You are currently viewing پروفیسرڈاکٹررفیق انجم ۔ شخصیت اور فن ۔ شاذیہ چودھری
پروفیسر ڈاکٹر رفیق انجم

پروفیسرڈاکٹررفیق انجم ۔ شخصیت اور فن ۔ شاذیہ چودھری

شاعر مشرق حضرت علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ کا قول ہے۔ کہ قوم اور معاشرہ ایک جسم کی طرح ہیں۔ اور شاعر اور ادیب اس قوم اور معاشرے کی آنکھ ہوتے ہیں۔

جسم کو اگر کوئی روگ لگ جائے ۔ تو آنسو درد بن کر آنکھوں سے ٹپکتے ہیں۔ یا ایسے بھی کہہ سکتے ہیں۔ کہ آنکھوں سے ٹپکتے آنسؤوں کو دیکھ کر جسم کے روگ کا اندازہ لگ جاتا ہے

اس لئے ہم کہہ سکتےہیں کہ ادیب اور شاعر قوم کی آنکھ ہیں۔ اور قوم کے درد کو اسکی آنکھیں ہی سمجھ سکتی ہیں۔ جس کو وہ حروف و الفاظ کے موتیوں میں پرو کر قوم کی تاریخ کا نام دیتے ہیں۔

کسی بھی قوم کے تشخص کے بارے میں اگر جاننا ہوتو اس قوم کی ادبی حیثیت کو جاننا ضروری ہوتا ہے۔

قوم کے شعور اور غرور کو جاننے کے لئے اس قوم کی ثقافت کی پہچان پہلی شرط ہوتی ہے۔

گجر قوم کی پہچان بھی اس قوم کا ادب ہے۔ اور ادب کو سامنے لانے والا ادیب ہے جو قوم کی ثقافت کو ادب گے ذریعے سامنے لاتا ہے۔ اور رہتی دنیا تک پہنچاتا ہے۔ گجر قوم اور گوجری زبان میں بھی لا تعداد ادیب ہیں جنہوں نے گجر تاریخ اور گجر سماج گے تمدن اور ثقافت کو ادب کے ذریعے زندہ رکھا ہے۔ اور گوجری تاریخ کا سنہرا باب رقم کیا ہے۔

ان گوجری ادیبوں میں ایک نام پروفیسرڈاکٹر رفیق انجم اوان صاحب کا بھی ہے / جنہوں نے گوجری ادب کی سنہری تاریخ کو رقم کر کے گجر قوم کی ادبی ثقافت کو بام عروج تک پہنچایا ہے۔ پروفیسرڈاکٹر رفیق انجم جو کہ پیشے سےماہر امراض براۓ اطفال ہیں۔ لیکن ادب سے اور خاص کر گوجری ادب سے گہرا شغف رکھتے ہیں۔

وہ سب سے پہلے 1993میں اپنی شاعری کی پہلی گوجری کتاب “دل دریا “کے ساتھ گوجری زبان کے آسما‌ن پہ تارا بن کے ابھرے۔ جس نے ریاستی سطح کا بیسٹ بک کا انعام جموں و کشمیر اکادمی براۓ فن و ثقافت اور لسانیات کی طرف سے حاصل کیا ۔ اور پھر انجم صاحب نے پیچھے مڑ کے نہیں دیکھا ، ایک سے بڑھ کے ایک تصنیف گوجری زبان کی گود میں ڈالتے چلے گئے۔

 ڈاکٹر رفیق انجم کی پیدائش اور تعلیم

پروفیسرڈاکٹر رفیق انجم صاحب نےیکم جنوری 1962 میں ضلع پونچھ کے گاؤں کلائی محلہ اوڈاریاں چودھری عبدلالکریم اوان کے گھر ایک گجر خاندان میں جنم لیا ۔ جس کا تعلق گجر قبیلے کی اوان گوت سے ہے۔

بنیادی تعلیم پونچھ اپنے گاؤں کلائی میں ہی حاصل کی۔ اور پھر میٹرک ہائ اسکول کلائ سے اور بارہویں جماعت گورنمنٹ ڈگری کالج پونچھ سے پاس کرنے کے بعدسال1985میں ایم بی بی ایسMBBS گورنمنٹ میڈیکل کالج جموں سے کیا۔ اور سال 1997میں ایم ڈی MD گورنمنٹ میڈیکل کالج سرینگر سے حاصل کی ۔

اس کے علاوہ انہوں نےسال 2002میں IGNOU سے سی آئ سی CIC کی ڈگری حاصل کی۔ سال2009 اور سال 2012میں مولا نا آزادنیشنل اردو یونیورسٹی سے ایم اے اردو اور ایم اے انگلش بھی کیااور دونوں میں نیٹ NET یعنی نیشنل الیجیبلیٹی ٹیسٹ بھی پاس کیے۔

ڈاکٹر اوان صاحب کو دین کے ساتھ بہت لگاؤ ہے وہ شروع سے ہی اسلامیات کا گہرا مطالعہ رکھتے ہیں ڈاکٹری جیسے مصروف پیشے میں آنے کے بعد بھی انہوں نے دین اسلام کی تعلیمات کا مطالعہ برقرار رکھا اور اسی انسیت اور لگاؤ کے پیش نظر انہوں نے سال 2010 میں
کشمیر یونیورسٹی سے اسلامی تعلیمات میں ماسٹر اور پھر ڈاکٹریٹ PHD کی ڈگری بھی حاصل کی ۔۔


پروفیسر ڈاکٹر رفیق انجم اوان صاحب گورنمنٹ میڈیکل کالج سرینگر میں بحیثیتِ رجسٹرار، طعینات رہے ہیں۔ اس کے علاوہ جموں کشمیر ہیلتھ سروسز میں مشیر ماہر اطفال کے عہدےپہ بھی فائز رہے ہیں ۔ اور پھر محکمے سے سبکدوشی لینے کے بعد آجکل بابا غلام شاہ بادشاہ یونیورسٹی راجوری کے اسکول آف اسلامک سٹڈیز اینڈ لینگویجز میں بحیثیت اسسٹنٹ پروفیسر کے عہدے پہ فائز ہیں۔

چونکہ انہیں شروع سے ہی پڑھنے اور پڑھانے کا شوق تھا۔ اور ان کی ہمیشہ یہ خوائیش تھی کہ انہوں نے جو علم حاصل کیا ہے۔ اسکو وہ بانٹیں اور یہ تبھی ممکن تھا جب وہ استاد کی حیثیت سے اس کار خیر کو اپناتے اپنے اسی مشن اور شوق کی وجہ سے ملازمت سے سبکدوشی کے کچھ ہی سال قبل انہوں نے ایم اے اسلامیات کیا۔ اور ڈاکٹریٹ کی ڈگری بھی حاصل کی۔ اور اب شعبہ تعلیم سے ہی وابستہ ہیں۔

ان کی اسی لگن اور کامیابی کو دیکھتے ہوۓ سال 2015 میں گوجری نصاب تیار کرنے کیلئے مدعو کیا گیا ۔ اور ڈپارٹمنٹ آف ٹرائیبل سٹڈیذ گوجری کی بنیاد سینٹرل یونیورسٹی آف ہماچل پردیش میں رکھی گئ۔

پروفیسر ڈاکٹر رفیق انجم اوان بحیثیت شاعر

پروفیسر ڈاکٹر رفیق انجم اعلٰی پایہ کے شاعر ہیں۔ ان گی شاعری میں رومان عشق اور افسانوی اشعار مشہور ہیں۔ خاص کر ان کی شاعری میں ان کی کہی ہوئی غزلیں اپنا اک الگ مقام رکھتی ہیں ۔ان کی غزلیں گوجری زبان و ادب میں انمول موتی ہیں ۔جن میں زندگی کی فلاسفی اور ان دیکھی لیلیٰ بھی ہے۔ جس کو مخاطب کر کے انجم صاحب نے بہت ساری رومانی غزلیں کہی ہیں۔

ان کی کچھ غزلیں بہت ہی زیادہ مشہور ہوئی ہیں ۔ اور گانے والوں نے بھی ان کے پروئے ہؤے الفاظ کے موتیوں کے ساتھ پورا پورا انصاف کیا ہے۔ ان کی کہی ہوئی دو غزلیں ہر ایک کی زبان پہ ہمیشہ رواں رہتی ہیں۔ اور ایک بار سننے کے بعد ہر کوئی گنگنانے پہ مجبور ہو جاتا ہے۔


تیں دلاں گا روگ لایا ہوں دعا لکھتو رہیو،
تیری بے دردی نانھ وی ہوں اپنی خطا لکھتو رہیو


یہ غزل اتنی مشہور ہو چکی ہے کہ گوجری سنگیت اور گوجری غزل گائیکی اس کے بغیر ادھورے لگتے ہیں۔

پروفیسرڈاکٹر رفیق انجم بحیثییت افسانہ نگار

پروفیسر ڈاکٹررفیق انجم صاحب گوجری افسانہ نگاری میں بھی جانے جاتے ہیں۔ ان کی گوجری کہانیاں گوجری ادب میں ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہیں۔ ان گی کہانیوں میں گجر سماج کی بھر پور عکاسی کی گئ ہے ۔ اور خانہ بدوشی کی ٹھوکروں اور سختیوں کو انہوں نے اپنی کہانیاں میں اول مقام دیا ہے۔ ان کی کہانیوں کے اہم کردار خانہ بدوش قبائلی پچھڑے ہؤے لوگ اور غریب ہیں ۔ جو حالات کا مقابلہ کر کے اپنی زندگی کے دن گزار رہے ہیں۔

ان کی کہانیوں کے اہم موضوعات میں زمین، زندگی محبت۔ اور رشتے رہے ہیں ۔ اس کے علاوہ ان کی کہانیوں میں ہمالیہ کی گودی میں پلنے والے لوگوں کی زندگی کی عکاسی بھی بھرپور طریقے سے کی گئ ہے۔

فکشن نگاری میں ان کی تین کتابیں آئی ہیں جنہوں نے اعزازات بھی حاصل کیے ہیں۔ “بنجارا۔زنبیل۔ اور “چٹی مٹی” نام کی یہ کتابیں اوان صاحب کی فکشن نگاری میں بہترین تخلیق ہیں۔

ڈاکٹر رفیق انجم بحیثیت مضمون نگار

پروفیسر ڈاکٹر رفیق انجم ایک شاعر ادیب اور کہانی کار ہونے کے ساتھ ساتھ ایک اچھے اور منجھے ہوۓ مضمون نگار بھی ہیں۔ انہوں نے بہت سارے مزاحیہ مضمون بھی گوجری میں لکھے ہیں۔

ان کے مضامین میں مزاح کے رنگ کے ساتھ ساتھ متانت اور بردباری بھی دیکھنے کوملتی ہے ان گی تحریروں میں فن بھی ہے اور احساس کمتری سے چھٹکارا بھی حاصل کرنے کی راہ بھی دکھتی ہے۔ وہ اپنے مضامین میں دوسرے لوگوں کے بجاۓ خود پہ بھی طنزو مزاح کے تیر چلاتے دکھتے ہیں آج تک ان کے مضامین اور مقالے بڑی تعداد میں منظرعام پہ آئےہیں۔

ڈاکٹر رفیق انجم بحیثیت لغت ساز

پروفئسر ڈاکٹر رفیق انجم اوان صاحب کا گوجری زبان کی ترویج و اشاعت میں بڑا اور اعلی کردار رہا ہے۔ اور اس کے لئے انہوں نےبہت زیادہ کام کیا ہے۔ ان کی کثیر الزبان ڈکشنریاں جو کہ گوجری زبان کو دوسری زبانوں کے ساتھ جوڑتی ہیں۔ جیسے کشمیری، انگلش اور اردو جیسی زبانوں کے ساتھ، لغت سازی میں ان کا رتبہ گوجری اسکالروں ماہرین تعلیم اور باقی سب لوگوں میں ان کے کام کی وجہ سے بلند ہے۔

وہ ایک ڈاکٹر ہونے کے ساتھ ساتھ گوجری ادیب، شاعر۔ اسکالر، مؤرخ اور ماہر تعلیم بھی ہیں۔ گوجری لغت سازی کے میدان میدان میں ان کا کوئی مقابلہ نہیں انہوں نے تین دو لسانی bilingual ، اور سہ لسانی trilingual ڈکشنری تیار کی ہیں جن میں ایک گوجری اور انگلش، ایک گوجری اور اردو اور ایک پہلی سہ لسانی multilingual ڈکشنری جو کہ گوجری ،کشمیری اور انگلش میں ہے۔

پروفیسر ڈاکٹر رفیق انجم بحیثیت محقق اور تاریخ دان


پروفیسرڈاکٹر رفیق انجم اوان صاحب نےگوجری زبان میں تحقیق اور تاریخ پہ بھی بہت کام کیا ہے۔ گوجری زبان میں بحیثیتِ محقق اور تاریخ دان رفیق انجم اوان ایک نام ہے انہوں نے گوجری ادب کی سنہری تاریخ لکھ کر گوجری ادب کو بہت زیادہ مضبوط کیا ہے ۔

“گوجری ادب کی سنہری تاریخ” سال 2000 میں انہوں نےسب سے پہلی گوجری زبان و ادب کی تاریخ لکھنی شروع کی۔ جو کہ اب تک دس جلدوں میں شایع ہوچکی ہے ڈاکٹر رفیق انجم نے گوجری گرائمر پہ بھی تحقیق کی ہے۔ اور “گوجری ادب میں گوجری گرائمر” کی بنیادی چیزوں پرایک اور کتاب لکھ کے گوجری ادب میں بڑھوتری کی ہے ۔

ان کی ایک اور تصنیف “لعلاں کا بنجارا “بھی گوجری ادب میں اک ذخیرہ ہے ۔ جس میں انہوں نے ہندو پاک کے ڈیڑھ سو سے زیادہ شاعروں اور ادیبوں کی مختصر سوانح حیات اور کلام کے نمونے شامل کئے ہیں۔ اس کے علاوہ ان کی ایک اور کتاب “مہارا اکھان مہاری پچھان” میں گوجری محاورے اور اکھان شامل ہیں ۔ ان کی کچھ اور تصانیف اسطرح ہیں۔ “گوجری کہاوت ریختہ گوجری حوالہ جات؛ انجم شناسی سوانح عمری
سجرا پھل اور پیہنگ” ۔

 ڈاکٹر رفیق انجم کو ادبی اعزازات و انعامات


پروفیسرڈاکٹر رفیق انجم اوان صاحب کے گوجری زبان و ادب میں بے مثال کام کیلئے سرکاری اور غیر سرکاری تنظیموں نے انعاماں اور اعزازات کیساتھ نوازا ہے ۔ جن میں اکیڈمی براۓ فن وثقافت اور لسانیات جموں کشمیر، دبستان ہمالیہ وغیرہ شامل ہیں۔

انہوں نے سال 1996 میں اکیڈمی براۓ فن ثقافت اور لسانیات کی طرف سے اپنی تصنیف “دل دریا کیلئے best book award حاصل کیا ،سال 2007 میں گوجری انگلش ڈکشنری کے لئے انعام حاصل کیا۔

سال 1999 میں ہمالین ایجوکیشن مشن راجوری کی طرف سے man of letters ایوارڈ کے ساتھ نوازا گیا، سال 2007 میں ریاستی سطح کے اکیڈمی ایوارڈ میں ایکسیلنس ا‌ِن لٹریچر کے اعزاز سے بھی نوازا گیا۔

اور سال 2017 میں ایوارڈ فار ایکسیلنس ان لٹریچر گجر ایمپلائیز ایسوسی ایشن کی طرف سے بھی دیا گیا۔ سال2018 میں احسان السبیل ٹرسٹ پونچھ کیطرف سے بھی ڈاکٹر اوان صاحب کو ان کی خدمات کے لئے اعزاز سے نوازا گیا۔۔


الغرض پروفیسر ڈاکٹر رفیق انجم اوان صاحب گوجری لسانی و ادبی تحریک کے مرد مجاہد ہیں۔ جو کہ گوجری زبان و ادب میں ہر فن مولا ہیں اوان صاحب ایک شاعر ادیب مصنف افسانہ نگار مقالہ نگار محقق تاریخ دان اور ماہر لغت ہیں۔

جنہوں نےگوجری ادب کو انمول موتیوں کا خزانہ اپنی تحریروں کی شکل میں دیا ہے۔ اوان صاحب شاعر محقق مؤرخ اور لغت ساز ہونے کے ساتھ ساتھ ایک حساس شخصیت بھی ہیں۔

پیشے سے ماہر اطفال ہونے کے باوجود ادب کیساتھ اتنا لاڈ، پیار، مہارت اور دلچسپی ہونا اس بات کی گواہی ہے کہ ان کہ اپنی قومی ثقافت تہذیب و تمدن اور زبان و ادب کےساتھ بے حد لگاؤ ہے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ پروفیسرڈاکٹر رفیق انجم اوان صاحب گجر قوم کی آنکھ ہیں۔ اور چونکہ انہوں نے گوجری ادب میں اتنا کام کیا ہے کہ جہاں بھی گجر قوم کا نام آۓ گا وہ اپنی ان ہی آنکھوں کیساتھ پہچانی جائے گی۔ اور ان آنکھوں میں پروفیسرڈاکٹر رفیق انجم اوان صاحب کا نام ہمیشہ اول درجے پہ رہے گا۔ ۔

بشکریہ # صداۓ کوہستان


Discover more from Press for Peace Publications

Subscribe to get the latest posts sent to your email.