ایٹم بم/ مخلص وجدانی

You are currently viewing ایٹم بم/ مخلص وجدانی

ایٹم بم/ مخلص وجدانی

مخلص وجدانی 

بناکر اس نےایٹم بم جو دیکھاتوبہت خوش تھا

کہ اس ایجاد سےدنیا میں اس کا سرہوااونچا

مگر جب ایک دانا نے  بتایا  تو وہ پچھتا یا

بشرکا خوں بہانےسےمسائل حل نہیں ہوتے

کہ ایٹم بم بنانے سے مسائل حل نہیں ہوتے

عجب انسان ہو انساں کو اپنا غیر سمجھے ہو

سبھی اک پیڑکا پھل اور اک ٹہنی کے پتے ہو

کلہاڑی مارنے کو اپنے ہی پیروں پہ نکلے ہو

مگر خود کومٹانے سے مسائل حل نہیں ہوتے

کہ ایٹم بم بنانے سے مسائل حل نہیں ہوتے

ہوا چلنے لگی ہےجو نئے رُخ سےزمانےکی

بدل ڈالے کی یہ سُرخی  محبت کےفسانےکی

مگر یہ  بات رکھنا یاد تم کو دے خدا نیکی

کسی کا گھرجلانےسےمسائل حل نہیں ہوتے

کہ ایٹم بم بنانے سے مسائل حل نہیں ہوتے

زمانے کو سکھایا ہے بہت جنگ و جدل تم نے

نہ دیکھاجھانک کردل میں محبت کاکنول تم نے

ترانے تو بہت لکھے نہیں لکھی غزل تم  نے

کلاشنکوف اٹھانےسے مسائل حل نہیں ہوتے

کہ ایٹم بم بنانے سے مسائل حل نہیں ہوتے

تمہیں اب فیصلہ کرناہےجیناہے کہ مرنا ہے

جلا کر کشتیاں اپنی کنارے  پر اترنا  ہے

اسی رہ پرچلے تو ناگاساکی سے گزرنا ہے

مگربارود اڑانے سے مسائل حل نہیں ہوتے

کہ ایٹم بم بنانے سے مسائل حل نہیں ہوتے

ملانا ہےتوپھر انساں کو انساں سے ملاؤ تم

اٹھانا ہے تو پرچم صلح و الفت کا اٹھاؤ تم

گرانی ہے تو دیوار نفرت کی گراؤ تم

یہ دیواریں اٹھانے سے مسائل حل نہیں ہوتے

کہ ایٹم بم بنانے سے مسائل حل نہیں ہوتے

کرو یہ عہد اب گلزار ہستی کو سجانا ہے

یہ دنیا اک وطن ہےاوراسےگلشن بناناہے

ہراک جنگ و جدل کانام دنیاسےمٹانا ہے

مگرباتیں بنانےسےمسائل حل نہیں ہوتے

کہ ایٹم بم بنانے سے مسائل حل نہیں ہوتے


Discover more from Press for Peace Publications

Subscribe to get the latest posts sent to your email.