مجید امجد ۲۹ جون ۱۹۱۴ کو جھنگ صدر (مگھیانہ) میں پیدا ہوئے۔ وہ ایک غریب اور شریف گھرانے سے تعلق رکھتے تھے۔ ابھی وہ دو برس کے تھے کہ جب ان کی والدہ اپنے شوہر سے الگ ہو کر میکے آ گئیں۔ امجد نے ابتدائی تعلیم اپنے نانا سے حاصل کی جن کا شمار جھنگ کے صوفیا میں ہوتا تھا۔ گھر سے ملحقہ مسجد میں انھوں نے چند سال قرآن، اسلامیات، فارسی، عربی اور طب وغیرہ کی تعلیم حاصل کی۔۱۹۳۰ میں میٹرک اور ۱۹۳۲ میں انٹرمیڈیٹ کے امتحان جھنگ میں دوسرے درجے میں پاس کیے اور پھر ۱۹۳۴میں اسلامیہ کالج (ریلوے روڈ) لاہور سے بی اے کی ڈگری بھی درجۂ دوم میں حاصل کی۔اس زمانے میں دنیا عظیم اقتصادی بحران کا شکار تھی اس لیے ملازمتیں عنقا تھیں۔ مجید امجد جھنگ میں ایک مقامی ہفت روزہ اخبار ’’عروج‘‘ سے بطور مدیر وابستہ ہو گئے۔ پھر کچھ عرصہ کلرک کی حیثیت سے بھی کام کیا۔ ۱۹۴۴ میں دوسری عالمی جنگ کے دوران حکومت نے سول سپلائز ڈیپارٹمنٹ قائم کیا۔ مجید امجد ٹیسٹ اور انٹرویو کے بعد منتخب ہوئے اور اسسٹنٹ انسپکٹر سول سپلائز کے عہدے پر فائز ہوئے۔ بعدازاں اس محکمے کو فوڈ ڈیپارٹمنٹ کہا جانے لگا۔ مجید امجد آہستہ آہستہ ترقی کرتے ہوئے اسسٹنٹ فوڈ کنٹرولر ہو گئے۔ انھوں نے بیشمار چھوٹے چھوٹے شہروں اور قصبوں میں کام کیا لیکن ملازمت کا زیادہ عرصہ منٹگمری (موجودہ ساہیوال) میں بسر ہوا۔ جہاں سے وہ ۲۸ جون ۱۹۷۲ کو اٹھائیس سال ملازمت کرنے کے بعد ریٹائر ہوئے۔
مجید امجد کی شادی ان کی مرضی کے خلاف ہوئی تھی۔ بیوی سے ان کے تعلقات عمر بھر ’’خنک‘‘ رہے۔ بیوی جھنگ کے ایک اسکول میں پڑھاتی تھی، امجد دوسرے مقامات پر ملازمت کرتے تھے اور شاذ و نادر ہی جھنگ جاتے تھے۔امجد بڑے وسیع المطالعہ تھے بالخصوص فارسی اور انگریزی شاعری پر انھیں عبور حاصل تھا۔ سائنسی علوم کے مطالعے سے بھی شغف تھا۔ بہت کم گو، شرمیلے اور تنہائی پسند تھے۔ اپنی ذات اور شاعری کے بارے میں گفتگو کرنا قطعاً پسند نہیں کرتے تھے۔ حقیقی معنوں میں ان کا کوئی دوست نہیں تھا۔ وہ ملنے جلنے والوں سے ’’ذاتی معاملات‘‘ پر کبھی گفتگو نہیں کرتے تھے۔ انتہائی دیانت دار اور خوددار تھے۔جوانی میں امجد خوش شکل تھے لیکن رفتہ رفتہ بیمار رہنے لگے اور بہت دبلے پتلے ہو گئے تھے۔ لمبا قد تھا اس لیے دبلاپے نے حسن صورت میں کمی کردی تھی۔ ریٹائرمنٹ کے بعد پنشن بہت دیر سے ملی اس لیے نوبت فاقہ کشی تک جا پہنچی۔ اسی عالم میں ۱۱ مئی ۱۹۷۴ کے روز اپنے کوارٹر واقع فرید ٹاؤن ساہیوال میں مردہ پائے گئے۔ تدفین اگلے روز جھنگ میں ہوئی۔ لوحِ مزار پر انھی کا یہ شعر کندہ ہے:
کٹی ہے عمر بہاروں کے سوگ میں امجد
مری لحد پہ کھلیں جاوداں گلاب کے پھول
سخن سرا
Discover more from Press for Peace Publications
Subscribe to get the latest posts sent to your email.
You must be logged in to post a comment.