خصوصی تجزیہ و تبصرہ عبدالمتین اخونزادہ۔ مجلس فکر و دانش، علمی و فکری مکالمہ
کرونا وائرس اور اب بارشوں و سیلاب کی تباہیوں و بربادیوں کی ہولناکیوں تک سماجی انصاف و عوامی ترقی و خوشحالی کا نہ ہونا ایسا سلگتا سوال ہے کہ اس کا مناسب جواب تلاش کئے بغیر چارہ نہیں ہے
بھلا اپنے ماں باپ کی بولی و علاقائی کلچر و دانش مندی کی آرزو مندی کے لئے یعنی مادری زبان کے لئے بھی تحفظ و احترام درکار ہوتا ہے یہی تو وہ بنیادی انسانی حق ہے جسے بغیر احتجاج و فریاد کے بھی احترام و اہمیت اور تحفظ و کامیابی حاصل ہونا چاہئے،، لیکن قصہ کوتاہ بینی کے خاطر ہم اب تک اپنے ہی ملک یعنی مشرقی پاکستان کے قضیے اور بنگلہ دیش کے قیام سے کوئی سبق اور عبرت حاصل نہیں کرسکے، ملک کے دوسرے حصوں کی طرح کوئٹہ میں بھی مختلف الخیال افراد و ادارےعلمی و فکری اور تہذیبی و لسانی ارتقاء و دانش کے متعلق پروگرام منعقد کرتے ہیں جس کے تفصیلات اور ممکنہ منصوبے و تجزیوں سے آگاہی دینے کی کوشش کرتے ہیں مثبت بحث و مباحثے اور علمی و فکری مکالمے کی کاوشوں سے سماج و قوم میں سھبنلے اور شعور کی بیداری پیدا ہوسکیں۔ ،
مرزا خوشی محمد جاوید راقم طراز ہے کہ
,,, لسانیات اپنے وسیع مفہوم میں سماجی علم ہے زبان سماجی تشکیل ہے لسانیات اس تشکیل کی نوعیت اور اس میں کارفرما قوانین اور اس کے ارتقاء کا مطالعہ کرتی ہے،ہر چند لسانیات دیگر سماجی علوم کے مقابلے میں کم عمر سہی لیکن اس کے سائنسی و علمی طریق کار کی بدولت مستقبل میں اس کے معیارات اور پیمانے زبانوں کو انسانی تعلقات میں نئی مرکزیت اور اہمیت دلائیں گے یہی سبب ہے کہ دینا بھر میں وقت کے ساتھ ساتھ لسانیات کی اہمیت بڑھتی جارہی ہے اور شائد یہی وجہ ہے کہ آج دینا میں سماجی تعلقات جدید مواصلاتی دور کے باعث تیزی سے تبدیل ہورہے ہیں،،جبکہ کوئٹہ سے زبانوں کے امور کے ماہر تعلیم جناب عطاء الحق زیرک نے سال کرونا وائرس یعنی 2020 ء میں اپنے تحقیقات کی ابتدائی رپورٹ,, تعلیمی زبان کا غلط انتخاب، تیسری دینا کے پانچ ارب انسانوں کا المیہ،،کے عنوان سے پبلش کرتے ہوئے دیباچہ میں پڑھنے والوں کو خوش آمدید کہتے ہوئے لکھتے ہیں کہ,,ہم جانتے ہیں کہ ترقی یافتہ ممالک اپنے کامیاب تعلیمی نظام کی وجہ سے کتنی ترقی کررہے ہیں ان کے ہاں یہ کامیاب تعلیمی نظام اس وجہ سے ہے کہ وہاں یہ ابہام بالکل بھی نہیں پائی جاتی کہ بچوں کو کس زبان میں تعلیم دی جائے انھوں نے اپنے بچوں کو تعلیم دینے کے لئے درست اور منطقی تعلیمی زبان یعنی اپنی مادری زبانیں منتخب کئے اور ان کے ہاں اسی وجہ سے بہترین تعلیمی نظام پائے جاتے ہیں اور ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ دوسری جانب تیسری دنیا کے ملکوں کے ناکام تعلیمی نظام ان ممالک کی ترقی میں بڑی روکاوٹ ہیں اور ان ممالک کے تعلیمی نظام اس لئے بدترین تعلیمی نظام ہیں کہ انھوں نے اپنے بچوں کو پڑھانے کے لئے درست اور منطقی تعلیمی زبان کا انتخاب نہ کیا،
ترقی یافتہ دینا میں تعلیمی زبان،دفتری زبان،قومی زبان،علاقائی زبان،بین الاقوامی زبان،مزہبی رسوم کی زبان،سائنس و ٹیکنالوجی کی زبان،تحقیق و تخلیق کی زبان کی باقاعدہ پہچان اور ان کا مختلف مقاصد کے لئے استعمال سے آگاہی تعلیمی ماہرین کے لئے تعلیمی پالیسی بناتے وقت بہت کارآمد ہوتی ہے اور ان ترقی یافتہ ممالک کے تعلیمی ماہرین اور تعلیمی منصوبہ ساز کسی ملک میں تعلیمی زبان کے جغرافیائی حدود سے بھی واقف ہوتے ہیں کہ تعلیمی زبان کے حوالے سے ایک علاقہ،ملک،صوبہ یا قصبہ یا پھر دیہات کے لئے کونسی تعلیمی پالیسی بنائی جائے کہ وہاں کے بچے بغیر کسی زبان کی رکاوٹ کے تعلیمی اداروں میں علم حاصل کرتے رہے،مگر بدقسمتی سے تیسری دنیا کے ممالک میں نہ تو زبان کی مقاصد کے لحاظ سے الگ الگ پہچان ہو پا رہی ہے اور نہ ہی تعلیمی زبان کے حوالے سے مختلف جغرافیائی ڈیویزنز کی تعریف کی گئی ہے جو یقنا ایک کامیاب تعلیمی پالیسی بنانے میں بڑی رکاوٹ ہیں_،،،
پروفیسر عطاء الحق زیرک نے اپنے تحقیقی مقالہ میں تیسری دنیا کے ممالک کے لئے تعلیمی زبان کے قابل عمل ماڈلز پیش کئے ہیں جو کہ دینا کے ترقی یافتہ ممالک کے کامیاب تعلیمی زبان کے ماڈلز کو مدنظر رکھ کر بنائے گئے ہیں_وہ لکھتے ہیں کہ مختلف ذرائع سے تحقیقی مواد کے حصول کے دوران میری یہ سوچ مسلسل تقویت پاتی رہی کہ یقنیا ترقی یافتہ قوموں کی تعلیمی ترقی کا راز تعلیمی زبان کے درست انتخاب میں ہے اور ان قوموں کی معاشی ترقی تعلیمی ترقی کی وجہ سے ہے میری یہ سوچ یقننا تیسری دنیا کے ماہرین تعلیم کے لئے مزید تحقیق کے دروازے کھولنے کا باعث بن سکتی ہے،،،
تعلیمی مسائل کے تجزیے اور مادری زبانوں کی زبوں حالی کا ذکر خیر کیا جائے تو ملک کے بڑے صوبے پنجاب کی تعلیمی کاوشوں،کامیابیوں اور ناکامیوں کا احوال جاننے اور اگلے دس سالوں میں پاکستانی سرکاری سکولوں کو کیسے عالمی معیار پر لے جاسکتے ہیں جیسے اہم سوالات کے جوابات فراہم کرنے اور اساتذہ،بیوروکریسی اور سیاستدان کے زیر عنوان جنوری 2021 ء میں بک کارنر جہلم جیسے ممتاز اشاعتی ادارے سے چھپنے والے کتاب کے مصنف جاوید احمد ملک صاحب نے انتہائی معتبر و تفصیلی تجزیہ کے ساتھ پاکستانی نظام تعلیم کے تین بنیادی مسائل میں اس اہم ترین مقدمے کا ذکر تک نہیں کرتے ہیں ملاحظہ فرمائیں،،
وہ لکھتے ہیں کہ
,, بیشتر ترقی پذیر ممالک کی طرح پاکستانی تعلیمی نظام کے تین بڑے مسائل ہیں جو پیچلھے 70 سالوں سے حل ہو کر نہیں دے رہے:
چھ سے 16 سال کے بچوں کی ایک بڑی تعداد سکولوں سے باہر ہے،
جو بچے سکولوں کے اندر ہیں ان کی بڑی تعداد صحیح طریقے سے سیکھ نہیں پا رہی_ ایک اندازے کے مطابق ہر 100 بچوں میں سے سکول صرف 30 بچوں کو ہی لائق کر پاتا ہے جبکہ 70 بچے صحیح طور پر زیور تعلیم سے آراستہ نہیں ہوپاتا رہے_
سکولوں کی ضلعی اور صوبائی سطح پر انتظامی حالت بے حد کمزور ہے اس طرح سے کہ وہ مندرجہ بالا دونوں مسائل حل کرنے پر قادر نہیں ہیں،،،
جبکہ اپنے تحقیقی کتاب لسانیات تا سماجی لسانیات میں ڈاکٹر محمد قاسم بگھیو لکھتے ہیں
,,, کہ گزشتہ تیس برسوں کے دوران علم اللسان یعنی زبان کے علم کا زمان و مکان،ہیئت اور مختلف شاخوں کے حوالے سے باالترتیب مطالعہ وقت کی ضرورت اور فکر لازم کی حیثیت اختیار کر چکا ہے اس علم نے تیزی سے پھیل کر اس قدر مقبولیت حاصل کی ہے کہ دینا کی بیشتر اہم جامعات اسے گریجویشن اور پوسٹ گریجویشن کے نصابوں میں شامل کرکے مکمل اسناد دے رہی ہیں_ ترقی یافتہ دینا کے برعکس پاکستان میں اس علم سے متعلق تا حال سنجیدگی سے نہیں سوچا گیا ہے اگرچہ چند جامعات میں اس جدید علم کے تربیت یافتہ چند اساتذہ موجود ہیں لیکن ان جامعات میں بھی محض تعارفی لسانیات ہی پڑھائی جاتی ہے اور اس کے تفصیلی تشریحی مطالعہ کے علاؤہ لسانیات کی دیگر اہم شاخوں کی جانب توجہ نہیں دی جارہی ہیں- ترقی یافتہ دنیا میں اس علم کی شہرت اور تحقیق نے سماجیات،نفسیات ،فلسفہ اور علم الانسان کے علماء،اساتذہ اور بات چیت میں عیب،نقص اور بت ترتیبی کو سدھارنے کی کوشش کرنے والے علماء (سپیچ تھراپیسٹ) کے علاؤہ دیگر بیشتر ماہرین سماجی سائنس کو احساس دلایا ہے کہ زبان ان کے امور زندگی کی تمام مصروفیات میں بڑا اور اہم مقام رکھتی ہے لیکن جب انھوں نے اس علم سے متعلق مزید تحقیق کی تو انھیں محسوس ہوا کہ لسانیات کا موضوع دقیق،تکینکی اور کسی قدر محدود قسم کا ہے،،
جبکہ عباس نئیر اسے ادبی تصورات اور زندہ سوالات کے ساتھ ایک مثہور زمانہ ادبی صنف پارے و ڈرامے کی کہانی بیان کرتے ہوئے اس مقدمے کا جائزہ لیتے ہیں کہ مادری زبانوں کا عالمی دن ہے،جسے اس صدی کے آغاز سے منایا جانے لگا ہے۔یہ دن ہمیں اپنے گریبان میں جھانکنے کا ہر سال موقع دیتا ہے ، اور ہمیں مادر ی زبانوں کے مسئلے کو سوچنے پر مجبور کرتا ہے۔اس دن کا راست تعلق ہم پاکستانیوں سے ہے۔تاریخ اکیس فروری 1952 ،مقام ڈھاکایونیورسٹی ، موجودہ بنگلہ دیش۔ طلبا اپنے لسانی حق کے لیے احتجاج کررہے ہیں۔ پانچ سال پہلے نو آبادیاتی زنجیروں کو توڑکر وجود میں آنے والی ریاست، نوآبادیاتی جبر سے کام لیتی ہے۔ احتجاج کرنے والوں کی زبانوں کو خاموش کرانے کی خاطر ان پر گولی چلاتی ہے۔ تاریخ میں پہلی مرتبہ مادری زبان کو تسلیم کرانے کی خاطر چند نوجوان اپنی جان کا نذرانہ پیش کرتے ہیں ۔مادری یا نیٹو زبان کی اہمیت کیا ہوتی ہے اور اس سے محرومی کا انسانوں کی سیاسی ، ثقافتی ، تعلیمی ہی نہیں ،ان کی نفسی زندگی پر کیا اثرپڑتا ہے،یہ بیسویں صدی کی لسانیات ہی کا نہیں،ادب کا بھی اہم موضوع بنا ہے۔
نوبل انعام یافتہ برطانوی شاعر و ڈراما نگار ہیرولڈ پنٹرکا ڈراما “پہاڑی زبان” مادری زبان سے محرومی کے نفسی اثرات کو موضوع بناتا ہے۔
یہ ایک پوسٹ کولونیل ڈراما ہے۔ اگر چہ اس کے بارے میںکہا گیا ہے کہ یہ ترکی کے کردوں پر مظالم کے پس منظر میں لکھا گیا ہے مگر مقام اور وقت کا ذکر نہ ہونے کے سبب یہ کسی ایک خطے تک محدود نہیں بلکہ ایک صورتِ حال کو پیش کرتا ہے: جب کسی گروہ کو اس کی زبان سے محروم کردیا جاتا ہے۔ ایک سابق نو آبادیاتی ملک کے ادیب کا ٹھیک اس صورت حال کو موضوع بنا نا جو اس کے ہم وطنوں نے پیدا کی اور جس میں غیر معمولی سفاکی ہے، ایک فوراً سمجھ میں آنے والی بات نہیں۔ ہم کہہ سکتے ہیں کہ ادب کی تخلیق میں اگر وقت اور مقام کو حذف کرکے بھی انسانی صورت حال کو بیان کرنے کی صلاحیت ہے تو اسی ادب میں قوم، جغرافیے اور تاریخ سے بلند ہونے کی اہلیت بھی ہے۔ اسے پڑھتے ہوئے کئی مقامات پر لگتا ہے کہ جیسےاس میں کہی گئی باتیں ہم سب سے کچھ نہ کچھ متعلق ہیں،کیوں کہ ہم میں سے اکثر اپنی زبانوں سے کم یا زیادہ کٹے ہوئے ہیں۔خیر، یہ ایک ایکٹ کا ڈراما ہے اور ایک ہی نشست میں پڑھا جاسکتا ہے ، اور مادری زبانوں کے عالمی دن کو اس کا پڑھا جانا مناسب ہوگا تاکہ ہم مادری زبانوں کے مسئلے کی حساسیت سمجھ سکیں ۔ اس کا اہم ترین حصہ یہ ہے کہ اس میں آفیسر ایک بوڑھی عورت کو جو اپنے قیدی بیٹے سے ملنے آتی ہے، اس کی اپنی زبان بولنے سے منع کرتا ہے ۔
“میری بات سنو۔تم پہاڑی لوگ ہو۔تم سنتے ہو مجھے؟تمھاری زبان مردہ ہوگئی ہے۔ یہ ممنوع ہے۔ یہاں اس پہاڑی زبان کے بولنے کی اجازت نہیں ہے۔تم اپنی زبان تم اپنے لوگوں سے نہیں بول سکتے۔ اس کی اجازت نہیں ہے۔ کیا تم میری بات سمجھ رہے ہو؟ تم اسے نہیں بول سکتے۔ یہ غیر قانونی ہے۔ تم صرف مرکز (کیپٹل ) کی زبان بول سکتے ہو۔ صر ف اسی زبان کے بولنے کی یہاں اجازت ہے۔ اگر تم یہاں اپنی پہاڑی زبان بولنے کی کوشش کر وگے تو تمھارے ساتھ سخت برا سلوک ہوگا ۔ یہ مرکزی فیصلہ ہے۔ یہ قانون ہے۔ تمھاری زبان ممنوع ہے۔ یہ مردہ ہے۔ تم میں سے کوئی اپنی زبان نہیں بول سکتا۔ تمھاری زبان اب وجود ہی نہیں رکھتی ۔ کوئی سوال؟ “
اور سوال بہت ہیں ، ان کی طرف سے جن کی زبان کو فوجی قانون کے تحت مردہ قرار دیا گیا ، حالاں کہ وہ بولی جارہی ہے اور ان کی جانب سے بھی سوال ہیں جنھیں تاریخ کے جبر کے تحت کیپٹل کی زبان بولنے پر مجبور کیا گیا ہے مگر وہ فخر کے ساتھ کیپٹل کی زبان بولتے ہیں۔پہلا سوال یہ ہے کہ آخر کیوں، نو آبادکار کوئی بھی ہو ، اس کا قانون ، خدائی قانون ہے، ا س کی زبان سے نکلا ہوا کلمہ آدمی ہی نہیں ، اس کے کلچر اور زبان کو مردہ کرسکتا ہے۔نو آبادکار یہ طاقت کہاں سے اخذ کرتا ہے؟ ایک جواب تو ہے عسکریت سے ۔ عسکری قانون میں کئی معانی چھپے ہیں۔ توپ اور ذہن دونوں کی طاقت کےمعانی۔ (توپ کھسکی پروفیسر پہنچے/ جب بسولہ ہٹا تو رندہ ہے)دوسرا سوال یہ ہے کہ نو آباد کا ر پہاڑی(کیوں کہ وہ مرکز سے دور ہے) —پنجابی ،اردو ، سندھی ،سرائیکی، بلوچی ،براہوی ،پشتو، بلتی ،تورولی ، آئرش ، افریقی یا کوئی اور زبان کیوں ممنوع قرار دیتا ہے؟ کیا اس لیے کہ وہ مقامی لوگوں کی مزاحمت یا بغاوت سے خوفزدہ ہوتا ہے؟ وہ اپنی زبان بولیں گے تونو آبادکار نہیں سمجھ سکیں گے کہ مقامی لوگ کیا سوچتے ہیں؟
میرا خیا ل ہے ، دو طرح کے مقاصد اس کے پیش نظر ہوتےہیں۔ ایک یہ کہ زبان پر اختیار سب سے بڑا اختیار ہے اور دوسر ا یہ کہ کیپٹل کی زبان حاکمیت کو مکمل کرتی ہے ۔ زبان صرف ابلاغ کا ذریعہ نہیں ،دنیا کو سمجھنے ،برتنے اور اپنے تخیل میں تخلیق ہونے والی دنیائوں کو ظاہر کرنے کا وسیلہ بھی ہے ۔نیز یہ یکجائی پیدا کرتی ہے۔ اس زبان سے محرومی آدمی کے اندر کی ساری دنیا کو موت سے ہمکنار کردیتی ہے۔ اس ڈرامے میں بھی یہی ہوتا ہے کہ وہ بوڑھی عورت جو کیپٹل کی زبان نہیں جانتی اور اپنے بیٹے سے اپنی پہاڑی (یعنی ممنوعہ ) زبان بولتی ہے، جب اسے خاموش رہنے پر مجبور کیا جاتا ہے تو وہ بولنےہی سے معذور ہوجاتی ہے، یعنی سرے سے بول ہی نہیں سکتی اور اپنی ہی زبان سمجھنے سے بھی قاصر ہوجاتی ہے۔
اس کی اپنی زبان جو اس کے اپنے بیٹے سے محبت کے اظہار کا واحد ذریعہ تھی، جب اس سے زبردستی چھین لی گئی تو وہ صدمے میں چلی گئی۔ یہ صدمہ بھی ہے اور احتجاج بھی۔ صدمہ انگیز احتجاج۔ یہ صدمہ اس بے یقینی سے پھوٹتا ہے کہ کسی سے اس کی زبان چھینی جاسکتی ہے، وہ زبان جو محبت کا اظہار کا واحدذریعہ تھی۔ احتجاج ،اس دنیا کے خلاف جو ایک جنم دینے والی ہستی کو چپ کر ادیتی ہے اور وہ اس کے ردّعمل میں اپنے اندر سمٹ جاتی ہےاور اس دنیا پر خاموشی سے لعنت بھیجتی ہے۔
اس بوڑھی عورت کی حالت کو “لسانی سکتے “کا نام دیا جاسکتا ہے۔ لسانی سکتہ کوئی معمولی صدمہ نہیں۔ آدمی کے لسانی شعور وفہم اور دوسرے لوگوں سے رابطے کو منقطع کردیتا ہے۔ اس کے اندر لغویت کی انتہا کردیتا ہے۔زبان سے زبردستی محروم کیے جانے کے بعد وہ اس بنیادی شے ہی سے محروم ہوجاتی ہے جو اس کے وجود کوبامعنی بناتی ہے۔ حالاں کہ انھیں اگلے حکم تک ان کی زبان بولنے کی اجازت دے دی گئی ہے۔مگراس کے لیے یہ بات سمجھ سے بالا تر تھی اور اسی لیے یہ مضحکہ خیزی کی انتہا تھی کہ دنیا میں کوئی شخص یا حکومت اس کو اس کی صدیوں پرانی زبان کو ممنوع کرنے کا اختیاررکھتا ہے اور اس اختیار کا وہ اخلاقی جواز بھی پیش کرسکتا ہے۔
اس بوڑھی عورت کی شبیہ ہمارے لیے ذرا اجنبی نہیں ! ،،،
لسانی سکتے سے نکلنے کے لئے مسلسل کوشاں رہنے کی ضرورت ہے جس طرح آج اکیسویں صدی میں بھی حکومتی سرپرستی اور نصاب میں شامل کئے بغیر بھی اپنے زندگی کا مسلسل ثبوت دیتے ہیں
پشتو عالمی تناطر میں
گلوبلائزیشن کے عہد میں پشتو کا مقام ومرتبہ کیا ہے بطور مثال پشتو زبان کے جائزے پر نگاہ ڈالتے ہیں کہ
۔ یونیسکو کے بورڈ آف گورنرز کی عمومی کانفرنس کی جانب سے 2نومبر 2001ء کو ایک اعلامیہ جاری ہوا، جس میں کہا گیا کہ
’’ہر انسان کو حق حاصل ہے کہ وہ اپنی پسند، خصوصاً اپنی مادری زبان میں اپنے خیالات اور تخلیقی صلاحیتوں کا اظہار اور پرچار کرے۔ تمام انسان ایسی معیاری تعلیم و تربیت کا حق رکھتے ہیں، جس کے ذریعے اُن کی ثقافت کی شناخت ہو سکے۔‘‘ گلوبلائزیشن کے ہنگامہ خیز دَور میں جہاں ایک طرف سرمائے نے جغرافیائی سرحدیں عبور کرلیں، وہیں دوسری طرف، قومی ثقافتوں کی بقا و فنا کا مسئلہ بھی درپیش ہے۔ خصوصاً اُن ممالک میں یہ مسئلہ زیادہ نمایاں ہے، جہاں قومی زبانیں حکومتوں کی بدسلوکی اور عوام کی لاپروائی کا شکار ہیں۔
بعض قومی زبانوں (مادری زبانوں) کو علاقائی زبانیں کہا جاتا ہے اور اُنھیں دوسرے، تیسرے درجے کی حیثیت دی گئی ہے۔بدقسمتی سے پاکستان میں بھی صُورتِ حال کچھ ایسی ہی ہے۔ تعلیمی اور سرکاری اداروں میں یہ زبانیں شجرِممنوعہ قرار پائی ہیں، پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا میں بھی اُن پر غیر اعلانیہ پابندی عائد ہے، تو ظاہر ہے کہ جو زبان ذریعۂ تعلیم نہ ہو، معاش اور ملازمت کی ضرورت بھی نہ ہو اور ذرائع ابلاغ میں کسی بنیادی اہمیت کی حامل نہ ہو، وہ کس طرح ترقّی کر سکے گی اور زندہ رہ پائے گی۔ اہلِ فہم و دانش کہتے ہیں کہ بچّے کی ذہنی نشوونما، ترقّی، تعلیم اور تربیت مادری زبان ہی کے ذریعے اچھی ہو سکتی ہے۔
نیز، ماہرین اس بات پر بھی متفّق ہیں کہ بچّوں کی اُس زبان میں تعلیم و تربیت ہونی چاہیے، جس میں وہ خواب دیکھتے ہیں۔اور ظاہر ہے کہ خواب ،مادری زبان ہی میں دیکھے جاتے ہیں۔ دنیا کی تمام مہذب اور ترقّی یافتہ اقوام عملی طور پر اپنے بچّوں کو یہ حق دے چُکی ہیں۔ آزادی کی تحریک میں باچا خان کی زیرِ نگرانی’’ آزاد اسکولز‘‘ میں پہلی مرتبہ پشتو زبان کو ذریعۂ تعلیم قرار دیا گیا، پھر ڈاکٹر خان صاحب کی وزارت میں بھی پرائمری سطح تک پشتو ذریعۂ تعلیم تھی۔
ایّوب خان کے دورِ حکومت میں قائم کردہ’’ قومی تعلیمی کمیشن‘‘ نے بھی بچّوں کو مادری زبان میں تعلیم دینے کی سفارش کی، تاہم اس سفارش پر عمل درآمد نہ ہو سکا۔ 1973ء کے آئین کے آرٹیکل 251کی تیسری شق کے تحت صوبوں کو اختیار دیا گیا کہ وہ قومی زبان اُردو کے ساتھ، صوبائی زبانوں کی ترقّی، استعمال اور تعلیم کے لیے مناسب قوانین وضع کر سکتے ہیں۔ اسی شق کے تحت سندھ میں سندھی زبان نہ صرف تعلیمی بلکہ دفتری زبان قرار پائی، لیکن پشتو زبان کو اُس آئینی حق سے تاحال محروم رکھا گیا ہے۔
المیہ یہ ہے کہ پشتو زبان کو اپنی قدامت اور بھاری علمی خزینے کے باوجود قدیم پختون بادشاہوں نے تعلیم، روزگار یا دربار کی زبان نہیں بنایا ۔
پشتو کے نام وَر ادیب و محقّق، ڈاکٹر شیر زمان طائزے کے مطابق، پروفیسر اسٹیفن اے وورم کی تحقیقی کتاب
Atlas of the world’s languages in danger of disappearing’’
‘زیادہ زبانیں مستقبل میں ختم ہو جائیں گی۔ ‘میں کہا گیا ہے کہ دنیا میں کم و بیش 6ہزار زبانیں بولی جاتی ہیں،جن میں آدھی سے
’Hutchinson Encyclopedia
‘‘کے مطابق، پشتو دنیا میں آبادی کے لحاظ سے 43ویں نمبر پر ہے۔
پشتو افغانستان میں سرکاری اور تعلیمی زبان رہی ہے۔ سابق ریاست سوات میں بھی پشتو دفتری اور تعلیمی زبان تھی۔ ایک لحاظ سے پشتو خلا کی زبان بھی ہے کہ روس کی جانب سے1988ء میں خلا میں بھیجے جانے والےخلائی جہاز’’میر‘‘ کے کیپٹن عبدالاحد مومند تھے، جنہوں نے جہاز میں خرابی کے بعد اپنی والدہ سے پشتو میں گفتگو کی ۔ ایشیائی زبانوں میں پشتو پر جتنا تحقیقی کام مستشرقین نے کیا، اس سے پتا چلتا ہے کہ انگریز نے اپنے سب سے بڑے حریف کو سمجھنے کے لیے کس طرح اُن کی زبان سمجھنے کی سعی کی۔پھر ایسے انگریز مستشرقین بھی ہیں، جنہوں نے خالص علمی و ادبی لگن سے پشتو زبان و ادب میں دِل چسپی لی اور قابلِ قدر خدمات انجام دیں۔ پروفیسر ڈورن نسلاً انگریز تھے۔
جرمنی میں پیدا ہوئے، وہیں تعلیم پائی، افغانستان اور کاکیشیا کی زبانوں میں مہارت حاصل کی۔ درسی کُتب کے علاوہ 1826ء میں پختونوں کی تاریخ، 1845ء میں پشتو لغت اور 1847ء میں پشتو زبان پر ایک کتاب شایع کی۔ ایچ جی راورٹی مشہور انگریز مستشرق، پشتو زبان کے عالم اور نام وَر مصنّف تھے۔ اُنہوں نے خصوصیت سے دو اساتذہ سے استفادہ کیا۔ ایک ہشت نگر اور دوسرے قندھار کے تھے، یہی وجہ ہے کہ پشتو زبان کے دونوں لہجوں کے فرق کو بخوبی سمجھتے تھے۔ راورٹی کی گرائمر کا پہلا ایڈیشن کلکتہ میں چَھپا، جب اُس کا دوسرا ایڈیشن لندن میں آیا، تو انگلستان کے اخبارات و رسائل نے اُسے شاہ کار قرار دیا۔ راورٹی کی دوسری مشہور پشتو تصنیف’’ گلشن روہ‘‘ ہے، جو پشتو کے نام وَر شعرا کے منتخب کلام پر مشتمل ہے۔
اس سے پہلے پروفیسر ڈورن نے بھی پشتو منظومات اور نثر کا انتخاب شایع کیا تھا۔ راورٹی نے انگریزی میں ترجمہ کر کے پشتون شعرا کو یورپ میں متعارف کروایا۔ علّامہ اقبال بھی راورٹی کے اس ترجمے کی وساطت ہی سے پہلی دفعہ پشتون شعرا، خصوصاً خوش حال خان خٹک کے کلام سے متعارف ہوئے۔راورٹی نے’’ مینول آف پشتو‘‘ کے نام سے بھی ایک کتاب لکھی
اُنہوں نے پادری جیمز کی مشہور کتاب اے سوپ فیبلیز کا پشتو ترجمہ شایع کیا۔غالباً یہ پشتو نثر کی پہلی مطبوعہ کتاب ہے، جو 1871ء میں لندن میں شائع ہوئی۔’
پروفیسر ڈاکٹر یارمحمّد مغموم خٹک کی’’کلیاتِ خوش حال بابا‘‘ کے مطابق میجر راورٹی نے 1860ء میں خوش حال بابا کی شارٹ ہینڈ لندن سے شائع کی۔‘‘ ڈاکٹر ہنری والٹر جب سپرنٹنڈنٹ جیل، پشاور تھے، تو اُنہوں نے خوش حال خان خٹک کا پہلا دیوان 1870ء میں شایع کیا۔ سرگریرسن کو’’ ہندوستانی لسانیات کا جائزہ‘‘ پر’’ آرڈر آف میرٹ‘‘ کا اعزاز ملا۔ 19جلدوں پر مشتمل یہ کتاب 1827ء میں شائع ہوئی، جس میں پشتو زبان اور اس کے مختلف لہجوں پر بھرپور بحث کی گئی۔ مالیون نے پشتو زبان کے کچھ عوامی قصّے کلکتہ سے شایع کیے۔
ٹی سی پلوڈن نے انگریز افسران کے پشتو نصاب کے لیے’’گنج پشتو‘‘ لکھی، جس کا 1875ء میں انگریزی میں ترجمہ شایع ہوا، پھر 1903ء میں ایک اور انگریز، بی ای ایم گرڈن نے اس کا چترالی زبان میں ترجمہ کلکتہ سے شایع کیا۔ جیمز ڈار مسٹیٹر مشہور مصنّف اور محقّق تھے۔ 1892ء میں’’ ژنداوستا‘‘ کا ترجمہ کیا۔ وہ 1885ء میں کالج آف فرانس میں ایرانی اور پشتو زبان و ادب کے پروفیسر مقرّر ہوئے تھے۔ پشتو عوامی گیتوں کا مجموعہ ’’پختون خوا ہارو بہار‘‘ کے نام سے 1888 ء میں پیرس سے شایع کیا۔ڈار مسٹیٹر نے اس کتاب میں نہ صرف پشتو زبان کے اصل کے متعلق محقّقانہ بحث کی، بلکہ ایسا مواد بھی محفوظ کردیا، جو اُس وقت کے سیاسی حالات اور پختونوں کے جذبۂ حریّت کی عکّاسی کرتا ہے۔ علاوہ ازیں، اس کتاب کی وساطت سے کئی پختون شعرا کے نام بھی ہم تک پہنچے، وگرنہ وہ بھی دیگر سیکڑوں عوامی شعرا کی طرح تاریکی میں کھوئے رہتے۔ سر اولف کیرو قیامِ پاکستان سے پہلے صوبہ سرحد(پختون خوا) کے گورنر تھے۔اُنھوں نے انگلستان واپس جاکر’’ دی پٹھان‘‘ کے نام سے ایک تاریخی کتاب لکھی، جس کا اُردو ترجمہ’’ پشتو اکیڈمی، پشاور‘‘ نے شایع کیا۔ گلبرٹ سن نے پشتو زبان پر اپنی پہلی تصنیف بنارس اور دوسری 1929ء میں ہرٹ فورڈ سے شایع کی۔ اُسی سال اُن کی ایک اور کتاب پشتو محاورہ لغت پر
(The English Pashtu Colloquial Dictionary)
لندن سے شایع ہوئی۔
یہ کتاب خوش حال خان خٹک کی نظموں پر مشتمل ہے۔ ڈاکٹر میکنزی نے بھی خوش حال خان خٹک کی کچھ نظموں کا انگریزی میں ترجمہ کیا، جو کتابی صُورت میں شایع ہوا۔ گرائیگر نے ایک رسالے میں پشتو الفاظ کا اوستا اور سنسکرت کے الفاظ سے تقابل کیا۔ ڈاکٹر مارگنسٹرن ایک عرصے تک افغانستان میں رہے، اُن کی پشتو زبان اور پشتون قوم
کے متعلق کتاب
(report on a linguistic mission to north-western India
‘‘کے نام سے1932 ء میں اوسلو یونی ورسٹی، ناروے سے شایع کی گئی۔
۔ڈاکٹر ٹرمپ نے 1873ء میں پشتو گرائمر لکھی اُنہوں نے پشتو الفاظ کی ساخت اور خوش حال خان خٹک کی شاعری پر بھی کتاب لکھی۔
ٹیوبنگن، جرمنی کے کُتب خانے میں پشتو کی سیکڑوں قدیم کُتب موجود ہیں۔ ان قلمی نسخوں میں بایزید انصاری(پیر روخان بابا) کی مشہور کتاب’’خیر البیان‘‘ بھی ہے، جو دنیا بھر میں اس کتاب کا واحد نسخہ ہے۔ پادری ہیوز پشتو زبان کے مشہور عالم تھے۔اُن کی پشتو نظم و نثر کے منتخب شہ پاروں پر مشتمل ایک ضخیم کتاب’’کلیدِ افغانی‘‘ کے نام سے
لاہور میں طبع ہوئی۔معرکۃ الآراء تصنیف’
دی پٹھان باڈرلینڈ کے مصنف
‘‘ پشتو لوک ادب کے حوالے سے رقم طراز ہیں’’بہت سے گیت اور کہانیاں، جو پختونوں کے دیہات میں عام طور سے سُنائی جاتی ہیں، قرونِ وسطیٰ کے یورپ کے لوک ادب کی ہمہ گیری کی یاد تازہ کرتی ہیں۔
پشتو ،پختون خوا اور بلوچستان میں تعلیم کی زبان ہے اور نہ ہی دفتری، باوجود اس کے کہ پشتو خیبر پختونخوا کی اکثریتی آبادی اور بلوچستان کی نصف آبادی کی زبان ہے۔ گلوبلائزیشن کے دَور میں پشتو زبان کے مستقبل کے حوالے سے فیصلہ کرتے وقت اپنے حالات، پشتو بولنے والوں کے رویّوں، حکم راں طبقات کے سلوک، پشتو زبان کے علمی ذخیرے، پشتو زبان و ادب کے حوالے سے کیے گئے کام اور پشتون اہلِ قلم کی سرگرمیوں کو مدّنظر رکھنا ہوگا۔،،
اس موقع پر یہ بات دلچسپی کا باعث ہوگا کہ کوئٹہ سے ہمارے محترم ڈاکٹر عبدالروف رفیقی نے پشتونوں کے تمام علاقوں کے ہر طرح لکھنے والے افراد مرد و خواتین اور مسلم و غیر مسلم لکوالوں کی پوری تعداد اور ضروری معلومات و تفصیلات جمع کرکے دس ضخیم جلدوں پر مشتمل,,, ویاڑلی،، مرتب کیا ہے جسے کابل کے اشاعتی ادارے نے خوبصورت انداز میں چھاپا ہے اور کابل افغانستان میں ہی ایک زرخیز اضافہ جناب انجنئیر گلبدین حکمتیار سابق وزیر اعظم افغانستان کی کاوشیں قابل قدر اور پرافتخار ہیں جن میں قرآن کریم کی تفسیر,,پلوشے،، سمیت بھرپور کام کیا ہے اور پشتو زبان کے قواعد و ضوابط پر بھی کتاب تصنیف کی گئی ہے،
مادری زبان کے تحفظ اور بقا کی عملی تجاویز
عملی طور پر درج ذیل تجاویز و آراء ممکن العمل ہوسکتے ہیں ،
تعلیمی زبان کی مجوزہ پالیسی کہ بلوچستان کے لئے تعلیمی زبان کی مجوزہ پالیسی کے خدو خال درج ذیل ممکنہ ہوسکتےہیں
تعلیمی زبان کا انتخاب لسانی کثافت کی بنیاد پر کیا جائے گا،
ایک بڑے لسانی علاقے میں اسی علاقے کی بڑی زبان تعلیمی زبان ہوگی،
ایک بڑے لسانی علاقے میں آباد چھوٹے لسانی گروہ کے بچے اس مخصوص علاقے کی بڑی زبان میں تعلیم حاصل کریں گے اگر وہ بچے سکول میں داخلے کے وقت اس علاقے کی بڑی زبان بول سکتے ہوں،
کسی شہر یا بڑے لسانی علاقے میں موجود بیس فیصد سے زیادہ لسانی کثافت والی چھوٹی لسانی گروہ کو اختیار دیا جائے گا کہ وہ علاقے کی بڑی زبان میں تعلیم حاصل کریں یا پھر اپنی مادری زبان میں_ اس کے لئے انھیں سکول اور مکمل تعلیمی سہولیات اور ماحول فراہم کیاجائے گا،
کسی شہر یا علاقے میں باہر سے آئے ہوئے بچے جو اس مخصوص علاقے کی بڑی زبان نہیں بول سکتے ان کے لئے الگ سے ان کی آبادی کے لحاظ سے کوئی نیشنل یا انٹرنیشنل سکول/ کالج یا یونیورسٹی قائم کی جائے گی جو کہ کسی قومی یا بین الاقوامی زبان میں تعلیم دیں گے_
کسی بڑے لسانی علاقے میں چھوٹے لسانی گروہ کے بچے و استاد کو اپنی زبان میں پڑھنے کا اختیار دیا جائے تاکہ ان کی زبان و کلچر محفوظ رہے،،
بنیادی مشکل معلومات اور تصورات کی تفہیم و تشریح نہیں ہیں بلکہ پولیٹیکل ول یعنی سیاسی عزم و استقلال ہے جس کی وجہ سے ہمارے معاشرے میں بنیادی حقوق و ترجیحات کا تعین کرنے میں بھی مسائل اور ذہنی مشکلات رہتے ہیں حالانکہ کوئٹہ میں انسٹی ٹیوٹ فار ڈویلپمنٹ اسٹیڈیز اینڈ پریکٹسزIDSP نے فروری 2003 ء میں گلوبلائزیشن اور مادری زبانیں،،چیلنجز اور مواقع کے عنوان سے قومی کانفرنس کا انعقاد کیا گیا تھا جس کے معنی خیز اور معتبر سفارشات کتابی صورت میں شائع ہمارے فاضل دوست جناب عارف تبسم نے مرتب کرکے شائع کئے ہیں لیکن اٹھارہ بیس سال گزرنے کے باوجود ایک قدم بھی آگے نہیں بڑھ سکا ہے ،اصل سوال پولیٹیکل ول اور سیاسی عزم و ہمت کی ہے جس بیدار و توانا کرنے کی ضرورت ہے،،
بنیادی مشکل کہاں ہے اس پر جناب عارف انیس کی تحریر سے بہتر تجزیہ و تبصرہ نہیں ہوسکتا وہ لکھتے ہیں کہ میرے سامنے سی ایس ایس 2021 کا انگریزی زبان کا پرچہ موجود ہے، جسے دیکھنے کے بعد مجھے یقین ہے کہ اس سال بھی سی ایس ایس کے امتحان میں کامیاب ہونے والوں کی تعداد ڈھائی، تین فیصد سے زیادہ نہیں ہوگی. یوں انگریزی زبان کو سکرین آؤٹ کرنے کا ذریعہ بنانے والوں کی خواہش پوری ہوجائے گی.
دو ہزار اکیس کے انگریزی کے پرچے میں پوچھے جانے والے مترادفات اور متضاد الفاظ میرے سامنے ہیں. مجھے تقریباً آدھے الفاظ کا مطلب سمجھ میں آتا ہے. تقریباً تمام تر الفاظ فرسودہ اور کلاسیکی انگریزی سے ماخوذ ہیں اور ان کا استعمال ندارد ہے . میں نے آکسفورڈ اور کیمبرج میں پڑھنے والے چار طلباء وطالبات سے مطالب پوچھے، تو سب سے بڑا سکور چار رہا. میرے جاننے والے دو عالی مقام گوروں نے( ایک پچاس کتابوں کا مصنف اور دوسرا پینگوئن جیسے ادارے میں تیس سال ایڈیٹر رہا) پچاس سے ساٹھ فیصد درست جوابات دیے. پاکستان میں یہ پرچہ دودھ میں سے کریم الگ کرنے کے کام آئے گا اور یوں ٪97 پھٹا ہوا دودھ پیچھے یا نیچے رہ جائے گا.
پاکستان میں انگریزی کے مسائل
میں اعتراف کروں گا کہ میں بذات خود انگریزی نظام سے فائدہ اٹھانے والوں میں سے ایک ہوں. اس زبان نے عشق سے لے کر اقتدار اور اثر و رسوخ کے دروازے کھولے. ادارے کھولے اور میرے اور میاں جہانگیر کے سسٹم نے دس لاکھ سے زائد افراد کو تربیت دی. اس نظام کی آنتوں سے گزرنے کے بعد بتایا سکتا ہوں کہ یہ ایک کینسر سے کم نہیں ہے. وادی سون میں پیدا ہونے اور ٹاٹ میڈیم سرکاری سکولوں میں پڑھنے کے بعد مجھے انٹرمیڈیٹ کے آس پاس یہ بات سمجھ آچکی تھی کہ مجھے اوپر والے طبقے میں “گھسا بیٹھیا” بننے کے لئے انگریزی سے بہتر پیراشوٹ موجود نہیں تھا. میں نے برٹش کونسل اور امریکن سینٹرز سے حتیٰ الوسع فائدہ اٹھایا اور اپنے شین قاف کو درست کرکے استعماری سسٹم میں نقب لگالی. مجھے آج بھی یاد ہے کہ سی ایس ایس میں انٹرویو کرنے والے جنرل صاحب نے خاص طور پر مجھ سے پوچھا تھا کہ پاکستان سے باہر گئے بغیر، میرا انگریزی لہجہ ایسا کاٹھا کیوں ہے؟ میں ایک ایسا کوا تھا، جو انگریزی کا مور پنکھ لگا کر نظام میں نقب لگانے میں کامیاب ہوگیا تھا. اور یہ فارمولا آج بھی اسی قدر کارآمد ہے.
بیس سال قبل سی ایس پی بننے کے بعد مجھے انگریزی کے جلووں سے خوب آگہی حاصل ہوئی. سب سے پہلے تو یہ معلوم ہوا کہ صرف میں ہی نہیں، پچاس، ساٹھ فیصد کریم بھی میری طرح کووں پر ہی مشتمل تھی. دیکھا کہ اسسٹنٹ کمشنر سطح سے لے کر سیکرٹری کی سطح تک سب اس زبان کے رعب کا شکار ہیں. یہ بھی دیکھا کہ انگریزی زبان بولنا ایک برتری کی نشانی تھی چاہیے اس میں کچھ مغز ہو یا نہ ہو. مجھے بار بار لطیفہ یاد آتا جب جی ٹی ایس، سرکاری بس میں کنڈکٹر سفر کرنے والے طالب علموں سے کرایہ مانگتے تو وہ آگے سے تھرسٹی کرو( پیاسا کوا) سنا دیتے تھے اور یوں انگریزی کے رعب سے کرایہ بچا لیتے تھے. معلوم ہوا تھرسٹی کرو کی تلاوت صرف بس میں ہی نہیں، اقتدار کے تمام ایوانوں میں سب سے کارآمد کرنسی ہے.
پچھلے دس سال میں صدر پرویز مشرف کے ساتھ، وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کے ساتھ اور وزیر اعظم نواز شریف اور سابقہ وزیراعظم عمران خان کے ساتھ بین الاقوامی سطح کی تقریبات میں شامل ہوا اور وہاں پر انگریزی کی مزید درگت بنتی دیکھی. ان سب میں عمران خان کو زیادہ نیچرل انداز سے بولتے دیکھا، (سلیکشن میں یہ بھی خوبی شامل تھی). درجنوں وزیروں، اراکین پارلیمنٹ کو زبان اور بیان میں تربیت دی. تاہم اپنے سفیروں، سیکرٹریوں، جرنیلوں کو بین الاقوامی سطح پر انگریزی بولے دیکھا اور اس کوشش میں ہلکان ہوتے دیکھا. میں ایسی سینکڑوں تقریبات کے ہزاروں گھنٹوں پر محیط تجربے کی روشنی میں بتا سکتا ہوں کہ ان تمام اعلیٰ حکام میں سے ٪80 صرف انگریزی بولنے کی کوشش میں خوار ہوتے ہیں اور صرف ٪20 اعتماد کے ساتھ اپنا مافی الضمیر بیان کر سکتے ہیں. اگر یہ سب اردو میں بولیں تو اپنی تعلیم اور تجربے کی بنیاد پر ٪90 شاندار بات چیت کر پائیں گے
آپ کو حیرت ہوگی کہ پاکستان مقتدرہ کی اعلیٰ ترین مسند پر بھی انگریزی میں اٹھک بیٹھک ہی سب سے بڑا معیار ہے. کئی اعلیٰ سطح کی ملاقاتوں میں نواز شریف کی کرپشن سے زیادہ اعتراض نوازشریف کی بری انگریزی پر خود سنا ہے. صرف سیاسی ہی نہیں، فوجی اشرافیہ میں بھی وہی جرنیل بامراد ٹھہرتا ہے جو انگریزی زبان کے ناکے سے نکل پاتا ہے. ایک بات پورے اعتماد سے عرض کرسکتا ہوں کہ بین الاقوامی سطح پر ہم پاکستانی گونگے ہیں اور دنیا ہمارے ریاستی بیانیے سے بڑی حد تک متفق نہیں ہوتی اور ہماری نالائقیوں کے علاوہ اس کی بڑی وجہ یہی زبان غیر ہے جس میں ہم “شرح آرزو” کرتے ہیں.
سچی بات تو یہ ہے کہ پاکستان میں ٹھہرتے ہوئے سب نارمل لگتا تھا، اب چالیس ملکوں کے گھاٹ سے پانی پینے کے بعد یہ سب سوالیہ نشان لگتا ہے. پوری دنیا میں پاکستان اور ہندوستان کی اشرافیہ انگریزی بولنے کی کوشش میں ہلکان ہوئے جارہی ہے. یہی نہیں اگرچہ ہمارا کرکٹ کا کھلاڑی اچھی انگریزی نہ بول پائے یا ہماری فلم سٹار میرا گلابی انگریزی بولے تو وہ بھی لطیفہ بن کر رہ جاتے ہیں. حالانکہ اس سے بڑا سوال یہ ہے کہ انہیں انگریزی بولنی ہی کیوں چاہیے.
“تمام سرکاری محکموں میں خط و کتابت انگریزی میں ہوتی ہے تو انگریزی کے ساتھ کشتی کرنا پڑتی ہے۔ نتیجہ اکثر مضحکہ خیز نکلتا ہے. عدالتی فیصلے انگریزی میں لکھے جاتے ہیں۔ کوئی پوچھے تو سہی کہ کس بنا پہ؟ چونکہ مسئلہ عدالتوں سے ہے تو احتیاط سے کام لینا لازم بن جاتا ہے لیکن اتنا کہنے کی اجازت ہونی چاہئے کہ نچلی سطحوں پہ عدالتی فیصلے تحریرکراتے ہوئے اچھا خاصا زور لگانا پڑتا ہے۔ کچھ اندازہ تو لگائیے کہ پولیس کانسٹیبل کو شوکاز نوٹس ملتا ہے تو انگریزی میں۔ تھانیداروں کی تحریری بازپرس ہو تو کارروائی انگریزی میں ہوتی ہے۔ ڈی پی او اور آر پی او صاحبان حکم صادر کرتے ہیں تو انگریزی میں۔ یہ کتنی مضحکہ خیز صورت حال ہے۔ شوکاز نوٹس کا جواب دینا ہوتو کانسٹیبلان اور تھانیدار صاحبان کو پیسے دے کے جواب لکھوانے پڑتے ہیں۔ یہاں تو حالت یہ ہے کہ موٹروے پہ بیشتر سائن انگریزی میں ہیں
‘ Better late than never
اور اس قسم کی دیگر ہدایات۔ پہلے اس امر کو تو یقینی بنا لینا چاہئے کہ بسوں، ٹرکوں اور ویگنوں کے ڈرائیور حضرات انگریزی میں لکھی ہوئی ہدایات سمجھتے ہوں گے۔ پورے معاشرے کو والی تعلیم دینے سے کونسی اعلیٰ تربیت ہو جاتی ہے۔ یہ جو ہمارے انگریزی سکول ہیں خاص طور پہ جن کے بڑے نام ہیں انہوں نے کتنے آئن سٹائن یا سائنسدان پیدا کئے ہیں؟ یہ او لیول اور اے لیول کے امتحانات‘ یہ بھی ایک شرمناک داستان ہے۔ ہندوستان میں انگریزی کا معیار ہم سے اونچا ہے لیکن ہندوستان میں او اور اے لیول کے امتحانات 1964ء میں ختم کئے گئے تھے‘ ہم نے اِن کو گلے سے لگایا ہوا ہے۔ مقصد صرف اتنا ہے کہ یہ امتحانات کر کے ہمارے اوپر والے طبقات کے بچوں کو امریکہ، کینیڈا اور برطانیہ جیسے ملکوں میں جانے کی آسانیاں پیدا ہو جائیں۔ یا تو وہاں جا کے سائنسدان بن رہے ہوں پھر بھی کوئی بات ہے لیکن اکثر ہمارے طالب علم دوسرے درجے کی یونیورسٹیوں میں داخلہ لیتے ہیں‘ اس خواب کے ساتھ کہ اس کے بعد وہیں کہیں مقیم ہو جائیں گے۔ جس کسی سے بات کرو بڑے فخر سے کہتا ہے کہ میرا بیٹا یا بیٹی باہر فلاں یونیورسٹی میں پڑھ رہے ہیں یا امریکہ اور کینیڈا میں سیٹل ہو چکے ہیں۔
زبان کے مسئلے کا حل کیا ہے؟“
حل دو ہی ہیں:
دس لاکھ بندہ سڑک پر نکلے اور جب تک اردو اور علاقائی زبانیں دفتری زبانوں کے طور پر نافذ نہ ہو جائیں، واپس نہ آئے.
یا پھر باقی نوے فیصد بھی انگریزی پر عبور حاصل کرکے ایلیٹ کو انہی کے میدان میں دھول چٹا دے. اس میں سو سال اور خواری ہے.
یہاں یہ بات ذہن میں رکھیں کہ انگریزی زبان سیکھنا علم کا نہیں بلکہ طاقت اور اختیار کا مسئلہ ہے. دس فیصد ایلیٹ اسے اپنے” فرینکسٹائن کلب “کو محدود رکھنے کے لیے اور باقی نوے فیصد کو باہر رکھنے کے لیے استعمال کرتی ہے. ہمارے جیسے مڈل کلاسیے جب اس کلب میں گھسا بیٹھیں تو وہ اپنی باقی ماندہ زندگی شین قاف کی درستگی میں خرچ کر دیتے ہیں. جس ملک کی سپریم کورٹ برسوں پہلے اردو زبان کے نفاذ کا حکم جاری کیے بیٹھی ہو اور اس معاملے میں جوں تک نہ رینگی ہو، وہاں آپ طاقت کے نظام کی حساسیت کا اندازہ کرسکتے ہیں. رائج الوقت ٹرینڈ کی روشنی میں بزبان ایلیٹ (افسر شاہی، عدلیہ، خاکی و آبی مقتدرہ) یہ کہا جاسکتا ہے :
یہ” ہم” ہیں
یہ” ہماری” انگریجی” زبان ہے
اور یہ ہماری” پاوڑی” ہو رہی ہے
اور یہ ہم نے اور انگریجی نے پبلک کی” پاڑی” ہوئی ہے! ،،،
اس قیمتی بحث ومباحثہ اور تحقیق و جستجو کو ہم اپنے مرحوم دوست اور انتہائی زیرک ادیب ڈاکٹر عبدالواسع کاکڑ کے مادری زبان پر پشتو شعر سے اختتام پذیر کرتے ہیں کہ
مورنی ژبہ
( مادری زبان)
بببراسولی می دہ مور، مورنی ژبہ
سہ عظمت زما د کور، مورنی ژبہ
پہ ھر اڑخ کیسی د ژوندون بہ ویی ناکامہ
چی کوم چوک گڑیی پیغور ، مورنی ژبہ،،،
مقالہ نگار کا تعارف
عبدالمتین اخونزادہ لورالائی میں پیدا ہوئے اور بچپن کے بارہ پندرہ سال دیہی زندگی کی صحت مند فضا میں اپنے آبائی گاؤں طور تھانہ میں والدین کے زیر سایہ پرورش پائی۔
کوئٹہ سے تعلق رکھنے والے عبدالمتین اخونزادہ ،
بلوچستان کی ایک سرگرم سماجی شخصیت ہیں جو بلوچستان کے عوام کی مشکلات اور نوجوانوں کی تعمیر و ترقی کے لئے کوئٹہ ڈویلپمنٹ محاذ کیو ڈی ایم کے پلیٹ فارم پر سرگرم نظر آتے ہیں ۔ مستقبل کے چیلنجز سے نپٹنے کے لئے مکالمہ کے ذریعے لائحہ عمل اور حکمت عملی طے کرنے اور عملی بنیادوں پر عمل درآمد کی کوشش میں ہر لمحہ مجلس فکر و دانش علمی و فکری مکالمے کے پلیٹ فارم پر مصروف عمل ہیں۔مزید براں اقبال سے ان کا خصوصی شغف ان کے عمدہ ادبی ذوق کا آئینہ دار ہے ۔ پاک افغان ایران
اقبال ریسرچ، ڈائیلاگ اینڈ ڈویلپمنٹ فورم کے تحت فکر اقبال کی روشنی میں تحقیق و جستجو اور تخلیق و تدبیر کی نئی جہتیں تلاش کرنے کےلئے مفید اور تعمیری مباحث و دانش مندی کی آرزو مندی کے رجحان پیدا کرنے کے لئے نئے عمرانی ارتقاء و سماجی شعور کی بیداری و احیاء مندی کو فروغ دینا چاہتے ہیں ،
ڈگری کالج لورالائی سے گریجویشن،یونیورسٹی آف بلوچستان کوئٹہ سے اسلامک اسٹڈیز میں ماسٹر اور الحمد اسلامک یونیورسٹی سے 12 ویں صدی کے 21 سوال پر سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم 21 ویں صدی میں موازنہ و تجزیہ کے لئے ایم فل مکمل کر چکے ہیں اور میں حکمت قرآنی و سائنٹفک اسٹڈیز کے سلسلے میں مفید اور ثمر بار ترقیاتی اپروچ اختیار کرنے کے لئے پی ایچ ڈی کے لئے کوشاں ہیں ،
Discover more from Press for Peace Publications
Subscribe to get the latest posts sent to your email.
You must be logged in to post a comment.