خالد فتح محمد، گوجرانوالہ
کچھ عرصہ ہوا کہ ارشد ابرار ارش نے میرے ساتھ اپنے افسانوی مجموعے پر رائے کے لیے رابطہ کیا اور میں نے حامی بھر لی لیکن دوران گفتگو معلوم پڑا کہ ہمارے ایک اہم
super impose
افسانہ نگار کی رائے لے لی گئی ہے تو میں نے معذرت کر لی کہ میں کسی بھی طرح اپنی رائے نہیں کرنا چاہتا تھا۔
مجھ تک خبر پہنچی کہ ارشد کا افسانوی مجموعہ چھپ گیا ہے جس کی مجھے خوشی ہوئی اور میں اپنے انکار کی وجہ سے ایک بوجھ تلے بھی تھا اور ارشد کا مجھ پر قرض واجب الادا بھی تھا سو میں نے پبلشرز کا معلوم کرکےپریس فار پیس پبلی کیشنز کے ظفر اقبال صاحب سے رابطہ کیا۔ ان کا از حد شکر گزار ہوں کہ مجھے تین دنوں کے اندر اعزازی طور پر کتاب بھیج دی۔
ارشد ایک نیا اور نوجوان لکھنے والا ہے۔ میں اسے فکشن کے بڑے اور وسیع کنبے میں خوش آمدید کہتا ہوں اور امید رکھتا ہوں کہ وہ ایک ڈسپلن کے ساتھ اپنے فکشن کو آگے بڑھاتا جائے۔ اسے یہ ذہن میں رکھنا چاہیے کہ یہ ایک لمبا سفر اور میں نے دیکھا ہے کہ بعض اوقات لوگ ” ہف ” جاتے ہیں۔ ارشد یقینا ان میں سے نہیں ہو گا۔
ارشد کے افسانے پڑھ کر مجھے خوش گوار حیرت ہوئی کہ ایک نووارد اتنا پختہ کار بھی ہو سکتا ہے۔ فکشن در اصل تصور سے لے کر حقیقت تک کا ایک طویل اور صبر آزما سفر ہے اور لکھنے والے کو کئی مراحل میں سے گزرنا ہوتا ہے۔ میں نے محسوس کیا ہے کہ ارشد ان منزلوں سے بخوبی گزرتا محسوس ہوا۔
موضوع کا انتخاب در اصل فکشن نگار کی صوابدید ہے اور میں اپنی اس مختصر تحریر میں انفرادی افسانوں کو ذکر بحث لائے بنا ارشد کے افسانوں کے مجموعی تاثر کی بات کروں گا۔ میں اکثر شکایتاً اور بعض اوقات طنزیہ کہا کرتا ہوں کہ ہمارا فکشن یا چینلز کا ڈرامہ غربت نہیں دکھا پا رہے۔ یا انھیں ایسا تخلیق کرنے میں دل چسپی نہیں یا وہ پیش کرنے کے اہل نہیں۔
امارت کو تخلیق کرنے لیے امیر ہونا ضروری نہیں ایسے ہی کچھ غربت کے لیے ہے۔ مجھے خوشی ہوئی کہ ارشد کے یہ افسانے غربت کے ہیں اور یہاں غربت غیر محسوس طریقے سے مجھے ایک کردار نظر آئی۔
یہ نہ تو بھنگ کے جنگلی پودوں کی طرح صحنوں میں اگ رہی تھی اور نہ ہی یہ لحاف ہے جسے کردار اوڑھے پھر رہے ہیں۔
ارشد کو اپنے بیان پر قابو ہے یعنی الفاظ کا چناؤاور استعمال ایک پختگی لیے ہے ، ایک خوبی جو آتے آتے آتی ہے اور یہاں مجھے ہونہار بروا والی بات محسوس ہوئی۔
اب ایک لمحہ فکریہ بھی ہے۔ تنقیدی یا تحقیقی مضمون، اخباری کالم اور فکشن کی زبان اور استعمال ہوئے والی اصطلاحات میں فرق ہے۔
ارشد کے ہاں بعض اوقات پہلی کیٹیگری فکشن پر حاوی محسوس ہوتی ہے۔ افسانے کی خوب صورتی اس کی طوالت میں نہیں اختصار میں ہے۔ میں مختصر افسانہ جسے کئی نام دیے جا رہے کے حق میں نہیں لیکن یہ طویل نہیں ہونا چاہیے کہ بوجھ بن جائے۔ میرے نزدیک فکشن نگار کو ضروری اور غیر ضروری کو سمجھنا چاہیے اور یہ بھی ماننا ہوں کہ کوئی بھی لکھا تلف کرنا مشکل امر ہے لیکن اپنے فکشن تاثریت بڑھانے کے لیے یہ ضروری ہے۔ اگلا سوال یہ ہے کہ میلو ڈرامہ بہتر ہے کہ تاثریت؟ میں تاثریت کو ترجیح دوں گا۔
نئے لکھنے والے اس کے الٹ سمجھتے ہیں۔ پہلی بات یہ کہ ڈرامہ اور فکشن میں فرق ہے، گو دونوں کہانی بیان کر رہے ہوتے ہیں۔ سو میرے خیال میں ڈرامہ سے احتراز کرنا چاہیے۔دل آزاری ہر گز مقصود نہیں، چند ایک مشورے ہیں۔
ارشد کا فکشن نو وارد کی تازگی اور ایک منجھے ہوئے فکشن نگار کی پختگی لیے ہوئے ہے۔ جیسے پہلے بھی کہا گیا کہ فکشن ایک سخت قسم کے ڈسپلن کا متقاضی ہے جس میں مطالعہ بھی شامل ہے، صرف اردو نہیں بین الاقوامی فکشن بھی۔ مجھے یقین ہے کہ ارشد ابرار ارش کا یہ مجموعہ پڑاو نہیں اور وہ اپنا سفر جاری رکھے گا۔
Discover more from Press for Peace Publications
Subscribe to get the latest posts sent to your email.