Monday, May 6
Shadow

لمحہ موجود میں انسانی نفسیات ،سوشل میڈیا اور  ہماری ذمہ داریاں،خصوصی تحریر و تجزیہ: نسیمِ اختر

خصوصی تحریر و تجزیہ نسیمِ اختر

ٹیکنالوجی کے استعمال و دستیابی نے زندگی کے بنیادی اصولوں و تصورات میں تبدیلی اور ممکنات کے مواقع پیدا کردیے ہیں ، سوشل میڈیا پوری دنیا کے لئے رابطے کا پلیٹ فارم بن چکا ہے ،جہاں تمام لوگ اپنی آراء باہمی اشتراک کر سکتے ہیں۔

اور اپنے مسائل کے بارے میں بات چیت اور ان کا حل تلاش کر سکتے ہیں۔سوشل میڈیا کے حقیقی پہلو کے بارے میں بات کرنے سے پہلے یہ جانناضروری ہے کہ سوشل میڈیا ہے کیا؟ آج کی اس ترقی یافتہ دور میں شاید ہی کوٸ ذی شعور شخص یہ نہ جانتا ہو کہ سوشل میڈیا کیا ہے۔ یہ اس دنیا میں بسنے والے انسانوں کو خواہ وہ کسی بھی خطے سے تعلق رکھتے ہوں آپس میں ملانے کا ذریعہ ہے ۔سوشل میڈیا  لوگوں میں انفرادی اور اجتماعی طور پر آپس میں ملانے کا ذریعہ ہے ۔

لوگ اس نیٹ ورک کے ذریعے اپنے نظریات و خیالات تصاویر ویڈیوز اور حتی کے اپنے مسائل اور ان کا حل بھی دوسروں سے شئیر کرتے ہیں.اس نیٹ ورک نے 

لوگ عصری ٹیکنالوجی کے استعمال سے واقفیت حاصل کر چکے ہیں اور یہ سب سو شل میڈیا ہی کا مرہون منت ہے موجودہ زمانے میں جب دنیا بہت زیادہ ترقی کر چکی ہے اور سوشل میڈیا ایک آن لائن نیٹ ورک یا پلیٹ فارم کا کردار ادا کر رہا ہے۔ سوشل میڈیا ہماری زندگیوں کا ایک لازمی جز بن چکا ہے ۔

ٹیکنالوجی کی ترقی کے ساتھ ہی لوگوں پر یہ پریشر ہے کہ وہ اپنا رہن سہن عصری تقاضوں کے مطابق ڈھالیں ۔ہماری نوجوان نسل کے لیے یہ ایک خاص اہمیت کا حامل ہے ۔وہ روزانہ سوشل میڈیا اپنے دوستوں رشتہ داروں کے لیےمحاضرات( سٹیٹس) لگاتے ہیں ٹویٹ کرتے ہیں۔سوشل میڈیا پر ہزاروں ایپ ہیں جو نوجوانوں کی رہنماٸکے لیے موجود ہیں ۔

خواہ کیسی ہی معلومات درکار ہوں۔سب صرف ایک کلک کی دوری پر ہے ۔صحت ،تعلیم،خریداری،خبریں اور کھیل اور فیشن اپ جو چاہیں آپکی رہنماٸ کے لیے مختلف ویب سائٹس موجود ہیں۔

 ۔موجودہ صدی میں سوشل میڈیا کا کردار رسمی میڈیا کے مقابلے میں کھل کر سامنے آیا ہے ۔

دنیا میں موجود ہر چیز کے دو پہلو ہیں ۔

مثبت 

منفی

ایسے ہی سوشل میڈیا کے بھی دونوں ہی پہلو ہیں۔ 

ہماری موجودہ نسل کو اگر ہم نیٹ جنریشن کہیں تو غلط نہ ہو گا کیونکہ آج کے زمانہ میں ہمارے نوجوان ہر طرح کی ٹیکنالوجی کے استمعال سے واقف ہیں ۔

جہاں اتنے مثبت پہلو ہیں وہاں کچھ منفی پہلو بھی ہیں مگر احتیاط سے ان پر قابو پا سکتے ہیں ۔سوشل میڈیا بعض اوقات افواہوں کا باعث بنتا ہے اس کی بنیادی وجہ انسانوں کا غیر ذمہ دارانہ رویہ ہے ۔بطور ایک ذمہ داری شہری ہر شخص کو بلا تحقیق کوٸ بھی بات کرنے سے گر یز کر نا چاہیے ۔

”حدیث شریف“ میں آتا ہے

”آدمی کے جھوٹا ہونے کے لیے یہی کافی ہے کہ وہ جب کوٸبات سنے تو اسے بلا تحقیق آگے پھیلا دے۔“

۔پرائیویسی ختم ہو  گئی ، چینلز راتوں رات اپنی شہرت(ریٹنگ) کے چکر میں دوسروں کی عزت کا بالکل خیال نہیں رکھتے۔انھیں اس بات سے کوٸ غرض نہیں کہ وہ اسطرح معاشرے میں مزید بے راہ روی کو جنم دیتے ہیں۔

۔سوشل میڈیا پر ہم کسی بھی بیماری کے متعلق چھان بین کر سکتے ہیں ۔اچھے ڈاکٹرز کے مشورے حاصل کر سکتے ہیں۔

آج کے اس دور میں مختلف ویب سائٹس پرلوگوں مختلف گروپس بنا رکھے ہیں ۔ان میں ماہر طبیعات ، نفسیات، تعلیم بلاگرز،شیف،ٹیلرز،مختلف فنون کے ماہرین اپنے اپنے فن کے مطابق لوگوں کی رہنماٸی کرتے ہیں ۔ یہ ایک ایسا پلیٹ فا رم ہے جہاں ہر شعبہ زندگی سے متعلق ہمیں رہنماٸ ملتی ہے ۔

اس نیٹ ورک کے بے شمار فوائد کے ساتھ ساتھ کچھ نقصانات بھی ہیں مگر ان میں سے بیشتر انسانوں کے اپنے غلط رویوں کے پروردہ ہیں ۔ 

نہایت افسوس کے ساتھ اس بات کا ذکر کرنا پڑتا ہے کہ کوئیبھی جدید ٹیکنالوجی جب دنیا میں متعارف کرائی  جاتی ہے تو لوگ اسکے بہتر سے بہترین مصارف تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔مگر ہمارے ہاں ایسا نہیں ہوتا ۔ہم سب سے پہلے اس کے منفی اثرات کو کھوجنے اور منفی کے طریقہ استمعال کو اپنانے پہ اپنی توانائیاں صرف کرتے ہیں ۔جب منفی استعمال کے بعد تباہ کن نتائج ہمارے سامنے آتے ہیں تب عوام کے بہت زیادہ تنقید او راپیلوں کے بعد اس پر پابندی عا ئد کر دی جاتی ہے ۔۔عوام ابتدا میں ہر چیز کو کھیل تما شا سمجھتی ہے۔ایدھی ہیلپ سروس اور 1122 سروس کا جب آغاز ہوا تو ایک مہینے میں انکو پندرہ سو رونگ کالز کی  گئیں ۔ آخر کار سخت کارواٸکے نوٹس کے بعد اس معاملے پر قابو پایا جا سکا ۔ٹیکنالوجی کی ترقی کے بعد بھی مارے ہاں پبلک ایڈمنسٹریشن میں ابھی تک ٹیکنالوجی کا استعمال شروع نہیں ہوا، اگر ایسا ہو جائے تو عوام کی انتظامی افسران سے براہ راست رابطے کا ماحول پیدا ہو گا اور لوگوں کے مسائل تیزی سے حل ہوں گے ۔اکثر معاملات میں ایسا بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ اعلی عہدےداران بہت ایماندار ، ذمہ دار اور فرض شناس ہوتے ہیں مگر عام آدمی کی ان تک رساٸی انتہاٸی مشکل ہوتی ہے کیونکہ کچھ عناصر ملی بھگت سے عام آدمی کی رساٸی کو پیچیدہ بنا دیتے ہیں ۔اگر عام کا سنیئر افسران سے آن لائن رابطہ یا تبادلہ خیال ممکن بنا دیا جا ۓ تو اس سے نہ صرف مسائل جلد حل ہو سکتےہیں بلکہ رشوت ستانی جیسی لعنت سے بھی معاشرے کو بڑی حد تک پاک کیا جا سکتا ہے

ضرورت ہے کہ والدین و اساتذہ کرام نوجوانوں اور طلباء وطالبات کی راہنمائی و دانش مندی کا فریضہ انجام دیں تاکہ مفید اور تعمیری مباحث و فکری افلاس کے خلاف آپریشن کامیاب رہے ، نوجوان طبقہ بے راہ روی کا شکارہوتا ہے غلط دوستیاں پالنے سے بعض اوقت خاندانوں کے بڑے مساٸل کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔ کچھ غیر ذمہ دار طبقہ کی طرف سے اس پلیٹ فارم پر ایسی ویب سائٹس تنصیب( لانچ) کی  گئی ہیں جو کچی عمر کے نوجوانوں کو گمراہی کے راستے پر لے جاتیں ہیں ۔ ان پر پابندی عائدکی جاۓ۔اورخلاف ورزی کرنے والوں پر بھاری محصولات عائد کیے جا یئں۔

والدین کو چاہیے کہ بچوں کو بچپن ہی سے زیادہ وقت دیں اور ان کے ساتھ گزرنے والے وقت میں انکو زیادہ سے زیادہ مثبت چیزیں سکھایئں ،بچپن میں سیکھی گئی باتوں کے اثرات بہت دیر پا ہوتے ہیں ۔اپنے بچوں کی تربیت دینی خطوط پر کرنے کی کوشش کریں تاکہ بچے صحیح اور غلط میں پہچان کر سکیں۔ بچوں کو ٹیلی ویژن اور موبا ئل پر ایسی چیزیں دکھائیں جو مثبت ہوں ۔اور انکے رویوں میں بگاڑ کا باعث نہ بنیں  بلکہ ان کا مقصد تعمیری ہو۔نوجوان طبقہ کو بھی نہ صرف گھریلو سطح پر بلکہ سکول کالج اور جامعات میں توازن کی تعلیم دی جاۓ ۔ان کی سر گرمیوں کی جانچ( چیک اینڈ بیلنس ) کی جاۓ۔انکو اپنے اوقات کو زیادہ سےزیادہ کار آمد بنانا سکھایا جاۓ ۔ان کو ایسے امور سونپے جاٸیں جن میں عملی کام( فیلڈ ورک) زیادہ ہو۔تو کوئی وجہ نہیں کہ ہمارے نوجوان اپناوقت موبائل پر ضائع کریں۔

اگر ہم سوشل میڈیا کا مثبت استمعال سیکھ لیتے ہیں تو ہم اس کے صرف اور صرف مثبت ثمرات ہی سے مستفید ہونگے۔

اس سلسلے میں حکومت ،والدین اور اساتذہ کو اپنا کردار ادا کرنا ہو گا ۔اور کوٸی باہمی اور مر بوط لائحہعمل تشکیل دینا چاہیے تاکہ ہم بھی عصر حاضر کے تقاضوں کے مطابق اپنی نسل نو کی تر بیت کر سکیں تاکہ ہماری بھی آنے والی نسلیں ترقی یافتہ دنیا کی ہم قدم ہوں ، اور تعمیری ماحول و ترقیاتی اپروچ اختیار کرنے کے لئے نئے عمرانی ارتقاء و سماجی شعور کی بیداری و دانش مندی کی آرزو مندی پورا معاشرہ مربوط انداز میں کرسکیں اور ممکنہ طور پر سکون و اطمینان کا سانس لیں سکیں###۔

1 Comment

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

×

Send a message to us on WhatsApp

× Contact