You are currently viewing طیف عکس میں شامل فاطمہ اعجاز کے افسانے/تبصرہ نگار: خالدہ پروین

طیف عکس میں شامل فاطمہ اعجاز کے افسانے/تبصرہ نگار: خالدہ پروین

،مبصرہ ۔۔۔۔اسسٹنٹ پروفیسر خالدہ پروین

ناول نگارفاطمہ اعجاز اپنے  مخصوص نفسیاتی اور معاشرتی تجزیاتی انداز کی بنا پر انفرادیت کی حامل ہیں ۔ہلکے پھلکے ،شوخ وشرارتی انداز میں بڑی سے بڑی بات بیان کر دینا فاطمہ کی خوبی ہے ۔ان کے ناول :

“وہی زاویے جو کہ عام تھے”

 “عشق خاک نہ کر دے”

 “خوابوں کی شہزادی”

منفرد موضوع ، دھیمی لے اور منفرد انداز بیان کی بنا پر سوشل میڈیا پر پزیرائی حاصل کر چُکے ہیں۔

                      ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

طیفِ عکس میں بامطابق عکوس چھے کہانیاں بعنوان

“ناکام” ، “مردود” ، “پاگل” ، “فصلِ خزاں” ، “امید” اور “میرا کوزہ گر” موجود ہیں ۔

تمام کہانیاں مختلف نفسیاتی الجھنوں اور گتھیوں کی طرف عمدہ اور متاثر کن اشارے ہیں۔

ناکام

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

دورانِ تعلیم ایک نرس سے محبت کے وعدے کرنے والا نوجوان ڈاکٹر بننے کے بعد والدین کے جبر،معاشرتی تفریق کے خوف اور روشن مستقبل کی خاطر محبت میں بد عہدی کرتے ہوئے باہر کے ملک میں سپیشلائزیشن کے لیے چلا جاتا ہے۔پیشہ ورانہ کامیابی تو حاصل ہو جاتی ہے لیکن دل میں موجود محبت کی کسک اور دل و دماغ کی کشمکش اسے ذہنی مریض بنا دیتی ہے ۔جس کی بنا پر اس کی کامیابی ناکامی میں تبدیل ہو جاتی ہے ۔

کہانی عکس سے 100 فیصد مطابقت رکھنے کے علاوہ منفرد اسلوب اور تکنیکی اعتبار سے انتہائی مؤثر اور قابلِ تعریف ہے ۔ معاشرتی اور اخلاقی مسئلے اور اس سے پیدا ہونے والی نفسیاتی الجھن کو کہانی کا روپ عطا کرتے ہوئے بڑی عمدگی سے پیش کیا گیا ہے ۔

مردود

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حسن پر بے جا ناز اور فخر کی بنا پر خود پسندی کا شکار لڑکی جو شوہر اور بچوں سمیت سسرال میں سے کسی کو خاطر میں نہیں لاتی لیکن جب بڑھاپا اور حسن کو زوال آتا ہے تو ہر رشتے کی طرف سے مکافاتِ عمل کا سامنا وجود کو آئینے کی طرح کرچی کرچی کر جاتا یے۔

بہت خوبصورت تکنیک کے ذریعے معاشرے کی ایک اہم خانگی، اخلاقی اور نفسیاتی برائی اور اس کے ہولناک نتائج کو کہانی کی صورت میں پیش کیا گیا ہے ۔

پاگل

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 سوشل سرکل میں شہرت رکھنے والی مائیں جن کی اولاد والدین کی عدم توجہی اور ملازماؤں کے رحم و کرم پر پرورش پاتے ہوئے عدمِ تحفظ کا شکار ہونے کی بنا پر مختلف نفسیاتی مسائل کا شکار ہو جاتی ہے ۔ تنہائی اورعدم تحفظ کا یہ احساس بچوں کو نارمل زندگی سے دور لے جاتے ہوئے معاشرے میں پاگل قرار دے دیتا ہے ۔جیسا کہ “مبصر “جو اسکیلپل کو آئس کریم کہتا ہے اور اس کے ذریعے باپ کے لمس کو محسوس کرتا ہے ۔

اپر کلاس معاشرے کی ایک تلخ حقیقت کو بہت عمدگی سے کہانی کی صورت میں پیش کیا گیا ہے ۔

اندازِ بیان مؤثر قابلِ تعریف ہے ۔

 فصلِ خزاں

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ایک فوجی افسر سالار کی داستان  جو عروج ،کامیابی اور اقتدار کے نشے میں سرشار ہو کر اپنے خونی رشتوں کو بھی نظر انداز کر دیتا ہے ۔یہاں تک کہ والدین کی وفات بھی اس کو واپس نہیں بلا سکتی لیکن جب عروج کی بہار کا خاتمہ ہوتا ہے تو ماڈرن دنیا کی تخلیق اولڈ ہوم اس کا مقدر ٹھہرتا ہے۔ پھر سوچ اور یادوں پر زوال آتا ہے لیکن سوائے اپنوں کی آمد کے انتظار کے اس کے پاس کچھ نہیں ہوتا ۔

سالار سے سلو بننے کی داستان کے ذریعے مصنفہ نے عکس کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے بڑی عمدگی سے ایک تلخ حقیقت اور المیے کی عکاسی کرتے ہوئے قاری کو جائزے اور احتساب پر مجبور کر دیا ہے ۔

فلسفیانہ اور ادبی اندازِ بیان کے لیے ڈھیروں داد و ستائش ۔

امید

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

نعمان کے کردار کے ذریعے موجودہ دور میں نوجوان نسل کی اپنے ہدف کو حاصل کرنے کی جنونی خواہش اور والدین کے دباؤ اور مسلسل ناکامی سے پیدا ہونے والے قنوطی انداز کی عمدہ عکاسی کی گئی ہے ۔عمر کا کردار رجائیت ( امید) کی علامت کے طور پر سامنے آیا ہے جو مسلسل ناکامیوں سے مایوس ہونے کے بجائے نئے اہداف کے تعین کے ذریعے روشنی ،امید اور کامیابی کا درس دیتا نظر آتا ہے۔

ایسی تحریر موجودہ دور کی اہم ضرورت ہے جو نوجوانوں کو نئی راہوں اور کامیابی کا پیغام دے۔

بند تالے میں سے نکلتے ہوئے پودے کے عکس سے تخلیق کی جانے والی عمدہ کہانی کے لیے ڈھیروں داد و ستائش ۔

میرا کوزہ گر

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

“میرا کوزہ گر” غریب لیکن محنتی والدین کی محنت اور امید کی سیڑھی پر قدم رکھ کر عروج و کامیابی کی حدوں کو چھونے والی بد قسمت اولاد (حارث) کی کہانی ہے۔ جو کامیابی کے بعد نا صرف والد اور اس کی قربانیوں کو نظر انداز کر دیتا ہے بلکہ نفسیاتی الجھن کا شکار  ہونے کی بنا پر والد کو اپنانے سے بھی انکار کر دیتا ہے اور یہ بھول جاتا ہے کہ یہ چمک دمک اور خوب صورتی  کوزہ گر والد ہی کی بدولت ہے۔پے در پے زوال اور ناکامیاں حقیقت کا ادراک تو کروا دیتی ہیں لیکن کفرانِ نعمت کا ازالہ ممکن نہیں ۔

موزوں عنوان ،عمدہ تخلیقی کاوش اور  مؤثر اسلوبِ بیان کے لیے ڈھیروں داد و ستائش ۔

اللہ تعالیٰ مصنفہ کی تخلیقی صلاحیتوں کو جلا بخشتے ہوئے مزید کامیابیاں عطا فرمائے۔


Discover more from Press for Peace Publications

Subscribe to get the latest posts sent to your email.