں کہیں تو بس ایک آدھ سوکھی ڈبل روٹی گرم پانی کے ساتھ مزے سے کھا لیتے ہیں۔ تسنیم جعفری نے یہ درپردہ راز بھی فاش کیا ہے کہ چین میں جتنے ریسٹورانٹ کھُلتے ہیں اتنی تعداد میں وہاں لوگ نہیں آتے۔ امیر لوگ بلیک منی کو وائٹ کرنے کی غرض سے یہ ریسٹورانٹ کھول لیتے ہیں اور ان میں انتہائی مہنگے رنگا رنگ ڈیکوریشن پیسز بھی رکھ دیتے ہیں۔
چین تاریخ کے مختلف ادوار میں عروج و زوال کے مراحل سے گزرتا رہا ہے۔ 1820 کے لگ بھگ یہ ملک دنیا کی تیسری اقتصادی قوت بن چکا تھا۔ پھر یہاں کے لوگ افیون کے عفریت کی لپیٹ میں آ گئے۔ کوئی ایک صدی تک توہین آمیز زندگی بسر کرتے رہے اور مقصدیت و معنویت کھو بیٹھے۔ مغربی استعمار نے انہیں گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیا ۔ لیکن جدید چین نے یہ ثابت کر دکھایا ہے کہ غیر ممالک اور ان کے وسائل پر قابض ہوئے بغیر بھی حیران کن ترقی کی منزلیں طے کرنا ممکن ہے۔ عظیم الشان ہمالیائی دیوار، بحرالکاہل کے پھیلے ہوئے ساگر اور وسیع و عریض صحراؤں کے حصار میں پلنے والی چینی قوم مختلف تہذیبی ادوار سے گزرتے ہوئے اب پورے اعتماد کے ساتھ اپنے پاؤں پر کھڑی ہے اور دنیا بھر سے اپنی عظمت منوا رہی ہے۔