تحریر : مظہراقبال مظہر

تخلیق کاری  محبوبیت ِ الٰہی کا ایک دل آویز اظہار بھی ہے اور معبود کا شکر بجا لانے کا والہانہ انداز بھی۔ انسان بذاتِ خود تخلیق کی اوج ہی نہیں ، اپنے خالق کا مجسم ِ خیال بھی ہے۔ تخلیق کو وجود میں آنے سے قبل خیال کے سانچے میں ڈھلنا ہے،اور یہ ایک قدرتی عمل ہے۔

وہی قدرت جسے ازنِ الٰہی بھی کہا جائے تو غلط نہ ہوگا۔ گویا تخلیق کا خمیر حضرتِ انسان کی سرشت میں شامل ہے۔ یوں تخلیق کاری عدم سے وجود کی طرف سفر کا لازمی جزو ٹھہری۔ وجودِہستی کو روح ِ تخلیق سے جدا نہیں کیا جا سکتا۔

اور اگر روح امرِ ربّی ہے تو تجسیم بھی دوامِ خیالِ مصّور ہے۔ تصور کے بت کو تراش کر جو مجسم صورت بنتی ہے وہی تخلیق بھی ہے اور وہی مرکزِ نگاہِ مصّور بھی۔

اگر خدا نے انسان کو اپنی ہی فطرت پر پیدا کیا تو یہ کیسے ممکن تھا کہ تخلیق کا جو عمل اس کے وجود میں آنے کا باعث بنا ، وہ اس کی سرشت میں شامل نہ ہوتا۔

روحِ انساں کو مجسم دیکھنا چاہا تو تخلیق کا عمل رحمِ مادر میں منتقل ہوا۔ یہ کشف ِ کمال تکوینِ نو میں ڈھلا تو وجودِ ہستی کو ازنِ ظہور ہوا۔ مگر یہ بھی سچ ہے کہ جب وجود زندگی کو میدانِ عمل میں اتارا تو معبود کو سجود سے زیاد ہ حدود و قیود سے غرض تھی ۔اس لیے کہ مسجود نے محبوب و مردود کا فیصلہ تو پہلے ہی کرلیاتھا۔

البتہ مصور کو معلوم تھا کہ تخلیق جس سانچے میں ڈھل کے تیار ہوئی ہے اس سانچے کی ساخت میں کوئی کجی نہیں ۔ تخلیق کار نے جو مٹی منتخب کی وہ بھی تکمیل کے تمام تقاضے پورے کرتی تھی ۔

مگر حسنِ طرحِ محبوب میں دل کشائی اور دل ربائی کا تقاضا یہ تھا کہ تخلیق کار ی کی حس ِ خیال کو بھی ودیعت ِ فطرت کیا جائے ۔یوں اگر زندگی کو برقراررکھنے کے لیے بشری تقاضوں کو ملحوظ خاطر رکھا تو روحِ انساں کو پیوند سرشت رکھنے کے لیے فن کاری و تخلیق کاری بھی عطا کردی۔

یہ بھی معلوم تھا کہ تخلیق کار ی کے عمل کو ہی وجہء عناد بنا کر ایک راندہ ء درگا ہ تخلیقی عمل کو ہی نہیں بلکہ مخلوقیت پر ہی انگلی اٹھانے والا ہے۔

لہٰذا یہ لازمی ٹھہرا کہ مخلوق و مخلوقیت کو راہ راست پر رکھنے کے لیے الہامیت کو بھی آسمان دنیا پر اتارا جائے۔ حاصل ِ بحث یہ کہ جس طرح معبودیت کبریائی کے تقاضوں سے الگ نہیں ہو سکتی، بالکل اسی طرح انسان کا تخلیقی کاری کا عمل بھی عطائے خاص کے طور پر محبوبیتِ الٰہی کا بڑا ہی دل آویز اظہار ہے۔


Discover more from Press for Peace Publications

Subscribe to get the latest posts sent to your email.

Discover more from Press for Peace Publications

Subscribe now to keep reading and get access to the full archive.

Continue reading

×

Send a message to us on WhatsApp

× Contact
Skip to content