معاشرے اور معاشرتی تبدیلی پر سلسلہ وار کالم (3)
شمس رحمان
تاریخ کے مادی نظریے کی روشنی میں میرپور میں معاشرتی تبدیلی / معاشرتی تغیر کا تاریخی تجزیہ پیش کیا گیا ہے۔ امید ہے کہ اس تجزیے میں کمیوں کجیوں کے باوجود اس سے ہمیں اس نظریے کو عملی طور پر سمجھنے میں بھی مدد ملے گی اور میرپوری معاشرے کو بھی۔
میرپور اس وقت ‘آزاد’ ریاست جموں کشمیر کا ایک انتظامی ڈویژن ہے جو میرپور ، بھمبر اور کوٹلی کے اضلاع پر مشتمل ہے۔ اس مضمون میں توجہ کا مرکز یہ علاقہ ہے۔ اس کی وجہ یہ نہیں کہ ‘آزاد’ کشمیر کے باقی دو ڈویژن مظفر آباد اور پونچھ اہمیت میں میرپور سے کم ہیں یا میں ان علاقوں میں معاشرتی تبدیلی لانے اور اس کے عمل کو سمجھنے کے خواشمندوں تک تجزیہ نہیں پہنچانا چاہتا ۔ بلکہ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان علاقوں کے تاریخی تجزیے کے لیے میری معلومات میرپور کے مقابلے میں بہت ہی کم ہیں۔
امید کرتا ہوں کہ اس تجزیے کی طرح آزاد کشمیر بلکہ ریاست جموں کشمیر کے دیگر خطوں کے آزادی، و ترقی پسند تجزیہ کار اپنے اپنے خطے کا تجزیہ کریں گے جن کو جوڑ کر پوری ریاست کے تجزیوں کو یکجا کیا جا سکتا ہے تاکہ ریاست کے تمام باشندوں خاص طور سے سیاسی کارکنوں کو پوری ریاست کے ٹھوس تاریخی اور موجود مادی حالات ( معروض) کو سمجھنے میں مدد مل سکے۔میرے اس تجزیے کی زیادہ تر توجہ میرپور شہر اور گردوپیش کے گاؤں ہی ہیں ۔ کیونکہ سچی بات یہ ہے کہ مجھے بھمبر اور کوٹلی کے بارے میں بھی کچھ زیادہ معلوم نہیں ہے۔ اس لیے اس مضمون کو میرپور ڈویژن کے تجزیے کا بھی بس ایک ابتدائی اور تعارفی جزو ہی قرار دیا جا سکتا ہے۔ سماجی علم یعنی معاشرے کے مختلف پہلوؤں کا مطالعہ ایک سمندر ہے اور یہ تجزیہ ایک قطرے کا بھی شاید لاکھواں حصہ ۔ تاہم اگر یہ ننھا سا ہی سہی پہلا ننھا قطرہ ثابت ہو تو بَلھے، بَلھے، شاوہ ، شاوہ۔
جیسا کہ اوپر ذکر کیا اور یہاں جان بوجھ کر دوہرایا جا رہا ہے کہ تاریخی مادیت کے نظریے میں معاشرتی ڈھانچہ ان تانوں بانوں اور اداروں کو کہا جاتا ہے جو اس معاشرے میں پیداواری سرگرمیوں سے پیدا ہوتے اور پروان چڑھتے ہیں ۔ معاشرہ ان ہی اداروں سے مل کر بنا ہوتا ہے ۔ امید ہے کہ یہ نقطہ اس حصے کے آخر تک زیادہ صاف اور واضح ہو جائے گا۔
میرپوری معاشرے کا تاریخی تجزیہ کرنا میرے لیے اس لیے بھی نسبت آسان ہے کہ میں نے پرانے معاشرتی ڈھانچے کو ‘جاتے’ ہوئے اور نئے ‘ ڈھانچے’ کو آتے ہوئے دیکھا ہے۔ جاتے ہوئے دیکھا ہے کا مطلب ہے کہ معاشرے کی قدیم زمانوں سے چلی آ رہی مادی بنیادوں کو بدلتے ہوئے اور نئی بنیادوں کو پیدا ہوتے ہوئے لغوی طور پر اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے۔ جس معاشرتی ماحول میں میں پیدا ہوا وہ ماحول پیداوار کے جن ذرائع اور آلات استعمال ہوتے تھے وہ میری عمر کے لوگوں کی آنکھوں کے سامنے بدلے ۔ ہم نے ان کی جگہ پیداوار کے نئے ذرائع کو لیتے ہوئے بھی دیکھا ہے۔ ہم معاشرے کی جڑ بنیاد کے بدل جانے کے بعد اب معاشرتی اداروں یعنی معاشی سرگرمیوں، سماجی رسوم و رواج، اقدار ، رویوں ، اور حکومتی اداروں یعنی قانون و انصاف، تعلیمی نظام ، کاروبار و تجارت کے اصولوں وغیرہ کو بھی بدلتے ہوئے دیکھ رہے ہیں ۔ دوسرے الفاظ میں ہم نے جاگیرداری اور قبائلی سماج کی جڑ بنیاد بدل جانے کے بعد پرانے معاشرے کو ایک نئے سماج میں بدلتے ہوئے دیکھا ہے اور دیکھ رہے ہیں۔ تاہم المیہ یہ ہے کہ ہم میں سے اکثر نہیں جانتے کہ مادی بنیاد اور اوپرلی معاشرے میں آنے والی تبدیلیوں میں تعلق پایا جاتا ہے۔ تبدیلیوں کی وجوہات اور اسباب معاشرے کے اندر موجود ہوتے ہیں۔ شاید 1947 کا غدر، میرپور کا منگلا میں غرق ہونے اور برطانیہ ہجرت کا پس منظر، اسباب اور وجوہات اس معاشرے میں موجود ہیں جن کو سمجھ کر معاشرے کا انتظام و انصرام بھی بہتر کیا جا سکتا ہے اور حکومتی نظام کو بھی بہتر بنایا جا سکتا ہے۔
اس کالم میں قدیم زمانے سے لے کر آج تک کے پیداواری ذرائع پر بات کی گئی ہے اور یہ دکھا نے کی کوشش کی گئی ہے کہ قدیم زمانے سے لے کر آج تک ان میں کیا تبدیلیاں رونما ہوئیں ؟
پیداوار کے ذرائع کیا تھے؟
آپ میں سے جو میری عمر کے ہیں یعنی ساٹھ کے عشرے میں یا اس سے پہلے پیدا ہوئے اگر خود کو اس زمانے میں لے جائیں جب ہم پروان چڑھ رہے تھے تو آپ کو اس معاشرے کی یہ تصویر تصور میں نظر آ جائے گی۔ خیال کو پیچھے لے جا کر ارد گرد نظر دوڑایے ، سوچئیے۔ اس زمانے میں روزی روٹی یعنی پیداوار کے ذرائع کیا تھے؟ کن ذرائع سے پیدا وار ہوتی تھی؟ مطلب ضرورت کی بنیادی اشیاء کہاں اور کیسے پیدا کی جاتی تھیں؟ خوراک، لباس اور رہائش۔۔۔ روٹی ، کپڑا اور مکان۔
یہ حقیقت ہم میں سے کون نہیں جانتا کہ میرپور میں قدیم ترین زمانوں سے لے کر 1960 کی دہائی تک سب بنیادی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے سب سے بڑا ذریعہ زمین تھی۔ یعنی پیداوار کا سب سے بڑا ذریعہ زمین تھا۔ انسانوں اور جانوروں کی زندگی کو جاری رکھنے کی بنیادی ضروریات ، اناج، پانی اور درخت زمین سے پیدا ہوتے تھے ۔ ظاہر ہے کہ اگر زندگی قائم نہ رہے تو معاشرہ رہتا ہے نہ معاشرتی تبدیلی آتی ہے اور نہ ہی اس کا مطالعہ کرنے یعنی اس کو پڑھنے اور سمجھنے والا کوئی بچتا ہے۔ مطلب انسان کو پہلے زندہ رہنا پڑتا ہے اس کے بعد باقی زندگی کے پہلو نشوونما پاتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ انسان کو لطیف معاملات دستیاب تھے لیکن اس نے زندہ رہنے کے لیے خوراک پیدا کرنے کو ترجیح دی۔ بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ خوراک کے بغیر زندہ رہنا ممکن نہیں تھا ( اب بھی نہیں) اس لیے خوراک حاصل کرنا پہلی ضرورت رہی ہے۔ اس کا مطلب یہ بھی نہیں کہ اس نظریے والے یہ تجویز کرتے ہیں کہ باقی چیزوں کو چھوڑو اور بس خوراک پیدا کرنے اور کھانے میں لگے رہو۔ وہ کہتے ہیں کہ خوراک انسان کی بنیادی ضرورت ہے جس کے بغیر زندگی ممکن نہیں اس لیے انسان کی پہلی ترجیح رہی ہے۔ اور ہے اور یہ کہ خوراک کی پیداوار کے عمل سے دیگر رشتے پیدا ہوئے اور پروان چڑھے۔
زندہ رہنے کے لیے خوراک یعنی کھانا اور پینا ( پانی پینا) بنیادی ضروریات ہیں جن کے بغیر زندگی جاری نہیں رہ سکتی۔ اس کے بعد حفاظت کے لیے مکان اور لباس درکار ہوتے ہیں ۔ یہ میں بات کر رہا ہوں قدیم ترین انسانی عہد کی اور قدیم ترین میرپور کی تب اس کا نام ظاہر ہے میرپور نہیں تھا۔ نہ تب یہ شہر تھا۔ لیکن یہ خطہ موجود تھا اور اس پر قدیم انسانی کی موجودگی کے ثبوت بھی موجود ہیں۔
مجھے کیسے پتہ ہے قدیم میرپور کے بارے میں ؟ جنیاتی سائنس اور کمپیوٹر ٹیکنالوجی میں ترقی کے باعث آثار قدیمہ کی کھوج کاری کے علم اور طریقوں میں بے پناہ ترقی ہوئی ہے جس کی مدد سے قدیم زمانوں اور انسانوں اور ان کے معاشرے کے بارے میں بہت کچھ جانا چکا ہے ۔ تاریخ اور تاریخی مادیت کے علم کے ذریعے انسانی ارتقاء کے اس سفر کے مختلف مراحل کو اچھی طرح سے پڑھا اور جانچا بلکہ اب تو ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کے ذریعے دیکھا بھی جا سکتا ہے ۔
تاہم سائنس کے کسی بھی مضمون چاہے وہ سماجی علوم ہوں یا قدرتی علوم ان کے زریعے جو علم حاصل ہوتا وہ نئی معلومات کے ساتھ بدلتا رہتا ہے ۔ مثال کے طور پر آثار قدیمہ کے ماہرین نے جو دعوے قدیم معاشروں کے بارے میں کیے ہیں جن کا حوالہ اس تجزیے میں دیا گیا ہے وہ اس وقت دستیاب آثار کے مطالعے کی بنیاد پر کیے ہیں۔ ہوسکتا ہے کہ کچھ عرصے بعد دنیا کے کسی اور مقام سے کچھ قدیم آثار ملیں جن سے پتہ چلے کہ’ ہل ‘ تو اس سے پہلے بھی استعمال ہوتی تھی۔ اس لیے سائنسی معلومات ، دعوؤں اور نظریات کو عقیدے کے طور پر نہیں لینا چاہیے۔
اگرچہ میرپور پر تاریخی مادیت کی روشنی میں یہ پہلا تجزیہ ہے لیکن تاریخی مادیت کے علمی نظریے جس کو تاریخ و سیاسیات و معاشریات اور دیگر سماجی علوم میں سماج اور سماجی تبدیلی کو سمجھنے کے لیے ایک مستند نظریہ تسلیم کیا جاتا ہے کا دعویٰ ہے کہ انسان جہاں بھی تھا اس کی ابتدائی ترین معاشی سرگرمی روزی کی تلاش تھی جو بتدریج روزی پیدا کرنے کے تسلسل میں ڈھل گئی۔ یعنی آج کے جدید ترین زرائع پیداوار کا سلسلہ مسلسل پیچھے کی طرف یعنی ماضی میں جاتے جاتے جا کر انسان کے وجود کے اولین زمانے سے جا ملتا ہے جب انسان خود کچھ پیدا کرنے کے قابل نہیں تھا ۔ وہ ہاتھوں سے قدرتی طور پر موجود خوراک کے استعمال پر انحصار کرتا تھا ۔ وہاں سے یہاں تک کے سفر کو تاریخی یا معاشرتی ارتقاء کہا جاتا ہے۔ انسانی تاریخ کا یہ سارا سفر اپنے تجربات اور مشاہدات کے ذریعے سیکھنے کا عمل تھا۔ ہاتھوں پر انحصار سے لے کر آج ستاروں پر لغوی طور پر کمند ڈالنے کے عہد تک انسان نے سب کچھ مشاہدات اور تجربات کے ذریعے بتدریج سیکھا ہے۔
Discover more from Press for Peace Publications
Subscribe to get the latest posts sent to your email.