ارم رحمان
مال روڈ کی پرہجوم سڑک پر فٹ پاتھ سے تھوڑا آگے کھڑی وہ عورت جو پچاس کے پیٹے میں لگ رہی تھی ،غازے سے چہرے کی جھریاں چھپانے کی ناکام کوشش میں مبتلا ہونٹوں پر لال سرخ لپسٹک تھوپے جیسے نجانے کتنوں کا کچا خون پی کر وہاں آن کھڑی ہوئی ہو اور خون ہونٹوں پر مل کر شاید یہ اعلان کرنا چاہتی ہو کہ ابھی اورخون پینے کی گنجائش ہے مجھ میں
سورج کی تپش جتنی بھی تیز ہو دسمبر میں لاہور کی سردی کم نہیں کرسکتی ایسے موسم میں موٹا چربی زدہ جسم بھی آنکھوں کو برا نہیں لگتا کیونکہ گرمی سے شرابور چربی کی بو ویسے ہی ناگوار گزرتی ہے
اس عورت کے جسم پر کسے کپڑے اس کے بدن کی ساخت چھپانے میں یکسر ناکام تھے یا شاید جسم ہی کپڑوں سے باہر نکلنے کو تیار رہتا تھا چھاتیوں کے ابھار بھی غیر معمولی اور جیسے ان کے درمیان بھی کچھ اڑس رکھاہو ،تھل تھل کرتا پیٹ ،اللہ جانے کتنی بار پھولاہو گا کئ بار کوئی جان جنی بھی ہوگی اور کئ بار شاید جنے بغیر ہی خالی ہو ہوگیا ہوگا کھانا جب بھی ملا ہوگا بد پرہیزی اور بے احتیاطی سے ٹھونسا گیاہوگا جس سے طاقت کم اور چربی کی دبیز تہیں جسم پر جم چکی تھیں
ڈھلتی عمر میں اب ساخت ہی ایسی بن گئ تھی کہ فاقہ بھی ہو تو رتی فرق نہ لگے
بھاری کولہوں پر سے چڑھی ہوئی قمیض پیچھے سے اٹھی ہوئی محسوس ہوتی تھی
خنک موسم کی ہلکی ہوا میں پھڑپھڑاتی نظر آتی تھی
آنکھیں بڑی مگر ویران ،متلاشی اور اداس ،آتے جاتے لوگوں کو دیکھتے ہوئے دعوت کا خاموش پیغام بھی دیتی ہوئی
بیسیوں ناخنوں پر لال رنگ کا پینٹ چمک رہا تھا ایڑیاں ویسی ہی تھیں جیسے گھریلو عورتوں کی جو سارادن دوڑ بھاگ کرتے ہوئے اپناخیال نہیں رکھتیں
وہ کافی دیر سے کھڑی تھی
سردی کی شدت بھی اس کے عزم کو ٹھنڈا نہیں کر پائی تھی
پھر یکا یک شاید اس کی سنی گئ ایک موٹر سائیکل اس کے بلکل پاس آکر رکی جس پر سوار دو ہٹے کٹے کالے بھدے مرد جن کے منہ میں سگریٹ اور پان دونوں ٹھنسے ہوئے تھے اور بولتے ہوئے لال تھوک ہوا میں اڑ رہا تھا ، اس سے بائیک پر بیٹھے بیٹھے سرگوشی کرنے لگے ،شاید شور کی زیادتی کی وجہ سے ان کا بولنا سرگوشی لگ رہا تھا، عورت کے چہرے کے تاثرات ایسے تھے کہ غیر محتاط کام میں بھی احتیاط اور خطرات بھانپنے کی کوشش میں سرگرداں تھی اسے بخوبی اندازا تھاکہ کچھ ہی دیر میں یہ تعفن زدہ وجود اس کے وجود کو ادھیڑ رہے ہوں گے اور نہ جانے ایک جگہ کی بجائے کتنی جگہوں پر اپنی غلاظت اس کے وجود میں انڈیلنے والے تھے ،اس کے ہونٹوں کی لالی ان پان زدہ پیک سے پھیکی پڑنے والی تھی پورابدن اسی تھوک سے لتھڑا جانا تھا، اس کے جسم کی بوٹی بوٹی کو چھینا جھپٹی کی اذیت سے دو چار ہوناہی تھا،
پھر آپس میں بھاؤ تاؤ ہوا
وہ غلاظت خریدنے کو تیار تھی، لیکن شاید یہاں بھی مرضی دوسرے فریق کی ہی چلی ہوگی،
اتنے میں ایک رکشہ بھی آموجود ہوا جو شاید عقب میں کھڑا اس خریداری کا منتظر تھا اس میں سوار دونوں مرد باہر نکلے تو چاروں مردوں نے آنکھوں ہی آنکھوں میں ایسے دیکھا جیسے شکار مناسب ہی تھا اور سستے داموں ہی پھنس گیا ، ان آنکھوں میں تیرتی ہوس نے یک لخت اس عورت کو بوکھلا دیا اور
اس نے دائیں بائیں دیکھاجیسے کہیں اس کا بھرم ٹوٹ نہ جائے جو شاید بنتا ہی نہیں تھا کہ اس کا کوئی جان پہچان والا اسے یوں دیکھ نہ لے یا شاید آخری لمحے میں کچھ ایسا معجزہ ہوجائے کہ اس درندگی کی بھینٹ چڑھنے سے روک لیا جائے
مگر وہاں کوئی نہیں تھا
آج بھی کوئی نہیں تھا
ان گدھوں سے آج رات کسی معصوم کو بچانے کی
ساری ذمہ داری اسکے نڈھال کندھوں پر تھی
معجزے سب کے لیے نہیں ہوتے
اسے رکشے میں بیٹھنا تھا
بھاری بھرکم جثے والی ،
کمزور دل ،
ڈری سہمی،
مضبوط نظر آنے کی اداکاری کرتے ہوئے ان دیو ہیکل مردوں کے اشارے پر رکشہ میں سوار ہونا تھا
رکشے کا دروازہ پورا کھل کر بھی اس کے چوڑے چکلے کولہوں سے کم تھا اندر سے کس نے کھینچا یا خود ہمت کی
وہ رکشے میں چھپ گئ مگر اس کا جسم کا بے جان تھرتھراتا چربی زدہ کولہا رکشے کے دروازے کو بند نہیں کرنے دے رہا تھا
دروازہ اس کے ہولے ہولے لرزتے ہوئے بدن سے ٹکراتارہا
رکشے کا سائلنسر دور تک کالا دھواں اڑاتا نظر آتا رہا
Discover more from Press for Peace Publications
Subscribe to get the latest posts sent to your email.