کتاب: آئینے کے پار /تبصرہ نگار: تہذین طاہر

You are currently viewing کتاب: آئینے کے پار /تبصرہ نگار: تہذین طاہر

کتاب: آئینے کے پار /تبصرہ نگار: تہذین طاہر

مصنفہ: مہوش اسد شیخ
تبصرہ نگار: تہذین طاہر
مہوش اسد شیخ کہتی ہیں ”مجھے بچپن سے کہانیاں لکھنے اور پڑھنے کا شوق تھا۔ لہٰذا کہانیاں لکھنے کا آغاز 2016میں فیس بک پیچ پر قلمی نام مشی شیخ سے کیا۔سوشل میڈیا پر میری کہانیوں کو پسند کیا جانے لگا۔ چار سال تک فیس بک پر لکھتے رہنے کے بعد2020میں پرنٹ میڈیا پر نمودار ہوئی۔ جہاں مجھے بہت عزت ملی۔ 2021ءمیں میں نے باقاعدہ اپنے نام کے ساتھ لکھنا شروع کیا تو میرے لیے کامیابیوں کے دروازے کھلتے چلے گئے۔ پہلے ہی سال مختلف نامور رسائل میں میری پنتالیس کہانیاں شائع ہوئیں ۔ یہ میری نزدیک ایک بہت بڑی کامیابی تھی۔ ان دو ڈھائی سالوں میں میرے رب نے مجھے جتنی عزت بخشی اتنی میری اوقات نہیں تھی۔ مجھے ایک نہیں تین تین کتابوں کی مصنفہ بنا ڈالا“۔
زیر نظر کتاب”آئینے کے پار“ مہوش اسد شیخ کے قلم سے لکھی جانے والی کہانیوں کی ان کی تیسری کتاب ہے۔ کتاب میں مصنفہ نے جن کہانیوں کو قلمبند کیا ہے ان میں ”میری کشتی وہاں ڈوبی، اعتبار کا موسم، ذرا سوچئے گا، توبہ کے نفل، ناانصافی، آخری ورق، چور رستہ، ناولوں کی دنیا، آئینے کے پار، آہ….!، دوسرا رخ، آخری سورج، سونا آنگن، روزِ محشر، توکل“ شامل ہیں۔
کتاب میں موجود کہانیاں نہ صرف معاشرتی مسائل کی نشاندہی کررہی ہیں بلکہ روزمرہ زندگی کے مسائل کے ساتھ مزاح بھی پیش کر رہی ہیں۔ کتاب پڑھتے جہاں آپ زندگی کی تلخیوں کو سنجیدگی سے دل و دماغ میں اتارتے ہیں ،وہیں مزاح کا عنصر آپ کے چہرے پر مسکراہٹ بھی بکھیر دیتا ہے۔ زندگی کی تلخیوں کو پڑھتے جہاں دماغ یک دم آپ کو تلخ کرنے لگتا ہے ،وہیں کچھ کہانیاں آپ کی زندگی کی تلخیوں کو کم کرنے اور آپ کو خوشی کے لمحات دینے میں بھرپور کردار ادا کر رہی ہیں۔ لکھنے کا انداز اتنا سادہ اور اثر انداز ہے کہ کتاب پڑھنا شروع کریں تو ساری پڑھے بغیر بند کرنے کو دل نہیں مانتا۔کہانیوں کو اس سچائی سے لکھا گیا ہے کہ ایسا معلوم ہوتا ہے سب کچھ ایک سکرین پر آپ کے سامنے چل رہاہو۔ آنکھ نم ہوتی ہے لیکن ضبط کر لیا جاتا ہے۔ بظاہر کہانیوں کی کتاب اپنے اندر کسی نا کسی شخص کی پوری زندگی سموئے ہوئے ہے۔ کتاب کے مطالعہ کے بعد قاری بہت کچھ سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ عام فہم زبان میں لکھے گئے حالات و واقعات ہر خاص و عام کے لیے دورانِ مطالعہ دلچسپی کا باعث ہیں۔
مہوش اسد شیخ جس انداز میں لکھ رہی ہیں وہ بے شک داد کی مستحق ہیں۔ آج کے چھوٹے چھوٹے گھریلوں مسائل کو سر پر سوار کرنے والی خواتین اور زندگی کی تلخیوں سے تھک کر خود کو اور پانے گھر کا سکون خراب کرنے والے لوگوں کے لیے یہ کتاب رہنمائی کا کام کر سکتی ہے۔
کتاب پریس فار پیس فاؤنڈیشن کی جانب سے شائع کی گئی ہے۔ یہ ادارہ جس طرح نئے اور پرانے لکھنے والوں کی پزیرائی کرتا ہے انہیں پروموٹ کرتا ہے ان کی حوصلہ افزائی  کرتا ہے ،یہ قابل ستائش اور قابل تقلیدہے ۔ آج کے نفسانفسی کے دور میں خود غرض لوگ اپنے آپ کو عالم اور دوسروں کو حقیر جانتے ہیں اور یہی ان کی سب سے بڑی غلطی ہے کیونکہ ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ ہیرا بھی کوئلے کی کان سے نکل کر ہی ہیرا بنتا ہے۔ پریس فار پیس فاؤنڈیشن آج کے نئے لکھنے والوں کی جس طرح حوصلہ افزائی کرتا ہے ، اس میں کوئی شک نہیں کے آنے والے دور میں وہ ایک معروف شخصیت اور اپنی الگ پہچان بنانے میں کامیاب ہو جائیں گے۔
پریس فارپیس فاؤنڈیشن آئے روز کوئی نہ کوئی نئی کتاب منظر عام پر لا کر کتاب دوستی میں اضافہ کر رہا ہے۔کتاب کو خوبصورتی سے مرتب کر کے جس لگن کے ساتھ شائع کیا جاتا ہے وہ قابل تحسین ہے۔ خوبصورت سر ورق کے ساتھ زیر نظر کتاب پریس فار پیس فاؤنڈیشن کی لگن اور محنت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ کتاب کی قیمت صرف800/-روپے ہے۔کتاب نہ صرف پاکستان بلکہ یوکے سمیت دیگر ممالک میں منگوانے کے لیے بآسانی رابطہ کیا جا سکتا ہے۔ کتاب حاصل کرنے کے لیے اس ای میل پر رابطہ کریں۔
pressforpeace.org.uk/shop
info@pressforpeace.org.uk
٭….٭….٭


Discover more from Press for Peace Publications

Subscribe to get the latest posts sent to your email.