تحریر: ماہم حامد
وہ گاڑی کو ڈرائیور کے ہاتھوں ورکشاپ بھیج کر خود رکشے میں سوار ہو گئی۔ والدہ کی بیماری نے اس سے اس کے ہوش چھین لیے تھے۔ اسے لگتا تھا کہ اماں جان کو کچھ ہو گیا تو یہ اس کی دنیا ختم ہو جائے گی۔ عفرا دلاور کا نمبر مسلسل ٹرائی کر رہی تھی؛ مگر بیل جانے کے باوجود وہ کال ریسیو نہیں کر رہا تھا۔ وہ اس کے آفس پہنچ چکی تھی، ابھی وہ عمارت میں داخل ہوئی تھی اور دلاور کے آفس کی طرف بڑھ رہی تھی کہ اس کی سیکٹری اسے منع کرنے لگی۔
“دیکھیں میم !سر نے سختی سے منع کیا ہے کہ میں کسی کو ان کے آفس روم میں نہ بھیجوں آپ برائے مہربانی انتظار فرما لیں۔”
“میں انتظار نہیں کر سکتی وہاں ہاسپیٹل میں میری ماں اکیلی ہے۔ آپ بےفکر رہیں آپ کو کوئی کچھ نہیں کہے گا۔”
عفرا یہ کہتے ہوئے آگے بڑھ گئی۔ اس نے جیسے ہی روم کا دروازہ کھولا تو اس کی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں؛ کیونکہ دلاور ٹی شرٹ اور پینٹ پہنی لڑکی کی گود میں سر رکھے آفس کے صوفے پر لیٹا تھا۔ وہ لڑکی پیار سے اس کے بالوں میں انگلیاں پھیر رہی تھی۔ عفراء کو یہ سب دیکھ کر ایسا لگا جیسے اس کی زندگی میں طوفان آ گیا ہو۔ ایک لمحے میں سارے بھرم سارے مان ٹوٹ گئے تھے۔ اچانک اس لڑکی کی نظر ساکت کھڑی عفرا پر پڑی۔
“تت تم کون ہو اور ایسے منہ اٹھا کر کیسے اندر آ گئی تم؟”
وہ گھبراہٹ میں نہایت سخت لہجے میں بولی۔ اس لڑکی کے یہ کہتے ہی دلاور اٹھ کھڑا ہوا اور عفرا کو سامنے دیکھ کر اس کے پیروں تلے سے زمین نکل گئی۔ وہ بوکھلا گیا۔
“تم جاؤ ذوبی ہم پھر بات کرتے ہیں۔”
اس نے اس لڑکی کو جانے کا کہا۔
عفرا تم یہاں کیسے ؟
“تقدیر کھینچ لائی شاید تمہارا اصل چہرہ دیکھانے کے لیے۔”
وہ نہایت تلخ لہجے میں بولی۔
”یہ لڑکی صرف میری دوست ہے عفرا اور کچھ بھی نہیں اور تم یہاں کیوں کھڑی ہو جاؤ یہاں سے۔“
وہ جھنجھلا کر اس ٹی شرٹ والی لڑکی کو پھر سے جانے کا کہنے لگا، وہ اپنے اسٹائلش بیگ سنبھالتی ہوئی وہاں سے چل دی۔
اس لڑکی کے جاتے ہی عفرا بھی جانے لگی؛ مگر دلاور نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا۔
”ہاتھ چھوڑو میرا۔“
وہ چلائی۔
”نہیں چھوڑتا تم میری منگیتر ہو آخر۔“
وہ نہایت پیار بھرے لہجے میں بولا۔
”منگیتر ہوں منکوحہ نہیں ہوں، اس لیے دور رہو مجھ سے۔“
اس نے جھٹکے سے ہاتھ چھڑا لیا۔
“مجھے اپنی ہی حد بھی پتا ہے اور سامنے والے کی اوقات بھی۔”
وہ یہ کہہ کر غصے سے باہر نکل گئی اور وہ سر پکڑ کر بیٹھ گیا۔
__________________________
وہ ہسپتال ایسی حالت میں پہنچی کہ اس چہرے سے ہوائیاں اڑ رہی تھیں۔ بچپن سے جس شخص کو وہ اپنا مقدر سمجھتی تھی، آج وہ شخص اسے خاک لگ رہا تھا اور خاک بھی وہ جو اس کے چہرے پہ ملی ہو۔
”کیا ہوا عفرا، تم ٹھیک تو ہو ناں میری بچی؟ “
اماں اس کا چہرہ دیکھتے ہی سہم گئیں۔ بیماری نے پہلے ہی اماں کو آدھا کر رکھا تھا، اس لیے عفرا نے بات چھپا لی۔
”نہیں نہیں کچھ نہیں ہوا، آپ کو تو پتا ہے مجھے رکشے میں بیٹھنے کی عادت نہیں ہے۔ وہ گاڑی ورکشاپ گئی ہوئی ہے اس لیے دلاور کو ملنے رکشے پر جانا پڑا۔ “
وہ اپنے چہرے کے تاثرات چھپاتے ہوئے بولی۔
اتنے میں ڈاکٹر روم میں داخل ہوا۔
”اماں جی! کیسی ہیں آپ ؟ آج شام کو آپ کے چند ٹیسٹ ہوں گے، اللہ کرے ان کی رپورٹ ٹھیک آ جائے پھر آپ چلے جانا اپنے گاؤں۔ بڑی یاد آ رہی ہے ناں آپ کو اپنے گاؤں کی۔“
ڈاکٹر شاہ میر نے اماں کو مسکراتے ہوئے کہا۔
”زندگی کا بڑا حصہ گاؤں میں ہی گزرا ہے، اس لیے عادت ہو گئی ہے مجھے گاؤں کی۔“
اماں کھوئے کھوئے لہجے میں بولیں، عفرا ان کے پاس سر جھکائے کھڑی تھی۔
”میرا میکہ تو حیدر آباد سندھ میں تھا۔ میری شادی خوشحال پور ہوئی تھی۔۔۔ سگی پھوپھو کے بیٹے سے اور شادی کے چار سال بعد بھری جوانی میں بیوہ ہو گئی تھی۔“
اماں اداس لہجے میں بولیں۔
”ارے واہ میری امی کا میکہ بھی حیدر آباد سندھ میں ہے، میں انہیں آپ کا بتاؤں گا، وہ ضرور ملنے پہنچ جائیں گی۔“
وہ اماں کی اداسی کو مسکراہٹ میں بدلنے کے لیے بتانے لگا۔ ڈاکٹر شاہ میر ویسے تو اپنے تمام مریضوں سے بہت پیش آتا تھا ؛ مگر ماں جی کی طرف اس کا دل آپ ہی آپ مائل ہو رہا تھا۔
________________________________
”آئیے پلیز! ۔“
عفرا کو بیٹھنے کا اشارہ کرتے ہوئے بولا۔ آج وہ سنجیدہ تھا بہت۔
”آپ کی والدہ کی تمام ٹیسٹ رپورٹس آ چکیں ہیں اور وہ بالکل بھی حوصلہ افزا نہیں ہیں۔“
شاہ میر نے گہری سانس خارج کرتے ہوئے کہا۔
”آپ کھل کر بتائیں ڈاکٹر!، کیا ہوا ہے میری ماں جی کو۔؟“
وہ نہایت پریشانی سے بولی۔
”مجھے نہایت افسوس سے کہنا پڑ رہا ہے کہ آپ کی والدہ کو برین ٹیومر ہے وہ بھی لاسٹ اسٹیج پر۔ آپ انہیں جلد از جلد علاج کے لیے باہر لے جائیں کیونکہ اس طرح ان کی جان بچ سکتی ہے۔“
یہ بات سنتے ہی عفرا کے دل و دماغ میں آندھی چلنے لگی۔ اسے اپنی ماں جی سے بےحد پیار تھا۔ اسے لگا کہ جیسے اس کی سانسیں اس سے بچھڑنے والی ہیں۔
________________________
وہ شام کو ہی ماں جی کو لے کر گاؤں واپس آ گئی؛ تاکہ باہر جانے کا انتظام جلد از جلد کر سکے۔ ان لوگوں کے گھر پہنچنے کی اطلاع تائی جان نے اپنے بیٹے دلاور کو پہنچا دی تھی، اسی لیے وہ رات کو ہی گاؤں لوٹ آیا تھا۔
صبح عفرا نے تائی جان اور شرجیل کو ایک ساتھ بیٹھا کر ماں کی بیماری کا اور باہر کے ملک علاج کے لیے جانے کا بتایا۔
”لیکن عفرا لندن جانا آسان نہیں ہے۔ ویضہ لگنے میں وقت لگے گا اور بھاری رقم بھی درکار ہو گی۔ میرے کاروبار کے حالات بھی ٹھیک نہیں ہیں۔ “
”مجھے تم سے یا تمہارے کاروبار سے کچھ نہیں چاہیے۔ میں فیصلہ کر چکی ہوں کہ میں بابا کے حصے کی زمین بیچ کر باہر لے جاؤں گی ماں جی کو۔ ڈاکٹر شاہ میر کو ہوسپیٹل بنانے کے لیے سڑک کے قریب جگہ درکار ہے۔ میرے خیال سے بابا کی سرکاری اسکول کے قریب والی جگہ بہترین ہو گی ان کے ہوسپیٹل کے لیے۔“
وہ اپنے فیصلے سے انہیں آگاہ کر چکی تھی۔
”دماغ ٹھیک ہے تمہارا؟ جانتی ہو کتنی قیمتی زمین ہے وہ، تم اسے بیچنے کا سوچ بھی کیسے سکتی ہو۔؟“
دلاور حیرت اور غصے سے چلایا۔
”ہو گی قیمتی دلاور صاحب!؛ پر میری ماں کی زندگی سے بڑھ کر کچھ بھی قیمتی نہیں ہے۔ آپ مجھے زمین کے کاغذات دے دیں تائی جان! غالباً اماں نے آپ ہی کے پاس رکھوائے تھے۔“
وہ تائی کو مخاطب کر کے بولی۔ تائی گھبرا سی گئیں پھر خود کو سنبھالتے ہوئے بولیں۔
”ہاں! ہاں ! تمہاری امانت ہے، ہمیں کیا کرنا بھلا؛ مگر بیٹا! تم اتنی بے اعتبار کیوں ہو رہی ہو۔؟“
تائی کی اس بات کا اس کے پاس جواب تو تھا؛ مگر وہ لحاظ میں چپ کر گئی اور اپنے کمرے میں چلی گئی۔
”بات سنیں میری، کوئی ضرورت نہیں ہے اسے زمینوں کے کاغذات دینے کی۔ چچی کا مرض اس نوعیت کو پہنچ چکا ہے کہ وہ اب نہیں بچ سکتیں۔ یہ کہاں کی عقلمندی ہے جو نہیں بچ سکتا اسے بچانے کے لیے سب داؤ پر لگا دو۔“
وہ سرگوشی کرتے ہوئے ماں کو بولا۔
” لیکن بیٹا! اس کی چیز ہے ہم کیسے منع کر سکتے ہیں۔؟ “
تائی جان نہایت تشویش سے بولیں۔
“آپ چلیں میرے ساتھ۔“
وہ ماں کا ہاتھ پکڑ کر ماں کے کمرے میں لے گیا۔
”کھولیں لاک اس کا؟“
خاندانی تجوری کی طرف اشارہ کیا۔
”لیکن۔“
”لیکن ویکن کچھ نہیں بس کھولیں آپ، میں کہہ رہا ہوں ناں آپ کو۔“
وہ اپنی بات پر قائم تھا، تائی جان نے بلآخر تجوری کھول دی اور وہ زمین کے کاغذات لے کر گاڑی اسٹارٹ کر کے نکل گیا۔
________________________
”تائی جان! مجھے زمین کے کاغذات دے دیں، تاکہ میں کہیں بات طے کر سکوں۔“
وہ ناشتے کے بعد تائی جان کے کمرے میں داخل ہوتے ہی بولی۔ تائی جان بالکل ساکن بیٹھی تھیں۔ اس نے پھر اپنی بات دہرائی مگر وہ ٹس سے مس نہ ہوئیں۔
”بیٹا! زمین کے کاغذات رات دلاور اٹھا کر لے گیا ہے۔ میرے لاکھ منع کرنے کے باوجود۔“
تائی جان کی بات سن کر عفرا کو بہت غصہ آیا، وہ اٹھ باہر کھڑی اسٹارٹ کر کے شہر نکل گئی۔
__________________________
وہ غصے سے دلاور کے آفس میں داخل ہوئی۔ وہ شاید میٹنگ میں تھا اس لیے اس کی سیکٹری اسے راستے میں ہی روک رہی تھی۔
”میم !اندر مت جائیں، سر خفا ہوں گے پلیز!۔”
وہ اس کے پیچھے دوڑتے ہوئے کہہ رہی تھی؛ مگر عفرا پر جنون طاری تھا۔ وہ غصے میں اس کے آفس میں داخل ہوئی۔ جہاں کافی لوگ موجود تھے۔ دلاور اسے اس وقت آفس میں دیکھ کر سہم گیا اور اس نے میٹنگ ختم کر کے سب کو جانے کا کہا۔
”یہ کیا طریقہ ہے عفرا؟ تم اس طرح میرے دفتر کیوں آئی ہو؟“
وہ بوکھلائے ہوئے بولا۔
”تم سے ملنے تو ہرگز نہیں آئی ہوں گی، یہ تو تمہیں اچھے سے پتا ہے، میرا خیال ہے۔ تم مجھے زمین کے کاغذات دو جو تم تائی جان سے زبردستی ہتھیا کر لے آئے ہو۔“
وہ شدید غصے سے بولی۔
”وہ کاغذات تو تمہیں کسی صورت نہیں مل سکتے، بھول جاؤ انہیں اور چچی جان کے پاس جاؤ۔ انہیں تمہاری ضرورت ہے اس وقت؛ کیونکہ میرے خیال سے ان کے پاس وقت بہت کم ہے۔ اس لیے جتنی میموریز اکٹھی کرنی ہیں کر لو اور زمین بیچنے کا خیال اپنے ذہن سے نکال دو؛کیونکہ کل کو یہی زمین اور میموریز تمہارے کام آئیں گی۔“
وہ شیطانی ہنسی چہرے پر سجا کر بولا۔
”تم یہ اچھا نہیں کر رہے دلاور ! ، تم پچھتاؤ گے، ارے اور کتنا گرو گے میری نظروں میں۔ تم ہوتے کون ہو میری ماں کی زندگی کا اندازہ لگانے والے۔“
وہ چلائی اور اس کا سیل فون بجا۔
” ہیلو! ،عفراء بی بی! آپ جلدی گھر آ جائیں، آپ کی والدہ کی طبیعت بہت خراب ہے۔“
دوسری طرف فون پر ملازمہ تھی، عفرا اسی وقت وہاں سے تیزی سے نکلی۔
________________________
وہ اپنی والدہ کو لے کر دوبارہ اسی ہسپتال میں آ گئی۔
”ڈاکٹر شاہ میر ! پلیز میری والدہ کو بچا لیجیے۔ میرا ان کے علاؤہ کوئی نہیں ہے دنیا میں۔ پلیز! میں آپ کے سامنے ہاتھ جوڑتی ہوں۔“
اس نے ڈاکٹر کے سامنے ہاتھ جوڑ دئیے۔ آج وہ بہت شکستہ بہت کمزور لگ رہی تھی۔ وہ پھوٹ پھوٹ کر رو رہی تھی۔
”سنبھالیں خود کو، زندگی اور موت خدا کے ہاتھ میں ہے۔ دنیا کا کوئی بھی مرض شفا دینے والے سے بڑا نہیں ہے۔ اس لیے آپ میری بجائے اس رحمان، قادر مطلق کے سامنے ہاتھ جوڑیں جو سب کی مشکلیں لمحوں حل کرنے کی طاقت رکھتا ہے۔ وہ بہت مہربان ہے آپ پریشان مت ہوں۔ “
ڈاکٹر شاہ میر نے اس کے بندھے ہوئے ہاتھوں کو تھامتے ہوئے کہا۔ عفرا کو اچانک یاد آیا کہ اماں کا زیور اماں کی الماری میں ہی پڑا ہے۔ وہ جلدی سے گاؤں گئی اور زیور لے کر شہر آ گئی۔ زیور فروخت کر کے اسے اچھی خاصی رقم مل گئی تھی؛ مگر باہر جانے کے لیے اب بھی یہ پیسے کم تھے۔
_________________________
”یہ آپ کی ٹکٹیں اور یہ میرے دوست کا کارڈ ہے، وہ وہاں اسی ہوسپیٹل میں جاب کرتا ہے اور بڑا قابل ڈاکٹر ہے۔ ان شاءاللہ آنٹی بالکل ٹھیک ہو جائیں گی آپ حوصلہ رکھیں۔“
وہ تمام کاغذات عفرا کو تھماتے ہوئے بولا۔
”لیکن! وہ پیسے تو کم تھے، پھر ہمارا جانا کیسے ممکن ہوا ہے؟“
وہ حیرت سے بولی۔
میں نے آپ کو تین دن پہلے بھی کہا تھا اس پاک ذات کے لیے کچھ ناممکن نہیں ہے آپ بسم اللّٰہ کریں اور روانہ ہونے کی تیاری کریں۔ صبح آٹھ بجے فلائٹ ہے آپ دونوں کی۔“
ڈاکٹر شاہ میر نے ہلکی سی مسکراہٹ چہرے پر لیے کہا۔ وہ عفرا کو بالکل فرشتہ لگ تھا۔ ایسا فرشتہ جو شاید خاص طور پر خدا نے اس کی اور اس کی ماں کی مشکلات کو حل کرنے کے لیے بھیجا تھا۔
______________________
اس کی والدہ اور وہ علاج سلسلے میں باہر جا چکیں تھیں۔ دلاور حیران تھا کہ کیسے عفرا باہر جا سکی؛ مگر بہت جلد اس کی حیرانی پریشانی میں بدل گئی۔ شہر میں اس کی فیکٹری میں آگ لگ گئی کروڑوں کی مشینری جل کر راکھ ہو گئی۔ دلاور کے برے دنوں کا آغاز ہو چکا تھا اور شہر میں اس کا اتنا نقصان ہو چکا تھا کہ دوبارہ اس کے لیے بزنس شروع کرنا ناممکن نظر آ رہا تھا۔ دلاور حالات سے گھبرا کر اپنی گرل فرینڈ ذوبی کو ملنے اس کے فلیٹ پر پہنچا۔
”ذوبی! ذوبی! کہاں ہو تم ؟ “
وہ پکارتا ہوا اس کے بیڈ روم میں چلا آیا۔ اس کی خواب گاہ میں پہلے سے ایک مرد موجود تھا اور وہ مرد دلاور کا کاروباری حریف تھا۔ وہ یہ سب دیکھتے ہی چلایا۔
”گھٹیا عورت! تم میری جگہ کسی کو کیسے دے سکتی ہو۔ یہ فلیٹ یہ فرنیچر یہ سب میرا دیا ہوا ہے۔ تم کسی اور یہاں کیسے لا سکتی ہو۔“
وہ غصے سے چلایا۔
وہ بجائے شرمندہ ہونے کے اس کے سامنے تن کر کھڑی ہو گئی۔
”تم نے مجھے یہ سب بھیک میں نہیں دیا، پوری قیمت وصول کی ہے اس سب کی مجھ سے۔ میں تمہاری اس گنوار دیہاتی منگیتر طرح بیواقوف نہیں ہوں جو تمہاری محبت کو دل سے لگاؤں۔ تم نے پیسہ دیا، میں نے تمہیں اپنا وقت دیا۔ اب تمہارے پاس کچھ نہیں ہے تو میرے پاس بھی تمہارے لیے وقت نہیں ہے۔ میں گھاٹے کا سودا کیوں کروں دلاور؟“
وہ دلاور کو صاف لفظوں میں بتا چکی تھی کہ اس کی زندگی میں اب دلاور کی کوئی جگہ نہیں ہے۔ اس کا ایک ایک لفظ تیزاب بن کر دلاور کے دل پر گرا تھا۔ وہ خود پر قابو نہ رکھ سکا اور پستول نکال کر ذوبی اور اس شخص پر فائرنگ کر دی۔ ذوبی سینے میں گولی لگنے کی وجہ سے اسی وقت مر گئی؛ مگر وہ آدمی بچ گیا کیونکہ گولی اسے چھو کر گزر گئی تھی۔
__________________________
عفرا خوشی خوشی پاکستان لوٹی تھی؛ کیونکہ اس کی والدہ اب کافی تندرست تھیں۔ اس نے اپنے لوٹنے کی اطلاع صرف ڈاکٹر شاہ میر کو دی تھی، اس لیے وہی انہیں ائیرپورٹ پر ریسو کرنے آیا تھا۔ وہ ماں بیٹی سیدھا شاہ میر کے ساتھ اس کے گھر گئیں تھیں۔
”میرے پاس الفاظ نہیں ہیں آنٹی کہ میں آپ کو بتا سکوں کے آپ کی تندرستی سے مجھے کتنی خوشی ہوئی ہے۔ “
شاہ میر نے خوشی سے نہال ہوتے ہوئے بولا۔
”یہ سب تمہارے ساتھ سے ہی ممکن ہو سکا بیٹا!؛ ورنہ ہمارے پاس تو باہر جانے کے لیے مکمل رقم بھی نہیں تھی۔ یہ سب تم ہی نے تو کیا ہے بیٹا!۔“
وہ تشکرانہ انداز میں بولیں۔
”کوئی کچھ نہیں کرتا آنٹی! سب اللہ تعالیٰ کرتا ہے۔ انسان تو بس وسیلہ بنتا ہے۔“
وہ پریقین لہجے میں بولا۔
”ایک اور چیز کے لیے ہمارا وسیلہ بن جائیں آپ، ہمیں اس شہر میں رینٹ پر کوئی رہنے کے لیے فلیٹ ڈھونڈ دیں؛ کیونکہ اب میں کسی بھی صورت دلاور کے ساتھ اس حویلی میں نہیں رہ سکتی۔“
وہ نہایت تشویش ناک انداز میں بولی۔
”تو ضرورت کیا ہے اس کے ساتھ رہنے کی، ہمارے ساتھ ہمارے گھر رہو ناں۔؟ میں فیصلہ کر چکی ہوں تمہیں اپنے شاہ میر کی دلہن بنانے کی، اب بس تمہاری ہاں کا انتظار ہے عفرا!، پھر ہم سب مل کر ایک فیملی کی طرح رہیں گے۔“
اس بار ڈاکٹر شاہ میر کی والدہ بولی تھیں، وہ ملازمہ کے ساتھ چائے اور لوازمات لے کر ڈرائنگ روم میں داخل ہوئی تھیں۔ عفرا ان کی بات سن کر ایکدم شرما گئی اور نگاہیں نیچی کر لیں۔ شاہ میر کے چہرے پر بھی خوشی کی لہر واضح دکھائی دے رہی تھی۔ شاہ میر کی والدہ اور عفرا کی ماں جی ان کے چہروں کی طرف دیکھ کر پر سکون تھیں۔
________________________
عفرا اور ماں جی گاؤں کی طرف روانہ تھیں۔ وہ شاہ میر کے ساتھ اس کی گاڑی میں سوار تھیں۔ گاڑی حویلی کے گیٹ پر رکی؛ مگر کئی بار ہارن دینے کے باوجود کوئی بھی گیٹ نہیں کھول رہا تھا، شاہ میر گاڑی سے اترا تو بوڑھی ملازمہ سامنے کھڑی دروازہ کھول رہی تھی، وہ پھر سے گاڑی میں سوار ہوا اور گاڑی حویلی کے اندر پارک کی۔ وہ تینوں گاڑی سے اترے تو عفرا نے فوراً ملازمہ سے پوچھا۔
”چوکیدار کہاں ہے ؟ دروازہ آپ نے کیوں کھولا؟“
آپ اندر چلیں بڑی بیگم صاحبہ سب بتا دیں گی آپ لوگوں کو۔ آپ تو ٹھیک ہیں ناں چھوٹی بیگم صاحبہ!۔؟“
وہ انہیں ہشاش بشاش دیکھ کر بولیں۔
”جی شکر ہے اللہ پاک کا حمیدہ بی اس رب نے مجھے نئی زندگی دے دی۔“
اماں آسمان کی طرف دیکھتے ہوئے شکر ادا کرنے لگیں۔
وہ سب اندر چلے گئے۔ تائی جان ڈرائنگ روم میں موجود تھیں مگر پہلے سے بہت کمزور لگ رہی تھیں۔
”کیسی ہیں آپا؟“
اماں نے تائی جان کو پکارا۔ اماں کے پکارتے ہی وہ فوراً گلے لگ گئیں اور پھوٹ پھوٹ کر رونے لگیں۔
”ہم برباد ہو گئے، سب تباہ ہو گیا۔ ساری زمینیں بک گئیں؛ مگر پھر بھی میں اپنے دلاور کو پھانسی سے نہیں بچا سکی۔ اس ہفتے اسے پھانسی دے دی جائے گی۔“
تائی جان روتے ہوئے بتا رہی تھیں ، اماں اور عفرا کو یہ سب سن کر بہت دکھ ہوا تھا؛ کیونکہ دلاور جتنا گھٹیا سہی اس سے ان کا خون کا رشتہ تھا۔
_________________________
آج دلاور کی آخری ملاقات تھی۔ سب ملنے گئے تھے، تائی جان ، ماں جی اور عفرا۔ وہ بہت کمزور اور خوفزدہ لگ رہا تھا۔ وہ ماں جی کو دیکھ کر مسکرایا۔
”تم نے چچی جان کو بچا لیا عفرا یہ بچ گئیں اور دیکھو میں نہیں بچ سکا۔ میری غلط حرکتیں مجھے لے ڈوبیں۔ واقعی ہم جتنی بڑی چالیں چل لیں، ہوتا وہی ہے جو اوپر والا چاہتا ہے۔ میری ساری زمینیں بک گئیں اب صرف وہ زمینیں بچی ہیں جو چچا جان اپنی زندگی میں تمہارے نام کر گئے تھے۔ تمہاری امانت اماں کے پاس ہے تم ان سے جب جی چاہے لے لینا زمینوں کے کاغذات اور ہاں ہو سکے تو تم اور چچی مجھے معاف کر دینا، شاید اس طرح خدا بھی معاف کر دے مجھے۔ میں نے تمہیں بہت تنگ کیا ہے عفراء پلیز مجھے معاف کر دینا ؟“
وہ ہاتھ جوڑے کہہ رہا تھا اس کی آنکھوں سے ندامت کے آنسو رواں تھے۔ عفرا ، ماں جی اور تائی بھی اس کی باتیں سن کر رو رہی تھیں۔
___________________________
چھ ماہ بعد:
دلاور اب اس دنیا میں نہیں تھا۔ عفرا اور ڈاکٹر شاہ میر کی شادی ہو چکی تھی۔ وہ دونوں گاؤں میں ایک اعلیٰ سطح کا ہسپتال بنوا رہے تھے۔ جس میں جدید مشینری اور اچھے ڈاکٹروں نے آنا تھا۔ عفرا اور شاہ میر تائی جان اور ماں جی کے ساتھ خوشحال پور حویلی میں ہی شفٹ ہو گئے تھے۔ اب ان کی زندگی کا مقصد گاؤں کے لوگوں کو صحت کی بہترین سہولیات میسر کرنا تھا۔ وہ سب خوشگوار اور بہترین زندگی گزار رہے تھے۔ بس تائی جان اکثر اداس ہو جاتی تھیں؛ مگر پھر ماں جی اور شاہ میر کی والدہ کا ساتھ انہیں سہارا دیتا تھا اور وہ بھی ان سب کی خوشیوں میں کر اکثر اپنا غم بھول جاتی تھیں۔
ختم شد