Monday, April 29
Shadow

Tag: اردو ادب

رباب عائشہ  کی تصنیف ” سدا بہار چہرے” پر نصرت نسیم کی تاثراتی تحریر

رباب عائشہ  کی تصنیف ” سدا بہار چہرے” پر نصرت نسیم کی تاثراتی تحریر

تبصرے
تحریر: نصرت نسیمیوں تو گھر میں کئ اخبار آتے۔روزنامہ کوہستان، انجام، شہباز، حریت کراچی اور روزنامہ جنگ پڑھنے کو تو ہم سارے اخبار پڑھتے مگر  روزنامہ حریت اور جنگ ہمارے پسندیدہ تھے۔ حریت کراچی شام کو آتا۔فخر ماترے اس کے ایڈیٹر تھے ۔اور یہ بہت عمدہ اور معیاری اخبار تھا۔دوسرا روزنامہ جنگ راولپنڈی ،۔کہ اس کے بچوں کاصفحہ، بہنوں کی محفل ہمیں خاص طور پر پسند تھی۔بچوں کے صفحے کے انچارج مضطر اکبر آبادی تھے۔اور ان کا کیا کڑا معیار تھا۔کہ مشکل سے اور طویل انتظار کے بعد کوئی کہانی چھپنے کی نوبت آتی ۔بچوں کے صفحے کے بعد" بہنوں کی محفل "میں بھی شریک ہوگئے۔اس صفحے کی انچارج رباب عائشہ تھیں۔پسندیدہ اشعار، خطوط کے جواب، فیچر، انٹرویو اور بہت عمدہ مضامین پڑھنے کو ملتے۔بہت خوبصورت باتصویر یہ صفحہ ہمیں خاص طور پر پسند تھا ۔رباب عائشہ ہماری باجی تھی۔برسوں ان سے جذباتی وابستگی رہی۔پھر وقت نے زقند بھری۔ہم بھ...
اجرت کا ثواب /مطربہ شیخ

اجرت کا ثواب /مطربہ شیخ

کہانی
کہانی کار: مطربہ شیخاسکول میں پارٹی تھی، سب بچوں نے دل بھر کر انجوائے کیا تھا اور دل بھر کر ہی گتے کے گلاس اور پلیٹیں، کھانے پینے کی بچی کچھی اشیاء چھ سو گز کے بنگلے میں بنائے گئے اسکول کے بڑے سے احاطے میں پھیلائی تھیں۔ثمینہ صفائی کرتے کرتے بے حال ہو گئ، وہ اکیلی ہی اس اسکول کی صفائی پر مامور تھی۔ایک دوسری ملازمہ بھی تھی لیکن وہ اسکول کے بچوں کے ساتھ دن بھر دوسرے امور میں مشغول رہتی، اسکول ختم ہونے بعد صفائی ثمینہ کے ذمے تھی۔ ثمینہ نے متعدد بار اسکول کی مالکن  پرنسپل کو کہا کہ دوسری ملازمہ بھی رکھ لیں۔ لیکن مالکن نے ہمیشہ یہ کہہ دیا، دیکھو ثمینہ چھوٹا سا پرائمری اسکول ہے، ہم چار سو سے زیادہ طلباء کو داخلہ نہیں دیتے۔صرف چند کلاس رومز ہی تو ہیں جن کی صفائی تم کو کرنا پڑتی ہے۔ثمینہ پرنسپل کو اسکا کمرہ، اسٹاف روم، کامن روم، دروازے کھڑکیوں کی جھاڑ پونچھ اور گراونڈ گنواتی تو پرنسپل کہ...
مہوش اسدشیخ  کے  افسانوی مجموعے ” آئینے کے پار” پر اریبہ عائش کا تبصرہ

مہوش اسدشیخ  کے  افسانوی مجموعے ” آئینے کے پار” پر اریبہ عائش کا تبصرہ

تبصرے
تبصرہ نگار: اریبہ عائشمجھے کتاب خریدنے پر اس کے سرورق نے مجبور کیا۔ افسانوی مجموعہ پر اس سے پہلے کبھی ایسا سرورق نہیں دیکھا تھا۔ انوکھی سی منفرد سی نظر آنے والی چیزیں مجھے ہمیشہ ہی بہت پسند رہی ہیں۔ سرورق کو دیکھتے ہوئے میں نے سب سے پہلے سرورق کہانی پڑھنے کا ارادہ کیا۔ شروعات سے ایسا ہی لگا کہ وہی عام سی کہانی ہے لیکن کہانی کا اختتام کمال است، واقعی یہ ہر اس گھر کی کہانی ہے جہاں بن بیاہی، بڑھتی عمر کی لڑکی موجود ہے ۔ ایسی ہر لڑکی آئینے کے پار اک شہر بسائے بیٹھی تبھی تو جی رہی ہے۔ سرورق افسانوی مجموعہ سے میل کھائے نہ کھائے مگر کہانی کے عین مطابق ہے۔ جب جب میری نگاہ سرورق پر پڑتی ہے اس لڑکی کا کرب یاد آ جاتا ہے۔ اللہ پاک ہر لڑکی کا نصیب اچھا کرے آمین ۔پہلی تحریر "میری کشتی ڈوبی وہاں "۔۔۔ ایک شگفتہ تحریر ہے لیکن اک بہت اہم نکتے کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ یہ مصنف لوگ اپنی کتابوں پر جوانی کی تصا...
سفر اور کتاب ۔ تبصرہ نگار: ادیبہ انور یونان

سفر اور کتاب ۔ تبصرہ نگار: ادیبہ انور یونان

تبصرے
تبصرہ: ادیبہ انور یونانکتاب : بیتے ہوئے کچھ دن ایسے ہیںلکھاری: نصرت نسیماشاعتی ادارہ: پریس فار پیس یو کےیورپ سے پاکستان کا سفر ہمیشہ طویل ہوتا ہے اور اس میں فلائٹ تبدیل کا انتظار لازمی ہوتا ہے۔  ایسے میں اگر بچے ساتھ سفر نہ کر رہے ہوں۔ تو کتاب کا ساتھ بہترین رہتا ہے۔والد صاحب کی خرابی طبعیت کی وجہ سے عجلت میں پاکستان کے لیے نکلی تو پریشانی میں کتاب ساتھ لینے کا خیال نہ آیا۔دو ہفتے کا یہ سفر مسلسل ہسپتال میں گزرا۔ دن رات ابو جی کے پاس ٹھہرنا تھا۔ تو نصرت نسیم صاحبہ کی کتاب ” بیتے ہوئے کچھ دن ایسے ہیں“  امی سے کہہ کر گھر سے منگوا لی۔یہ وہ کتاب ہے جو پہلے یو کے سے یونان پارسل ہوئی ۔ مگر مجھے موصول نہ  ہو  سکی۔پھر پاکستان والے گھر میں ادارے کی طرف سے ارسال کی گئی۔ لیکن جب پاکستان سے یونان کتابیں منگوائیں۔ تو یہ کتاب پھر بھی یونان نہ پہنچ سکی۔اللہ رب العالمین کے اپنے منصوبے ہوتے ہیں۔ اور حکمتی...
انگبین عُروج، کالم نگار، تبصرہ نگار۔ کراچی

انگبین عُروج، کالم نگار، تبصرہ نگار۔ کراچی

رائٹرز
میرا نام انگبین عُروج ہے۔میرا تعلق پاکستان کے روشنیوں کے شہر "کراچی" سے ہے۔شعبہ بائیوٹیکنالوجی میں جامعہ کراچی سے ماسٹر کیا ہے۔لکھنے کا شوق اسکول کے زمانے سے رہا،اسکول کی اُردو ادب کے فروغ و ترویج کے لئے بے لوث کاوشوں کی بدولت لکھنے کی جہت پیدا ہوئی۔لیکن علمی مصروفیات کے باعث شوق کو قلم کی زبان عطا نہیں کر پائی۔باقاعدہ لکھنا دو سال سے شروع کیا۔فی الوقت ایک اخبار میں بطور کالم نگار سماجی و معاشرتی مسائل پر کالم لکھتی ہوں۔سوشل میڈیا پر علمی و ادبی گروپس پر منعقدہ تحریری مقابلوں میں حِصّہ لیا اور بیشتر مقابلہ جات میں اعزازی سند اور انعامات وصول کئے ہیں۔معاشرتی و سماجی موضوعات پر قلم اُٹھانا اوّلین ترجیح ہے۔عموماً لکھاری انہیں موضوعات پر طبع آزمائی کرتا ہے جو اُسکے دل کے قریب ہوں اور اُسکے اندر شعور و آگہی و حساسیت کے نئے دَر وا کرتے ہوں۔فی زمانہ معاشرے کے نازک اور توجّہ طلب پہلوؤں کو اُجاگر ...
مہوش اسد شیخ، افسانہ و کہانی نگار، مصنفہ، فیصل آباد(پاکستان)

مہوش اسد شیخ، افسانہ و کہانی نگار، مصنفہ، فیصل آباد(پاکستان)

رائٹرز
مہوش اسد شیخ ایک  معروف قلم کار ہیں   جن کی پہچان افسانہ نگاری اور کہانی نگاری ہے۔ وہ اوائل عمری سے ہی کہانیاں اور دوسری تحریریں لکھتی رہی ہیں۔وہ  فیس بک پر مشی خان نے  نام سے  تحریریں لکھتی رہی ہیں جن کو بے پناہ پزیرائی ملی۔اس کے بعد ملکی  رسائل اور جرائد میں لکھنے کا سلسلہ اپنے اصل نام سے شروع کیا۔  ان کے افسانے اور کہانیا ں معروف ڈائجسٹ ”آنچل“،’’حجاب“،”حنا“اور”ردا“ میں شائع ہو چکے ہیں۔ ان کی زیادہ  تخلیقات  معاشرتی اور سماجی موضوعات پر   ہوتی ہیں۔ مہوش اسد شیخ کی تصانیف پروفیسر بونگسٹائن  (بچوں کے لیے دلچسپ کہانیوں کا مجموعہ) اگست 2022،   مہرالنساء(معاشرتی کہانیاں) دسمبر 2022 آئینے کے پار  (افسانے )  مارچ  2023 ترا عشق بہاروں سا (ناول) اکتوبر 2023 ...
جدید دور میں ادیب کا کردار۔ از قلم : عصمت اسامہ ۔

جدید دور میں ادیب کا کردار۔ از قلم : عصمت اسامہ ۔

آرٹیکل
از قلم : عصمت اسامہ ۔ علامہ اقبال نے فرمایا تھا خدا اگر دلِ فطرت شناس دے تجھ کو سکوتِ لالہ و گل سے کلام پیدا کر ایک ادیب اور لکھاری کا قلم معاشرے کا آئینہ دار ہوتا ہے،وہ انسانیت کے مسائل کو سمجھتا ہے،وہ اپنی دماغ سوزی اور درد مندی سے ان مسائل کا حل تلاش کرتا ہے،وہ اپنی فکر_خام کو لفظوں میں پگھلا کر قلم سے قرطاس پر منتقل کرتا ہے،اس کی مقصدیت لوگوں کی سوچ کو بدلنے لگتی ہے،اس کا درد_ دل انسانیت کے زخموں کا مرہم بن جاتا ہےاور پھر وہ منزل آتی ہے کہ اس کے قلم پارے ،شہ پارے بن جاتے ہیں اور اس کے قلم کی تاثیر رنگ لے آتی ہے اور پھر یہ عالم ہوتا ہے کہ بقول شاعر جس طرف بھی چل پڑے آبلہ پایان_شوق خار سے گل اور گل سے گلستاں بنتا گیا  موجودہ دور کمیونیکیشن سائینسز اور موبائل جرنلزم کا دور کہلاتا ہے ۔آپ کے ہاتھ میں جو اسمارٹ فون ہے ،آپ اس سے دعوت دین کا کام بآسانی کرسکتے ہیں۔بمط...
افسانہ:ابا جان / ڈاکٹر رفعت رفیق

افسانہ:ابا جان / ڈاکٹر رفعت رفیق

افسانے
ڈاکٹر رفعت رفیق میں نے ابا جان کو ہمیشہ ایسے ہی دیکھا۔اتنے ہی سنجیدہ ،متین  اور سادہ مزاج۔۔بچپن میں میں  حیرتسے انھیں تکا کرتا کہکوئی انسان  اتنا خشک مزاج کیسے ہوسکتا ہے ؟؟؟ان  کی دنیا گھر سے کالج ،کالج سے گھرتھااور کتابیں ان کی مونس وغم خوار ۔عام سے مڈل کلاس گھروں  میں الگ سے سٹڈی رومکا کھڑاگ کون پالتا ہے یا یوں کہہ لیں پال سکتا ہے اس لئے بیڈروم ہی  اباجان کی لائبریری تھا جہاں ہمارے سونے کے بعد تک اور صبح ہمارے اٹھنے سے پہلے ہمیشہ  دروازے کی نیچے کی جھری سے ان کے ٹیبل لیمپ کی  ہلکی ہلکی روشنی نظر آیا کرتی تو ہمیں خبر ہوجاتی کہ اباجان مطالعے میں منہمک ہیں۔ اباجان کا کوئی لمبا چوڑا حلقہ احباب نہ تھا نہ ہے۔۔لیکن اس کا یہ مطلب نہیں  کہ ان کا مزاج غیر دوستانہ تھا۔ہمارے زمانہ طالب علمی میں وہ ہم سب بہن بھائیوں کی پڑھائی میں پوری دلچسپی لیتے۔۔خ...
×

Send a message to us on WhatsApp

× Contact