مبصر : دانیال حسن چغتائی
“انتخاب” نامی یہ ناول پریس فار پیس فاؤنڈیشن کے پلیٹ فارم سے شائع ہوا ہے ۔ اور اسے ماہم جاوید صاحبہ نے لکھا ہے ۔
اس ناول کا انتساب مصنفہ نے اپنی والدہ اور دادی کے نام کیا ہے ۔ پیش لفظ میں وہ ان تمام لوگوں کی شکر گزار نظر آتی ہیں جنہوں نے ان کے ادبی سفر میں کسی بھی حوالے سے معاونت کی۔
ابتدا میں ناول روایتی انداز کے ڈائجسٹ ناول کی طرح محسوس ہوا لیکن جس طرح مصنفہ نے کہانی کو عشق حقیقی اور اللہ سے تعلق کی طرف موڑا وہ اپنی جگہ خاصی اہمیت کا حامل ہے ۔ اور تحریر کی پختگی نے یہ تاثر زائل کر دیا کہ یہ ان کا پہلا ناول ہے۔
ناول دراصل کہانی ہی ہے جس میں معاشرہ میں پیش آنے والے واقعات، حادثات اچھے برے ،واقعات، غمی اور خوشی کی باتوں پر مبنی کہانی کو پڑھنے والے کے لیے دلچسپی اور اس کی توجہ کو برقرار رکھنے کے لیے کہانی کا پلاٹ، کردار، جگہ، کرداروں کی زبان سے ادا کیے گئے الفاظ اور جملے ناول کو دلچسپ بناتے ہیں اور یہ سب عناصر اس ناول میں بخوبی ملتے ہیں ۔
سمجھ میں نہیں آتا کہ لوگ محبت کو آپ بیتی کیوں کہتے ہیں۔ محبت تو جگ بیتی ہے۔ دنیا کا وہ کون سا فرد ہے جو اس تجربے سے نہیں گزرا ہوگا؟ شرط صرف تسلیم کرنے کی یا انکار کرنے کی منافقت کی ہے۔
ناول کی کہانی بظاہر افسانوی سی ہے لیکن یہ ناول کلاسیکی انداز میں لکھا گیا ہے۔ اس میں زبان و بیان کے کوئی کرتب بھی نہیں دکھائے گئے مگر کہانی پر مصنفہ کی گرفت اتنی ہے مضبوط ہے کہ ناول میں اس کے متوازی کہانی چلتی نظر آتی ہے ۔ مصنفہ نے ناول میں کردار نگاری بھی بہت کمال کی کی ہے چنانچہ کردار، جیتے جاگتے ہمارے سامنے آن کھڑے محسوس ہوتے ہیں۔
مذہب اور محبت میں تضاد ہم نے بنا رکھا ہے حالانکہ مذہب خود محبت کا دوسرا نام ہے اور مذہب سے محبت نکال دیں تو یہ صرف چنگیزیزیت رہ جائے ۔ معاشرہ کیا کہے گا نے معاشرے کا ستیا ناس کر کے رکھا ہوا ہے اور یہ مشرق و مغرب میں یکساں نافذ العمل ہے۔ حالانکہ یہی معاشرہ سب کچھ اندر سموئے ہوئے ہے۔ مگر ہمارے اندر کا ڈر اور بزدلی بہت سارے انسانوں کی زندگیاں تباہ و برباد کر دیتی ہے۔
ناول میں ایک طرف ایک طرف خدا کی محبت کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر اور دوسری طرف محبت کے وہ عظیم جذبات جو ظالم سماج کے سامنے سیسہ پلائی دیوار بن کر صرف خدا کی رحمت کے طلب گار نظر آتے ہیں۔ ناول نگار نے نہایت کامیابی سے یہ ثابت کیا ہے کہ خدا محبت ہے اور سچی اور بے غرض محبت ہی خدا تک پہنچنے کا واحد ذریعہ ہے۔ ناول کے مطالعہ کے دوران کئی بار ایسی کیفیت سے واسطہ پڑا جب انسان کا مادی دنیا سے رشتہ اور تعلق منقطع ہو جاتا ہے اور وہ ایسی حسین دنیا میں گردش کرنے لگتا ہے جہاں محبت کو انسانیت کی معراج کہا جا سکتا ہے۔
معروف ناول نگار میمونہ ارم مونشاہ اس ناول کے بارے کچھ یوں کہتی ہیں ، یہ ایک ایسا اصلاحی ناول ہے جس میں اپنے من چاہے راستے پر چلنے کی مکمل آزادی دی گئی ہے اور ہر منزل کا انجام بہترین طریقے سے بتایا گیا ہے۔ اب یہ تو انسان پر منحصر ہے وہ خود کے لیے کیا پسند کرے کیونکہ اسے تخلیق کرنے والے کی طرف سے سمجھ بوجھ عطا کی گئی ہے۔ زندگی آزمائشوں کی آماجگاہ ہے، رب کو پانا آسان نہیں مگر ان کے سوا جن کو چن لیا جائے اور جن کو چن لیا جاتا ہے پھر ان کی مغفرت اور ہدایت میں کوئی شک باقی نہیں رہتا۔ ناول کو پڑھ کر میری طرح آپ کو بھی بہت سے سوالوں کے جواب مل جائیں گے اور آپ کے لیے بھی انتخاب کرنا آسان ہو جائے گا۔
معروف مصنف احمد رضا انصاری اس ناول کے بارے میں کچھ یوں رقم طراز ہیں ، عشق خاکی سے عشق حقیقی تک کا سفر ایسا سفر ہے جس میں روح و جسم کانٹوں میں الجھ کر تار تار ہو جاتے ہیں۔ ناول کی مرکزی کردار جو دنیاوی عشق میں مبتلا ہو کر شرک کی منزل تک پہنچنے کو تھی۔ پھر اچانک وہ کیسے اپنے اصل کی جانب پلٹی اور عشق الہی پانے کی جستجو میں ممکن ہوئی یہ داستان آنکھیں نم کر دینے والی ہے۔
اس ناول کے چند اقتباسات پیش خدمت ہیں جن کو پڑھ کر دل مسکراہٹ سے بھر جاتا ہے کیونکہ یہی وہ فقرے و سطور ہیں جو رب اور قرآن کی طرف انسان کا میلان کرتے ہیں۔
”ہمیں وہی ملتا ہے جو ہمارا نصیب ہوتا ہے اور نصیب ہم سے کوئی نہیں چھین سکتا ، اور جو چھن جائے وہ ہمارا نصیب ہوتا ہی نہیں“ ۔
” انسان کا اصل تو اللہ ہی جانتا ہے۔ کون اس سے کتنا قریب ہے یہ تو اسے ہی پتا ہے مگر ہاں اپنے محبوب کو متاثر کرنے کے لیے خود کو اس رنگ میں ڈھالنا اچھا لگتا ہے جو ہمارے محبوب کو پسند ہو اور میں صرف یہ بتانا چاہ رہی ہوں کہ یہ سب میں نے ٹرینڈ میں نہیں اللہ کے لیے کیا ہے۔ اب وہ قبول کرلے تو بات ہے۔“
” اگر اللہ کسی چیز کا راستہ ہم پر کھولنا چاہے تو کوئی اسے نہیں روک سکتا“۔
”بدل جانے کو ایک پل چاہیے مقدس! اور ہر انسان کی زندگی میں وہ پل ضرور آتا ہے۔۔ ایک لمحہ ۔۔ انسان کو جھنجھوڑنے کے لیے، اسے بدلنے کے لیے اور ایک ہی لمحہ ہوتا ہے اس کے انتخاب کے لیے ۔۔ وہ کیا منتخب کرتا ہے یہ اس پر منحصر ہوتا ہے اور کئی دفعہ ہم انتخاب نہیں کر پاتے۔ اللہ ہمارے لیے انتخاب کرتا ہے۔ اس راستے کا جس پر وہ سمجھتا ہو کہ ہم چل سکیں گے“ ۔ اختتام پر میں یہی کہنا چاہوں گا کہ ہم زندگی میں جو کچھ چاہ رہے ہوتے ہیں ، رب کی منشا دراصل اس سے مختلف ہوتی ہے اور ہمیں یہ ایمان رکھنا چاہیے کہ رب کا انتخاب ہماری محدود سوچ سے کہیں بہتر ہے ۔ یہی اس ناول کا مقصود ہے ۔