بسمہ تعالٰی
قانتہ رابعہ
اسلام دین فطرت ہے اور مکمل دین ہے ۔ان الدین عنداللہ الاسلام،،۔۔دین تو بے شک اللہ کے نزدیک اسلام ہی ہے ،،واضح کرتا ہے کہ قیامت تک اب اللہ نے اسی دین کو لوگوں کے لیے منتخب کیا ہے۔اس دین کے فطری ہونے کا مطلب ہے کہ امیر،غریب ،گورا کالا ،پڑھا لکھا یا ان پڑھ سب کے لیے اس کی تعلیمات قابل عمل ہیں ۔
ہر دین کا ایک وصف ہوتا ہے اور اسلام کا وصف ،،حیا،،ہے بدقسمتی سے ہم دین اور دین سے متعلقہ امور پر برسہا برس سے قناعت کیے بیٹھے ہیں ،جو ترجمہ سننے پڑھنے کو ملا بس اسی پر اکتفا کرلیا ،کوشش تو دنیوی امور کے متعلق ہوتی ہے اس لیے حیا مطلب بھی صبر کی طرح محدود پیمانے پر لیا ۔۔صبر ،کو میت کے پاس بیٹھ کر آنسو نہ بہانہ سمجھ لیا اور حیا کے لیے یہی سمجھنا کافی ہے کہ ساتر لباس پہن لیا اور حیادار کہلاے گئے ۔۔۔۔یا پھر زیادہ ہوا تو شرم یا شرمندگی کو حیا کہہ دیا حیا واقعی شرم کو کہتے ہیں مگر وہ شرم جو رب کی نافرمانی کرتے ہوے دل میں پیدا ہو اور اس سے روک دے ۔۔بنیادی طور پر یہ اسی کیفیت اور جھجک محسوس کرنے کا نام ہے جو گناہ سے روکتی ہے ۔۔۔اور دین کا بنیادی وصف ہونے کا مطلب بھی یہ ہے کہ یہ اسلام میں صرف خوبی کا نہیں بلکہ تمام خوبیوں اور نیکیوں کا سرچشمہ ہے ۔۔گویا حیا نہ ہو تو انسان ہر گناہ دھڑلے سے کر سکتا ہے اس لیے کہ جھجک والی کیفیت آہستہ آہستہ کم ہوتے ہوتے ختم ہوجاتی ہے ۔۔۔اگر آپ قرآن مجید میں حدود کے بارے میں پڑھیں جو اللہ نے بیان کیں اور علماء کا ان کی تعداد کے بارے میں اختلاف ہے لہکن چار کے بارے میں سب علماء متفق ہیں وہ چار ہیں ان کی سزاوں کے بارے میں کسی نبی ولی کو بھی اختیار نہیں کہ وہ کم یا زیادہ کرسکے ۔۔۔یعنی اللہ رب العزت کے نزدیک وہ گناہ اتنے کراہت والے ہیں کہ ان کی سزا کا اختیار بندے کو نہیں دیا۔
زنا، چوری، قذف (جھوٹی تہمت ،بہتان) اور حرابہ ۔۔(فساد فی الارض)
ان چاروں کے بارے میں جتنا آپ غور کرتے جائیں گے اتنا ہی یقین بڑھتا جائے گا کہ یہ چاروں کے چاروں گناہ محض حیا نہ ہونے پر کیے جاتے ہیں ۔جھوٹی تہمت لگائی جائے تو یہی فوری ردعمل ہوتا ہے۔۔۔،،تمہیں جھوٹی تہمت لگاتے ہوے شرم نہیں آئی ،،
اور یہ بھی جان لیں یہ حد صرف پاکباز معصوم اور بھولی بھالی عورتوں پر تہمت کی ہے ۔۔۔اسی کوڑے ۔۔قرآن مجید میں ان عورتوں کے لئے،،محصنات غافلات،،بھولی بھالی پاکباز عورتیں کہا گیا ہے کہ وہ حیادار ہوتی ہیں جبکہ ایک بازاری یا بدنام عورت اس سے محروم ہے ۔۔۔ کیوں؟؟؟ اس میں حیا جو نہیں ہے اسی طرح چوری ،یا اجتماعی خون خرابہ بھی اللہ کے خوف سے بے نیاز شخص ہی کرسکتا ہے !! حدیث مبارکہ میں ہے ،،حیا سوائے خیر کے کچھ نہیں لاتی ،،یعنی حیا نہ ہو تو برائی کا ارتکاب ہوتا ہے۔بات پھر وہی کہ برائی اور لفظ صرف سماعت کے لیے ہیں اپنی زندگیوں میں اس کا جائزہ نہیں لیتے کہ کون سے کام رب کو ناپسند ہوسکتے ہیں ۔بس وہی گناہ اور برائی کے زمرے میں آتے ہیں اسلام عورت اور مرد دونوں کے لئے حیا کو لازمی قرار دیتا ہے ۔حضرت عثمان کی حیا کے بارے میں آپ نے بارہا پڑھا ہے لیکن سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں الفاظ مبارکہ ہیں ،،آپ صلی اللہ علیہ وسلم کسی بھی کنواری دوشیزہ سے زیادہ حیا والے تھے،،
پھر سیرت کی کتب میں جب یہ پڑھتے ہیں کہ نبی اکرم صلعم نے کبھی کھانے میں نقص نہیں نکالا تھا بس آپ کے چہرہ مبارک سے پتہ چلتا تھا ،کا بنیادی محرک بھی حیا ہے ۔ ایک مسلمان عورت ہونے کے ناطے سب سے پہلے یہی اظہار تشکر کہ ہم مسلمان ہیں اسلام پر عمل پیرا ہونا ہمارے لیے دونوں جہانوں میں سرخرو ہونے کا باعث ہے ۔لیکن اسلام پر عمل پیرا ہونا محض نماز روزے کی پابندی نہیں بلکہ اس کے ساتھ حیا کی پاسداری ہے ۔۔اسی حیا کی حفاظت کے لیے رب العزت نے مسلمان عورت کو پردے کا پابند کیا پوری روئے زمین پر مسلمان عورت کی شناخت حجاب ہے یہ دوگز کپڑے کا نہیں رب کی خیر خواہی کا نام ہے ۔۔اس سے بڑا کیا اعزاز حاصل ہوسکتا ہے کہ رب نے اپنی تخلیق عورت کے لئے پردہ کرنا پسند کیا صرف پسند نہیں کیا جس سورہ میں پردہ کے احکامات نازل کیے اس کا آغاز ہی سورہ انزلنھا و فرضنھا ۔،،ہم نے اس سورہ کو نازل ہی نہیں کیا فرض بھی کردیا ۔گویا نماز روزے کی طرح پردہ کی فرضیت ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جو عمل رب العزت کا مقرب کرنے والا ہے ۔وہی ابلیس کا ہدف ہے ۔وہ نماز روزے سے مسلمانوں کو اتنا دور نہیں کرتا جتنا حیا اور حجاب پر عمل پیرا ہونے سے ۔
یہ آپ سب جانتے ہیں کہ ابلیس کی بات ماننے سے آدم و حوا بے پردہ ہی ہوئے تھے گویا جب بھی رب کے احکامات پر عمل نہیں ہوگا ۔عریانی و بے حیائی کی کوئی نہ کوئی صورت نکل آئے گی ۔
محرم نامحرم کی تفصیل،آواز کو حتی الامکان نارمل رکھنے کی کوشش،عورت کے لیے تیز خوشبو کی ممانعت بناو سنگھار کی صرف اپنے محرم کے لیے اجازت،اپنی چال کو غیر معمولی متوجہ کرنے کاعث بنانا اور گھروں میں داخل ہونے سے پہلے داخلے کی اجازت لینا ،اپنی حیا اور پاکدامنی کو قائم رکھنے کے لیے نظر کی حفاظت ۔یہ سب الہامی ہدایات ہیں ۔۔۔اور اس کے لیے باقاعدہ پریکٹس کرنا پڑتی ہے اللہ سے مدد مانگنا پڑتی ہے ۔۔بدنظری کی نحوست کا معلوم ہونا ضروری ہے۔۔۔ مگر افسوس صد افسوس اب تو دو انچ کی سکرین ہی بدنظری کی پہلی سیڑھی ہے ۔ماں باپ بچوں کو یہ موبائل فون کیا لے کے دیتے ہیں نظروں کی آزمائش کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے ۔ذہن منتشر ہوجاتے ہیں اور لذت گناہ کا ادراک ابتدائی عمر میں فراہم کر دیا جاتا ہے ۔فیس بک ہو یا ٹویٹر،ڈرامے ہوں یا فلمیں سب بے حیائی اور گندگی کا شاہکار۔بازار میں چپے چپے پر بل بورڈز ،پینا فیلیکس ،عریانی فحاشی کا منبع ۔یہ کوئی بھی نہیں سوچتا کہ جہاں تصویر ہو وہاں رحمت کے فرشتے داخل نہیں ہوتے ۔تو اب شہر ہو یا گاؤں۔کہاں امن ہے ؟؟؟ بازاروں میں سجی سجائی عورتیں بھاؤتاؤکرتے ہوے دس بیس روپے کم کروانے کے لیے دکانداروں سے بے تکلفی کا مظاہرہ کرتی ہیں ۔آنکھوں سے آنکھیں دوچار ہوتی ہیں ۔واقفیت کے حوالے دئیے جاتے ہیں اور نظر کو آلودہ کر لیا جاتا ہے۔
خدارا ۔۔۔اب بھی سنبھلیے ۔۔۔ہوش کے ناخن لیں اسلام میں حیا کا دارومدار جن باتوں پر رکھا گیا ہے ۔ان کا مطالعہ کیجئیے ۔کونفیڈینس (اعتماد)کے جھوٹے اور دلفریب لفظ کے دھوکے میں نہ آئیں ع۔ورت کبھی بھی مرد کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات نہیں کرتی اور مرد کبھی غیر عورت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات نہیں کر سکتا ۔۔آپ ملازمت کرتے ہیں یا نہیں آپ ہر جگہ اپنی شناخت بہادر مسلمان کی بنائیں جس کا ایمان ایک غیر محرم کی مسکراہٹ پر ڈانواڈول نہیں ہوتا ۔ان دعاؤں کو یاد کیجئیے جو اس حیا کے حصول میں مدد گار ہوسکتی ہیں ۔۔۔کہ حیا اسلام کی شاخوں میں سے ایک شاخ ہے ۔اگر تیرے اندر حیا نہیں تو جی چاہے کر ،،یعنی رب ذوالجلال نے اس سے اپنا معاملہ ختم کر لیااسے اس کے نفس کے سپرد کردیا اور جو نفس کا بندہ بن جائے پھر وہ ابلیس کے پسندیدہ بندوں میں شامل ہوجاتا ہے ۔اللہ امت مسلمہ کے ہر مرد و زن کو پہاڑوں جیسی مضبوطی والا ایمان عطا فرمائے ۔
یہ ایمان گھٹتا بڑھتا رہتا ہے نظر بازی بھی ہوسکتی ہے بشر ہونے کے ناطے ابلیس کے تیروں کا شکار بھی ہو سکتے ہیں لیکن رجوع الی اللہ معاملے کو درست کردیتا ہے ۔میڈیا کے اس پر فتن دور میں ہمیں حیا کی حفاظت کا خود بندوبست کرنا ہوگا بالخصوص شادی بیاہ یا خوشی کے مواقع پر جہاں بے پردگی اور اللہ کی ناراضگی کے زیادہ امکانات ہوتے ہیں ۔۔ہم ان مواقع کو ایک جشن کی صورت میں مناتے ہیں ۔یاد رکھئیے اسلام تو عید کے تہوار کو بھی باوقار انداز میں منانے کا حکم دیتا ہے کجا شادی میں ڈھول ڈھمکے ،آ تش بازی ،فوٹوگرافی ،گویا ہلڑبازی کا پورا سامان ہوتا ہے ۔
قرآن میں ہے،،اور اگر تم شکر کروگے تو اللہ تمہیں مزید عنایت کرے گا،،کی خوشخبری دیتا ہے اور شکر گزاری سجدوں میں ملتی ہے رب کی ناراضگی کا سامان فراہم کرکے نہیں جب من حیث القوم ہم ان سب تعلیمات کو بھول جاتے ہیں تو پھر رب بھی ہمیں بھول جاتا ہے جس کی چھوٹی سی مثال چودہ اگست کو ٹک ٹاکر لڑکی کا واقعہ تھا ۔۔۔آپ جو کچھ بھی کہیں کسی شخص کے متعلق بھی کبھی ایک رائے نہیں ہوسکتی ۔۔کیا اس کا لباس اسلامی ملک کی مسلمان عورت کی شناخت تھا ؟؟؟ کیا آپ کی نظر سے یہ حدیث نہیں گزری کہ،،جب عورت بالغ ہوجائے تو اس کے جسم کا کوئی حصہ نظر نہیں آنا چاہئےسوائے اس کے چہرے اور جوڑ تک کلائی کے ،،
ایک اور حدیث مبارکہ میں ان عورتوں پر لعنت بھیجی گئی ہے جو کپڑے پہن کر بھی عریاں رہتی ہیں !! یہ کون سی عورتیں ہوتی ہیں ؟؟ جن کے کپڑے تنگ باریک اور مائل کرنے والے ہوتے ہیں ،آ پ بتائیے کیا اس لڑکی کا لباس ایسا ہی نہیں تھا پھر وہ اپنے آپ کو قوم کی بیٹی قرار دے تو اس سے بڑی تہمت نہیں ہوسکتی ہم مسلمان قوم ہیں ۔
حجاب ہمارے عقیدے کا اظہار
۔حجاب ہمارے اس عقیدے کا اظہار ہے کہ ہم اپنے نبی کی امتی ہیں ۔۔کیا ہماری قوم میں تعلیم ،تحقیق ،یا کسی اور شعبے کے لیے کوئی مثال نہیں جو ہماری قوم اپنی نمائیندگی کے لیے ایک ایسی عورت کو منتخب کرے جسے یہ بھی علم نہ ہو کہ گھر سے باہر نکلتے ہوئے اسے کیسا لباس پہننا ہے؟
کس کے ساتھ باہر جانا ہے اسکی چال کیسی ہونی چاہیے ۔۔
خدارا اپنے تصورات بدلیں۔
۔ دین اور اس کے تقاضوں کو پورا کریں ۔۔۔دین سے غافل شخص آپ کی نمائیندگی کا کوئی لائق نہیں رکھتا ۔گزارش صرف اتنی ہے کہ میڈیا کی نظروں سے دیکھنا بند کریں اپنے کان کھلے رکھیں اپنے دشمنوں کے کاری وار سے باخبر رہیں جو آپ سے آپ کی شناخت ہی تو چھینتے ہیں ۔بس چادر ہی تو ہے ۔۔۔پردہ کوئی فرض تو نہیں ۔۔۔پردہ تو دل کا ہونا چاہئیے ،شرم تو انسان کی آنکھ میں ہوتی ہے جیسے فقرے صدیوں سےچلے آرہے ہیں اور تا قیامت چلتے آئیں گے۔۔۔اپ کو ہر لمحہ دین۔کی موجود نعمت پر عمل پیرا ہونا ہے زمانہ سادہ لوح کہ ہے یا پینڈو ۔۔۔۔بے نیاز ہوجائیے اس سے کہ کون۔کیا کہتا ہے جن کاساتھ روز حشر مانگتے ہیں ان کی حیا اور حجاب کو سامنے رکھیں ان شاءاللہ وہی آسانی بھی عطا فرمائے گا ۔۔۔علاج صرف ایک ہے حضرت جریر نے پوچھا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اگر اچانک نظر پڑجائے تو کیا کروں؟,, آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ،تم اپنی نظر پھیر لیا کرو ،،موبائل پر ہزار بےحیائی کے اسباب ہوں نظر پھیر لیا کریں گھر سے باہر کی دنیا بڑی دلفریب ہے دل مائل ہونے لگے تو نظر پھیر لیا کریں کیونکہ دوسری نظر کا گناہ شدید ہے۔
حضرت بریدہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی سے فرمایا،،اے علی ایک نظر کے بعد دوسری نظر مت ڈالوپہلی نظر معاف ہےمگر دوسری کی اجازت نہیں اسے شاعر نے بہت خوبصورت انداز میں پیش کیا۔
جلووں کے اژدہام میں لازم ہے احتیاط
سہو نظر معاف ہے قصد نظر حرام
اس حرام کام سے بچنے کے لیے اپنے آپ کو نیکیوں کی طرف راغب کرنے ،باپردہ رہنے کا دوسرا نسخہ بھی بہت آسان ہے ۔۔بے پردہ رہ کر میں گناہ کا ارتکاب کرتی ہوں لیکن دنیوی تسکین مل جاتی ہے جب کہ حیا اور حجاب میں میرے رب کی رضا اور پسنددیدگی ہے-
اور سب سے اہم بات یہ کہ ہم میں سے ہر شخص پریشان رہتا یے اس پریشانی کو ٹینشن کا نام دیا جاتا ہے جو بالآخر ڈپریشن تک لے جاتی ہے اور جب سے دنیا بنی ہے،وجود کے ساتھ کوئی نہ کوئی پریشانی لاحق رہتی ہے ۔ان پریشانیوں سے نکلنے کے لیے کاؤنسلنگ کرواتے ہیں۔ ادویات استعمال کرواتے ہیں روحانی علاج کرتے ہیں صدقہ خیرات کابھی اہتمام کیا جاتا ہے لیکن کوئی نہیں جانتا کہ ان سے نکلنے کا تیر بہدف نسخہ حیا ہے۔
جی وہ حدیث مبارکہ یاد کیجئیے جس میں بن اسرائیل کے تین لوگ طوفانی بارش کی وجہ سے غار میں پھنس گئے تھے اور غار کے منہ پر بھاری پتھرا ہوا آیا اور نے اس غار کا منہ بند کردیا تھا
یہ ان کی پریشانی کا وقت تھا۔
پتھر تینوں کی بھر پور طاقت کے باوجود نہیں ہلا۔
موت یقینی تھی تو کیا ہوا تھا
تینوں نے خالص رب کے لئے کی نیکی کو یاد کیا اس کو وسیلہ بنایا۔
ماں کی خاطر دودھ کا پیالہ لے کر کھڑے رہنے والے کی نیکی نے پتھر کو تھوڑا سا کھسکا۔
دوسرے نے چچا کے ساتھ نیکی کاواسطہ دیا۔
پھر پتھر نے کیسے مکمل طور پر کھسک کر ازخود راستہ دیا۔
مقدر کی لکھی پریشانی کیسے دور ہوئی ؟
اس شخص کی وہ نیکی جو غیر عورت کے ساتھ بدکاری کی قدرت کے باوجود اللہ سے حیا کرتے ہوئے پیچھے ہٹ گیا۔
اس کی اس نیکی کے واسطے نے مشکل کو بھی پیچھے دھکیل دیا۔
آج ہماری مشکلات کی وجہ یہی خدا سے خوف نہ ہونا ہے لیکن نکلنے کا راستہ ایک ہی ہے۔
حیا
اللہ سے
اس کے بندوں سے
حقوق و فرائض کی ادائیگی میں
اللہ ہم سب کو ان لوگوں میں شامل کرے آمین
Discover more from Press for Peace Publications
Subscribe to get the latest posts sent to your email.