تحریر: نصرت نسیم
یوں تو گھر میں کئ اخبار آتے۔روزنامہ کوہستان، انجام، شہباز، حریت کراچی اور روزنامہ جنگ پڑھنے کو تو ہم سارے اخبار پڑھتے مگر روزنامہ حریت اور جنگ ہمارے پسندیدہ تھے۔ حریت کراچی شام کو آتا۔فخر ماترے اس کے ایڈیٹر تھے ۔اور یہ بہت عمدہ اور معیاری اخبار تھا۔دوسرا روزنامہ جنگ راولپنڈی ،۔کہ اس کے بچوں کاصفحہ، بہنوں کی محفل ہمیں خاص طور پر پسند تھی۔بچوں کے صفحے کے انچارج مضطر اکبر آبادی تھے۔اور ان کا کیا کڑا معیار تھا۔کہ مشکل سے اور طویل انتظار کے بعد کوئی کہانی چھپنے کی نوبت آتی ۔بچوں کے صفحے کے بعد” بہنوں کی محفل “میں بھی شریک ہوگئے۔اس صفحے کی انچارج رباب عائشہ تھیں۔پسندیدہ اشعار، خطوط کے جواب، فیچر، انٹرویو اور بہت عمدہ مضامین پڑھنے کو ملتے۔بہت خوبصورت باتصویر یہ صفحہ ہمیں خاص طور پر پسند تھا ۔رباب عائشہ ہماری باجی تھی۔برسوں ان سے جذباتی وابستگی رہی۔
پھر وقت نے زقند بھری۔ہم بھی زندگی میں آگے بڑھ گئے۔رباب عائشہ نے بھی جنگ کو خیرباد کہا۔اخبارات کے انداز، معیار اور ترجیحات بدل گئیں۔
اخبار، رسالے ہمیں سینت سینت کر رکھنے کی عادت ہے۔بہت کچھ تو وقت اور حالات کے ہاتھوں تلف ہو گیا۔مگر بچوں کاصفحہ اور بہنوں کی محفل کا کچھ زخیرہ آج بھی موجود ہے۔کچھ عرصہ پیشتر صفحہ دیکھتے ہوئے رباب عائشہ کو یاد کیاکہ جانے کہاں ہوں گی۔
پھر گزشتہ سال رخ کتاب کی وساطت سے ان سے رابطہ ہوا۔فون پر بات کرکے خوشی ہوئی۔پھر ان سے طویل گفتگو ہونے لگی۔ان دنوں وہ کچھ پریشان یا ڈپریشن میں تھیں۔صحت کے مسائل تھے۔بینائی کی کمزوری کی وجہ سے بھی لکھنا مشکل تھا۔مگر ان سب مسائل کے باوجود ہمت جوان تھی۔وہ کچھ لکھنا چاہتی تھیں۔نصف صدی سے زیادہ صحافتی زندگی اور لکھنے پڑھنے والی رباب عائشہ کیسے لکھنے پڑھنے سے دور رہ سکتی تھیں۔میں نے انہیں اپنی یادداشتیں لکھنے کا مشورہ دیا۔اپنی خود نوشت بھجوائی۔ان کی گفتگوسن کر سوچتی کہ کیا کروں؟کیا گیا جاسکتا ہے۔
مگر مسئلہ یہ تھا۔کہ چند روز بعد بیٹی کے پاس دوبئی اور عمرے پر جارہی تھی۔
سوچتے ہوئے ایک دم سے جیسے روشنی کاجھپاکا ساہوا۔ظفر اقبال صاحب بردار مکرم!ہاں یہ ٹھیک رہے گا۔
میں نے ان کے مکمل تعارف، تعریفوں اور کارگزاری کو تفصیل سے بردار مکرم کے گوش گزار کیا۔انہوں نے وعدہ کیا کہ وہ بات کریں گے۔اور ان کی کتابوں کے سلسلے میں مکمل تعاون کریں گے۔مجھے خوشی ہوئی کہ میرے مان کو انہوں نے ٹوٹنے نہیں دیا۔میری توقع سے زیادہ گرم جوشی دکھائی اور رباب عائشہ کے ساتھ رابطے میں رہے۔دوسری طرف رباب عائشہ کوبھی پریس فار پیس فا ؤنڈیشن یوکے کے ڈائریکٹر ظفر اقبال صاحب کے بارے میں تفصیل سے بتایا کہ آپ آنکھیں بند کرکے اعتماد کر سکتی ہیں۔وہ کتابوں سے محبت کرتے اور محبت سے چھاپتے ہیں۔پھر میں دوبئی سے واپس آئی۔تو کتاب طباعت کے مراحل میں تھی۔تبصرے کی وجہ سے کتاب کے آنے میں کچھ تاخیر ہوئی۔اور اب چند ماہ پیشتر خوب صورت سرورق اور” سدا بہار چہرے “کے عنوان کے ساتھ کتاب زیور طباعت سے آراستہ ہوئی۔
یوں تو پریس فار پیس فاؤنڈیشن سے ہمارا تعلق ایسا ہےکہ جیسے یہ میرا اپنا ادارہ ہو۔اس ادارے کےتحت چھپنے والی کتابیں مجھے تواتر کے ساتھ موصول ہوتی رہتی ہیں۔مگر مجھے خوشی ہے کہ یہ کتاب مجھے رباب عائشہ نے بہت محبت سے بھیجی ہے۔اور جتنی محبت سے بھیجی گی ہے۔اس سے کئ گنا زیادہ خوشی ومسرت مجھے یہ کتاب پاکر ہوئی۔کہ” سدا بہار چہرے “کے لانے میں میری تمنائیں اور دعائیں بھی شامل تھیں۔
مجھے مزید خوشی اس بات کی ہے کہ ان کے افسانوں کا مجموعہ بھی زیر طباعت ہے۔اور کل ہی وہ مجھے بتا رہی تھیں۔کہ انہوں نے اپنی یادداشتیں لکھنا شروع کر دی ہیں۔اپنی پیرانہ سالی اور طبی مسائل کے باوجود ان کی ہمت، حوصلہ، مثبت رویہ اور معاشرے کو کچھ دینے کاعزم جواں مجھے بھی ہمت اور عزم جواں دے گیا۔
رباب عائشہ جی سلامت رہیں۔لکھتی رہیں۔ مبارک ہو پریس فار پیس فاؤنڈیشن یوکے کے ڈائریکٹر ظفر اقبال صاحب کو کہ وہ صرف کتابیں نہیں چھاپتے۔مایوسی کے اندھیروں سے نکالتے ،اجالے تقسیم کرتے اور محبت کاشت کرتے ہیں۔”سدا بہار چہرے “کے لئے میں ان کی ممنون ہوں۔سلامت رہیں۔
Discover more from Press for Peace Publications
Subscribe to get the latest posts sent to your email.