جہیز کی شرعی حیثیت ۔ماروی عبدالرشید

جہیز کی شرعی حیثیت ۔ماروی عبدالرشید

جہیز عربی زبان کا لفظ ہے جس کا مطلب ہے اسباب یا سامان  یہ اس سامان کو کہتے ہیں جو لڑکی کو نکاح میں اس کے ماں باپ کی طرف سے دیا جاتا ہے۔ جہیز دینے کی رسم پرانے زمانے سے چلی آ رہی ہے۔ ہر ملک اور ہر علاقے میں جہیز مختلف صورتوں میں دیا جاتا ہے
نکاح انسانی فطرت  کے ایک ضروری تقاضے کو جائز طریقے  سے پورا کرنے کا بہترین ذریعہ ہے،  اور اگر اس جائز   طریقے پر رکاوٹیں عائد کی  جائیں  یا اس کو مشکل بنایا جائے تو  اس کا  لازمی نتیجہ بے راہ روی کی  صورت میں نمودار ہوتا ہے، اس لیے کہ جب کوئی شخص اپنی فطری ضرورت پوری کرنے کے لیے  جائز راستے بند پائے گا تو اس کے دل میں ناجائز راستوں کی طلب پیدا ہوگی،  جو انجامِ  کار معاشرے کے بگاڑ کا ذریعہ بنے گی۔ حدیث شریف میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’اگر کوئی ایسا شخص تمہارے پاس رشتے کا پیغام بھیجے جس کی دِین داری اور اَخلاق کو تم پسند کرتے ہو تو اس کا نکاح کرادو، اگر ایسے نہیں کروگے تو زمین میں بڑا فتنہ اور وسیع فساد ہوجائے گا‘‘۔ (رواہ الترمذی)
اسلام نے نکاح کو جتنا آسان  بنایا ہے موجودہ معاشرتی  ڈھانچے نے  اسے اتنا ہی مشکل  بنادیا ہے، نکاح کے بابرکت  بندھن پر  بے شمار  رسومات، تقریبات،  اور فضول اخرجات کے   ایسے  بوجھ لاد  دیے گئے ہیں کہ ایک غریب بلکہ متوسط آمدنی والے  شخص کے لیے بھی وہ ایک ناقابلِ تسخیر پہاڑ بن کر رہ گیا  ہے اور اس میں اکثر اور بیش تر  ایسی رسومات  کا  ارتکاب کیا جاتا ہے جن کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں،  بلکہ وہ    ہندوانہ  رسمیں ہیں،  اور غیر اقوام سے   مشابہت  کی ممانعت  بے شمار احادیث میں وارد ہوئی،
حدیثِ مبارک  میں ہے:  سب سے بابرکت نکاح وہ ہے جس میں سب سے کم مشقت (کم خرچہ اور تکلف نہ) ہو” ۔
نیز ان رسموں میں کس قدر مال خرچ کیا جاتا ہے جب کہ قرآنِ کریم میں اسراف وتبذیر کی صراحۃً ممانعت وارد ہے ۔
اور  ’’جہیز‘‘  ان تحائف اور سامان کا نام ہے جو والدین اپنی بچی کو رخصت کرتے ہوئے دیتے ہیں،اگروالدین اپنی رضا و خوشی سے اپنی بیٹی کو رخصتی کے موقع پر کچھ دینا چاہے تو یہ شرعی طور پر ممنوع بھی نہیں، بلکہ یہ رحمت اور محبت کی علامت ہے، ایسی صورت میں بچی کے لیے جہیز لینا جائز ہے، اور بچی ہی جہیز کے سامان کی مالک ہوگی۔
لیکن شریعت میں کہیں اس کی حوصلہ افزائی  نہیں کی گئی، نہ ہی کسی روایت میں اس کا تذکرہ یا ترغیب ملتی ہے۔ جہاں تک حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا  کے سلسلہ میں روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنی صاحب زادی فاطمۃ الزہراء  رضی اللہ عنہا کو جہیز کے طور پر یہ چیزیں دی تھیں:  ایک پلو دار چادر، ایک مشکیزہ، ایک تکیہ جس میں اذخر گھاس بھری ہوئی تھی۔
اکثر اہلِ علم اس حدیث کا یہی مطلب سمجھتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے یہ چیزیں اپنی صاحب زادی کے نکاح کے موقع پر جہیز کے طور پر دی تھیں، لیکن تحقیقی بات یہ ہے کہ اس زمانہ میں عرب میں نکاح شادی کے موقع پر لڑکی کو جہیزکے طور پر کچھ سامان دینے کا رواج، بلکہ تصور بھی نہیں تھا۔ اور جہیز کا لفظ بھی استعمال نہیں ہوتا تھا۔ سیدہ فاطمہ رضی اللّٰہ تعالیٰ عنھا کے علاوہ دوسری صاحب زادیوں کے نکاح کے سلسلہ میں کہیں کسی قسم کے جہیز کا ذکر نہیں آیا۔ رہی بات حدیث کے لفظ ’’جهّز‘‘ کا مطلب، تو اس کے معنی اصطلاحی جہیز دینے کے نہیں، بلکہ ضرورت کا انتظام اور بندوبست کرنے کے ہیں، حضرت فاطمہ رضی اللّٰہ تعالیٰ عنھا کے لیے حضور ﷺنے ان چیزوں کاانتظام حضرت علی  رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے سرپرست ہونے کی حیثیت سے ان ہی کی طرف سے اور ان ہی کے پیسوں سے کیا تھا؛ کیوں کہ یہ ضروری چیزیں ان کے گھرمیں نہیں تھیں، روایات سے اس کی پوری تفصیل معلوم ہوجاتی ہے، بہرحال یہ اصطلاحی جہیز نہیں تھا‘‘۔
بہر صورت اگر اس کو جہیز بھی تسلیم کرلیں تو  بس وہ وہی بنیادی ضرورت کی چیزیں تھیں جو ان کے گھر میں موجود نہیں تھیں، جن کی ان کو ضرورت تھی، تو  آپ ﷺ نے اپنی بیٹی کو اس کا انتظام کرکے دے دیا۔ لہذا :
اگر والدین بغیر جبر و اکراہ کے اور بغیر نمود ونمائش کے اپنی حیثیت کے مطابق بطیبِ خاطر لڑکی کو تحفہ دیتے ہیں تو  اس میں کوئی حرج نہیں ہے، اور لڑکی اس کی مالک ہوگی۔
اگر جہیز کے نام پر لڑکے والوں کا مطالبہ کرنے پر یا معاشرتی دباؤ کی وجہ سے محض رسم پوری کرنے کے لیے لڑکے والوں کو سامان دینا پڑے اور مذکورہ سامان دینے میں بچی کے والدین کی رضامندی بھی نہ ہو تو ایسی صورت میں لڑکے والوں کے لیے ایسا جہیز لینا ناجائز ہے۔ اور اگر ایسا جہیز بچی کے حوالہ کر بھی دیا گیا تو بچی ہی اس کی مالک ہوگی اور اس کی اجازت کے بغیر مذکورہ جہیز کے سامان کو لڑکے والوں کے لیے استعمال کرنا حلال نہیں ہوگا۔
لڑکے والوں کی طرف سے “جہیز”  دینے کادباؤ یا جہیز کا مطالبہ کرنا شرعاً درست نہیں ہے۔
ملا محمد طارق اعظم قاسمی صاحب کا جنہوں نے جہیز کو چور دروازے سے تعبیر کیا ہے
وہ فرماتے ہیں کہ جہیز ایک ایسا  چور دروازہ ہے جو برسوں کی کوششوں کے باوجود بھی اول روز کی طرح تنو مند اور توانا نظر آ رہا ہے شاید اس کی وجہ یہ ہو کہ اس جہیز کی تجویز ہی غلط ہوئ ہے یا پھر چوروں نے معاف کیجیۓ گا شریفوں نے اپنے دامن شرافت کو داغدار ہونے سے بچانے کے لیے اس کی تجویز ہی غلط یا محدود پیرائے میں کی ہے
خیر معاملہ جو بھی ہو مگر عام طور پر سمجھا  یہ جاتا ہے اور سمجھایا بھی یہی جاتا ہے جہیز اصل وہ مال ہے  سامان ہے جس کا مطالبہ  لڑکے والے لڑکی والوں سے کرتے ہیں اس کے علاؤہ جو لین دین ہوتا ہے وہ جہیز کے حدود سے باہر ہوتا ہے کتنی بڑی غلط فہمی ہے جو دانستہ یا نادانستہ طور پر پھیل رہی ہے یا پھیلائ جا رہی ہے
ہمیں کچھ نہیں چاہیئے ویسے آپ اپنی بیٹی کو خوشی سے جو دینا چاہیں ہمیں اس سے کوئی اعتراض نہیں ہے
میں نے اپنے ایک  رفیق سے جب ان چور دروازوں کا ذکر کیا تو انھوں نے  یہ کہا کہ یہ چور دروازے کہاں یہ تو کھلے دروازے ہیں۔ پہلے خیال تھا کہ میری یہ رائے شدت پر مبنی ہے پر اس تبصرے کے بعد اندازہ ہوا کہ میری رائے نرم اور مبنی بر احتیاط ہے۔ خوشی سے دینے کی بات زیادہ کی جاتی ہے اس میں شرفاء کچھ حرج نہیں سمجھتے ہیں؛ بلکہ اسے محمود خیال کرتے ہیں۔ آئیے اس کا ذرا دقت نظر سے جائزہ لیتے ہیں۔
فقہ کا ایک مشہور قاعدہ ہے المعروف کالمشروط اس کا مطلب یہ ہے کہ جو چیزیں معاشرے میں چل پڑتی ہیں یا عام اور معروف ہوجاتی ہیں تو اب ایسی چیزیں شرط کی مانند ہوجاتی ہیں خواہ صاحب معاملہ نے اس کا ذکر کیا ہو یا نہ کیا ہو۔ اس اصول کی روشنی میں خوشی سے جہیز دینے کو دیکھیں کہ اس جہیز کے لین دین کارواج اس قدر بڑھ چکا ہے کہ بغیر اس کے نکاح اور شادی جیسے مقدس فریضے کا تصور ہی نہیں کہ ادھر بیٹی کے نکاح کا خیال آیا اور اسی دم چشم تصور میں جہیز نے آکر غریب والدین کا منہ چڑایا۔ جہیز کے اس چلن بد کی انتہا یہ ہے کہ اگر لڑکے والے منع بھی کریں تو یہ لڑکی والے اپنی نیک نیتی کے ساتھ اس منع کو خواہ حقیقی ہی کیوں نہ ہو مجاز پر محمول کرتے ہوئے رسمی سمجھ کر سنی ان سنی کر دیتے ہیں اور بیٹی کے باپ ہونے کا حق پورا نبھاتے ہیں۔ گویا لڑکے کی جانب سے مطالبہ ہو یا نہ ہو یہ جہیز ملنی ہی ہے، اور لڑکے والے خواہ انھوں نے زبان سے کچھ نہ کہا ہو، مگر دل سے اس کے متمنی اور منتظر رہتے ہیں۔
“اصطلاح شریعت میں جس عمل پر ادب اور مستحب کا اطلاق کیا جاتا ہے اس کی حیثیت یہ ہے کہ اگر اسے اختیار کیا جائے تو ثواب ملے گا اور اگر عمل نہ کیا جائے تو کوئی گناہ نہ ہوگا۔
یہ بات واضح ہوگئی کہ کسی مستحب امر پر اس قدر اصرار کرنا کہ اس کے نہ کرنے والے پر طعن و تشنیع کی نوبت آجائے یہ قطعاً جائز نہیں ہے اور اگر کسی جگہ مستحب کو ایسی مبالغہ آمیز حیثیت دی جانے لگے تو پھر عارض کی وجہ سے وہ مستحب مستحب نہ رہے گا؛ بلکہ بلکہ قابل  ترک ہوجائے گا تاکہ شرعی احکام کے درجات ک بھرپور تحفظ کیا جاسکے
اس اقتباس کی روشنی میں  خوشی سے دی جانے والی جہیز کو دیکھیں کہ یہ مستحب کے دائرے میں بھی نہیں آتا ہے اس پر اصرار اس قدر ہے جس کی تفصیل پہلے آ چکی ہے کہ اس کے بغیر نکاح کا تصور ہی نا ممکن سا ہے
خدارا ان دو مذکوره شرعی اصولوں کی بنیاد پر خود فیصلہ کریں اور اپنے ضمیر اور دل کے مفتی سے فتوی لیں کہ کیا جہیز کی مروجہ شکل لائق اختیار ہے؟ اکثر لڑکے اور لڑکیاں ایسے ہیں جن پر نکاح فرض یا واجب ہے؛ مگر سماج کے ظالمانہ رسوم و رواج اور جہیز کے انھیں چور دروازوں کی وجہ سے یہ نکاح کر نہیں پا رہے ہیں یا ان کا نکاح ہو نہیں پا رہا ہے، اور نئی نسل کی ایک بڑی تعداد اسی وجہ سے سنگین گناہوں میں مبتلا ہو رہی ہے۔ گویا کہ جہیز کے یہ چور دروازے اور ظالمانہ رسمیں نکاح جیسے مقدس فرض کی ادائیگی میں رکاوٹ بن رہے ہیں، تو کیا دفع ظلم اور دفع گناہ کے لیے اس رکاوٹ کا دور کرنا ضروری نہیں ہے؟ اسلام کی ایک امتیازی خوبی یہ بھی ہے کہ گناہوں اور جرائم پر پابندی لگانے کے ساتھ ساتھ ان ذرائع اور راستوں پر بھی پابندی لگاتا ہے جو ان گناہوں اور جرائم تک پہنچانے والے ہوتے ہیں  نظر بد پر اسلام نے پابندی اسی لیے لگائ کہ یہ زنا کے لیے آلہ کار ہے کیا اب ضروری نہیں کہ جہیز کے ان چور دروازوں کو  بالکلیہ سد باب کیا جائے اور اس کے ہولناک شر سے انسانیت کو بچایا جائے


Discover more from Press for Peace Publications

Subscribe to get the latest posts sent to your email.