مبصر ۔ عبدالحفیظ شاہد۔ مخدوم پور پہوڑاں
انتہائی نفیس کاغذ ،عمدہ و دیدہ زیب پرنٹنگ ، شاندار ٹائیٹل اور128 بہترین صفحات پر مشتمل کتاب ” آئینے کے پار ” موصول ہوئی۔ کتاب آئینے کے پار پریس فار پیس جیسے معتبر ادارے سے اشاعت شدہ ہے۔ اس کی پبلشنگ اور پروف ریڈنگ کی جتنی تعریف کی جائے کم ہے۔گو کہ پیج بلیک اینڈ وائیٹ ہیں لیکن اس کی پرنٹنگ اتنی شاندار ہے دل خوش ہو جاتا ہے۔لیکن آج یقین آگیا کہ ادب کی فصل کو تروتازہ رکھنے والے لوگ بلاشبہ پریس فار پیس فاؤنڈیشن کے منتظمین جیسے ہوتے ہوں گے۔ جس کے لئے ادارہ اور خاص طور پر جناب ظفر اقبال صاحب بے شمار مبارک باد کے مستحق ہیں۔
ایک اچھی افسانوں کی کتاب کو دلچسپ کرداروں ، واضح آغاز، وسط اور شاندار اختتام کے ساتھ دلکش ہونا چاہیے۔ کہانی کو واقعات کی منطقی پیشرفت کے ساتھ اچھی طرح سے ترتیب دیا جانا چاہئے جو قاری کی دلچسپی کو برقرار رکھےاور قاری کو کہانی کی طرف کھینچے اور کرداروں کے ساتھ جذباتی تعلق پیدا کرے۔اچھے افسانے کی سب سے بڑی خوبی اس کا جذباتی اثر ہے۔ایک اچھی کتاب کا قاری پر جذباتی اثر ہونا چاہیے۔ چاہے یہ انہیں ہنسائے، رلائے یا حوصلہ افزائی کا احساس دلائے، کتاب کو اپنے قارئین پر دیرپا تاثر چھوڑنا چاہیے۔اور یہ ساری خوبیاں بلاشبہ اس کتاب میں موجود ہیں۔ان کے افسانوں پر مختصر تبصرہ پیشِ خدمت ہے۔
افسانہ نمبر 1۔ میری کشتی وہاں ڈوبی-
ہلکے پھلکے اور شستہ انداز میں انسان کی جبلت کو بیان کرتا ہوا بہترین افسانہ۔انسان ہمیشہ سے خوبصورت ، جوان اور لوگوں کی نگاہوں کا مرکز رہنا چاہتا ہے۔اور مصنفین شائد زیادہ خوابوں کی دنیا میں رہنا پسند کرتے ہیں۔ اسی تناظر میں موجودہ مصنفین کی عادات کا درست احاطہ کیا گیا اس افسانے میں۔لیکن مصنفین اگر اپنی تازہ تصویر ٹائیٹل پر لگائیں تو بھلا کون کتب خریدے گا؟۔
افسانہ نمبر 2۔ اعتبار کا موسم ۔
اعتبار انسانوں کی زندگیوں میں پایہ جانے والا سب سے خوبصورت جزبہ ہے۔ بلاشبہ اعتبار ، یقین اور بھروسہ بہت بڑی دولت ہے جس کے بغیر اس کائنات کا کوئی رشتہ نہیں چل سکتا۔ اگر مجبوری میں چل بھی جائے تو ساری ذندگی بے سکونی کی کیفیت میں گزر جاتی ہے۔اس کرہ ارض کی چمک دمک اس جذبے کی بنیاد پر قائم و دائم ہے۔دنیا کے خوبصورت ترین رشتوں میں سے ایک رشتہ میاں بیوی کا بھی ہے جب دو انسان نکاح جیسے مقدس بندھن میں بندھ جاتے ہیں تو ایک قسم کا عہد ہوتا ہے ہردکھ درد ۔خوشی غم میں ایک دوسرے کا مضبوط سہارا بنیں گے نہ کہ کسی ایک پر آزمائش۔اگر یہ رشتہ اعتبار پر استوار ہو تو بلاشبہ زندگی جنت بن جاتی ہے۔ اسی تناظر میں مہوش اسد شیخ کا یہ افسانہ بہت سبق آموز ہے۔
افسانہ نمبر 3۔ ذرا سوچئے گا۔
ایک معاشرتی اور دکھی کردینے والا افسانہ۔بہت خوبصورت افسانہ۔ کبھی کبھار اللہ وہاں سے بھی انسان کو راہِ ہدایت عطاء فرمادیتا ہے جہاں سے یقین ہی نہیں ہوتا۔انسان بعض اوقات اگر بھٹک بھی جائے تو اس کو احساس دلانے سے انسان جلد راہِ راست پہ آسکتا ہے۔انسانی دل اور ذہن زرخیز زمین ہوتے ہیں جہاں کسی وقت بھی خیر کی بات اثر کر سکتی ہے۔ چاہے نصیحت کرنے والی ایک طوائف ہی کیوں نہ ہو۔
افسانہ نمبر 4۔توبہ کے نفل” ایک حساس موضوع پر لکھا جانے والا بہترین افسانہ ہے۔انسان اکثر دوسروں کی ظاہری نمودو نمائش سے متاثر ہو جاتا ہے۔ کسی کی ظاہری نمود و نمائش سے متاثر ہونا بلا شبہ ایک خطرناک مرض ہے۔آج کل نمود و نمائش اور دکھاوا لوگوں کی زندگی کا محور بن چکا ہے۔ لوگوں نے اپنے مال واسباب انسانیت کی بہتری کے لیے مہیا کرنے کی بجائے لوگوں کی دل آزاری اور تخریب کاری کے لیے استعمال کرنا شروع کر دئیے ہیں۔ جس کے پاس بھی دولت ہو وہ اس کی نمائش ضروری سمجھتا ہے۔ حالانکہ نمود و نمائش انسان کی زندگی میں تباہکاریاں لاتی ہے۔ نمود و نمائش اور دکھاوا خمار کی طرح لوگوں کو چمٹ کر رہ گیا ہے۔ لوگ نمودو نمائش کی زندگی کو ترجیح دیتے ہیں۔اور ایسے لوگوں کے ملنے جلنے والے ان کی نمود و نمائش سے متاثر ہو کر اپنی زندگی کو جہنم بنانا شروع کردیتے ہیں۔ نمود و نمائش کے برے اثرات کا احاطہ کرتا ایک بہترین افسانہ۔ داد ہی داد
افسانہ نمبر 5۔ ناانصافی۔
اپنوں کا رویہ بھی بعض اوقات انسان کی زندگی کو اجیرن بنا دیتا ہے۔ایک بہت تکلیف دینے والا درد ناک افسانہ۔اس افسانے میں بتایا گیا ہے کہ ایک وقت آتا ہے کہ انسان برداشت کر کرکے اپنی حالت ہی خراب کر بیٹھتا ہے۔ نفسیاتی مسائل کو بیان کرتا ایک بہترین افسانہ۔
افسانہ نمبر 6۔آخری ورق ۔ یہ بھی خوب رہی کہ انسان کو آج سے نکل کر مستقبل میں بھی جھانکنا چاہیے۔بلاشبہ ساس بھی کبھی بہو ہی ہوتی ہے۔بہرحال انجام بہت شگفتہ رہا۔
افسانہ نمبر 7۔ چور رستہ
جو جس چیز میں بخل کرے گا قیامت کے دن وہی چیز اس کے گلے کا طوق بن جائے گی ۔جب انسان میں یہ سوچ آجاتی ہے کہ میرے پاس جو کچھ ہے وہ میری محنت یا قابلیت کا نتیجہ نہیں بلکہ اللہ کا احسان اور نعمت ہے تو پھر وہ اس نعمت کو صرف اپنا حق نہیں سمجھتا، وہ دوسروں کو بھی اس نعمت سے مستفید کرتا ہے، پھر اس میں غرور، تکبر اور بخل نہیں آتا۔ایک بہترین موضوع پر لکھا گیا جاندار افسانہ۔اگر اللہ نے آپ کو نوازا ہے تو اپنے قریبی لوگوں کو بھی نوازیے۔ اتنے بخیل نہ بنیں کہ انہیں کوئی چور راستہ اختیا کرنا پڑجائے
افسانہ نمبر 8۔ناولوں کی دنیا
حقیقت اور تخیل کی دنیا میں زمین آسمان کا فرق ہوتا ہے۔لڑکیاں بہت معصوم ہوتی ہیں ۔ کتابوں اور رسالوں سے اپنی زندگی میں آئیدیل تلاش کرنے والی لڑکیاں حقیقت کھلنے پر اکثر تہی دامن رہ جاتی ہیں۔
گو کہ خواب دیکھنا کوئی جرم نہیں لیکن اپنی زندگی کو ان سوچوں کی وجہ سے تباہ کرلینا کہاں کی عقلمندی ہے؟۔موجودہ زمانے کی روٹین کو بیان کرنے والے شاندار افسانہ۔ جو بلاشبہ آج کل کی خواتین کو راہِ راست دکھا سکتا ہے۔
افسانہ نمبر 9-آئینے کے پار
حاصلِ مطالعہ افسانہ۔ زندگی کی حقیقتیں بہت تلخ ہیں۔ جن کو برداشت کرنا بعض اوقات انسان کے بس کی بات نہیں ہوتی۔انسان لاکھ بہادر ہو لیکن یہ حقیقتیں انسان کو توڑ کر رکھ دیتی ہیں۔اور پھر انسان تخیل کی دنیا میں پہنچ کر اپنے غموں اور دکھوں کا مداوا کرنے کی کوشش کرتا ہے۔لیکن حقیقت تو حقیقت ہوتی ہے۔ اسے کب جھٹلایا جا سکا ہے۔
افسانہ نمبر 10-آئینے کے پار۔
بددعا سے زیادہ آہ سے ڈرنا چاہیے جو لوگ بددعا نہیں دیتے ان کی آہ عرش ہلا دیتی ہے۔ ہمیں ہر وقت خیال رکھنا چاہئے کہ دوسروں کے ساتھ ہمارا رویہ کیسا ہے ؟ اگر ہمارے رویئے سے دوسرا ادا س ہو جائے، سہم جائے بے عزتی محسوس کرے ۔ نظریں ملانے کے قابل نہ ہو یا ہماری فضول کی حرکات کی وجہ سے ہم سے ملنا بھی پسند نہ کرے ۔ اس کے دل سے کبھی بھی ہمارے لئے دعا نہیں نکل سکتی بلکہ بد دعا نکلے گی۔ اسی لیے ہمیشہ مظلوم کی آہ سے بچنا چاہیے۔ بہترین تخیل اور کہانی کے ساتھ لکھا گیا بہترین افسانے۔ اس افسانے پر مہوش اسد شیخ صاحبہ کو خصوصی مبارک باد۔
” افسانہ نمبر 11- دوسرا رخ
انسان بہت ناقص العقل ہے۔ اور اسی کم عقلی کی وجہ سے بدگمانی کا شکار ہوجاتا ہے۔ہمیشہ زندگی کو مکمل رخ کے ساتھ دیکھنا چاہیے۔ یک طرفہ رخ تو سرا سر زندگی کو اجیرن کردیتا ہے۔ اپنی زندگی کو بھی اور دوسروں کی بھی۔دوسروں کے لیے مثبت ہونا اور مثبت سوچنا شروع کریں ۔ زندگی پرسکون گزرے گی۔یہی اس افسانے کا بنیادی اور اہم مقصد ہے۔
” افسانہ نمبر 12- آخری سورج
آخری سورج بہت دکھی کردینے والا افسانہ ہے۔انسان کو زندگی کے گزرنے کا احساس ہی نہیں ہوتا۔ بہت بڑی بڑی پلاننگ کرتا ہے انسان اور پتا نہیں ہوتا کہ کب زندگی ختم ہو جائے۔گویا سامان سو برس کا پل کی خبر نہیں۔ کسی کا دل نہیں توڑنا چاہیے ۔ ورنہ آہ عرش تک پہنچ جاتی ہے۔اداس کردینے والا افسانہ
افسانہ نمبر 13۔ سونا آنگن
محرومی سرمائے کی ہو یا اولاد کی انسان کے لیے دکھ کا سبب بنتی ہے۔افسانے کی آخری لائینز بہت شاندار ہیں۔کیا کہنے بہت خوب۔مہوش اسد لکھتی ہیں”ضرورت و ہوس انسان سے اچھے برے کی تمیز چھین لیتی ہے۔انسان اشرف المخلوقات ہے، بوقتِ ضرورت بہت ہوشیاری سے ضمیر کو سلانا جانتا ہے”۔واہ کیا ہی خوبصورت لکھا۔ سلامت رہیں۔
افسانہ نمبر 14-” روز محشر ”
کیا ہی شاندار منظر کشی ہے۔ انسان اشرف المخلوقات ہے ۔ اسی لیے اس کے اندر خیرو شر کی جنگ ہمہ وقت جاری رہتی ہے۔ خوش قسمت ہیں وہ لوگ جن کو لکھنے کا فن عطا کیا گیا ہے۔ اور ان سے بھی زیادہ خوش بخت ہیں وہ لوگ جو اس قلم کی نعمت کو خیر کی باتوں کی ترویج کے لیے استعمال کرتے ہیں۔بہترین تحریر۔ مقصد کو متعین کرنے کی راہ دکھلاتی تحریر۔
افسانہ نمبر 15۔توکل
یہ اس کتاب کا آخری افسانہ ہے۔شکر، صبر اور توکل علی اللہ کی اہمیت و افادیت واضح کرتا خوبصورت افسانہ۔ابتدا سے انتہا تک مصنفہ کی مضبوط گرفت رہی ہے افسانے پر۔بلاشبہ ایک بہترین کتاب ہے۔
مہوش اسد شیخ کو ڈھیروں مبارک باد۔
آئینے کے پار کی صورت میں بہترین افسانے پڑھنے کو ملے۔فظرت کی نگہبانی، اصل سے جڑے رہنے کی تلقین، خوبصورت جملوں،جمالیاتی خوبصورتی کی عکاسی کرتی حقیقت سے قریب ترین سچائیوں کو آشکار کرتی کتاب ۔
Discover more from Press for Peace Publications
Subscribe to get the latest posts sent to your email.