تصنیف : دھندلے عکس

مصنفہ: کرن عباس کرن

پبلیکشنز: پریس فار پیس

تحریر و تبصرہ: ہدایہ

میں محبت میں روحوں کی فریکوئنسی ٹھیک ٹھیک میچ ہونے پر یقین رکھتی ہوں۔ اور یہ بھی کہ وہ جو تھوڑے بہت فرق کے ساتھ ایک جیسی ارواح ہیں، وہ بھی ایک دوسرے کی طرف کشش رکھتی ہیں، انکی آزمائشیں کم و بیش یکساں ہوتی ہیں اور وہ ایک لڑی میں پرو دی جاتی ہیں۔

خدائے دانا، حکیم، بزرگ و برتر کے منصوبے ارضی نہیں ہوتے کہ ان میں جھول ہو۔ یا مستقبل میں حالات ناساز گار ہونے کے بعد بدل دئیے جائیں۔ نہ اس کے ہاں وقت کی قید ہے۔ وہ جب چاہے ہم روح کو مادی لباس پہنا کر اس سیارے پر جہاں چاہے اتار دے اور پھر فیصلہ کرے، پھر حالات موافق کرے، تلاش کی بے قراری لگا دے۔ باطنی آنکھ کو اپنی ہم روح دھندلے عکس کی صورت دکھائی دینے لگے۔ اور وہ اس خدو خال کی تلاش میں پورے خلوص سے جت جائے، ممکن ہے اس سفر میں متلاشی ملتی جلتی ہم روح سے ٹکرائے، اور بہت سی پہیلیاں، الجھنیں چھوڑ کر جدا ہو جائے، اور جب وقت مقرر آن پہنچے، روحوں کو ملوا کر تلاش کی خواری کو آسودگی سے نہال کر دیا جائے۔ تآنکہ دھندلے عکس؛ پورے عکس میں تبدیل ہو جائیں۔

بات یہاں تک بھی رہتی تو ٹھیک تھی۔ مگر بات اتنی سادہ ہے نہیں۔

 بسا اوقات یکساں روحوں کی فریکوئنسی کا ٹھیک ٹھیک میچ ہونا تو ممکن ہے مگر یہ ضروری نہیں کہ دونوں ارواح ایک زمانے، ایک سیارے، ایک خطے، ثقافت، زبان سے تعلق رکھتی ہوں۔

ممکن ہے آپ کی ہم روح نے آپ کے مادی طور پر گزر جانے کے چند برس بعد آنا ہو۔ ممکن ہے وہ موجود ہو۔ مگر آپ سے چند برس کا فاصلہ ہو۔ ممکن ہے یہ فاصلےوقت کے بیکراں  فاصلوں پر محیط ہوں۔ ممکن ہے وہ آ کر گزر چکی ہو۔ یا اسے آنا ہو۔ آپ کے مادی طور پر گزر جانے کے بعد۔ کچھ وقت، تھوڑا زیادہ، یا ایک طویل مدت، یا پھر کئی صدیاں بعد۔۔۔

آفاقی منصوبے وہی جانے جو بناتا ہے۔ آج سے کئی صدیاں قبل، ملک شام کی ایک شاہ زادی آرٹسٹ

سے ایک مجسمہ کیونکر تخلیق کروایا گیا تھا؟ کیا محض اسلئے کہ میلوں کی مسافت پر موجود برصغیر کے بادشاہ کو تحفے میں عنایت کیا جائے گا؟

نہیں!  بات اتنی سادہ نہیں ہے۔ وہ فن پارہ اس لئے بنایا گیا کہ تخلیق کے صدیوں بعد، ریت کے ٹیلوں تلے مدفن، ماہرین آثار قدیمہ کو  کھدائی کے دوران ملے گا اور شہر کے میوزیم میں نمائش کےلئے رکھا جائے گا۔

جبکہ میوزیم میں ایک سر پھرا آرٹسٹ اسے دیکھ کر کوئی خاص ربط محسوس کرے گا اور تخلیق کے ذریعے اس کے خالق تک پہنچے گا، خالق! جسکا  تقریباً چھ صدیاں قبل نام تک مٹ چکا ہوگا۔ تخلیق کار کے ملنے کے سفر سے اکیسویں صدی کے ایک غیر معروف آرٹسٹ کا فن نکھرے گا۔ پھر اس نکھرے فن سے کوئی خواب زادی متاثر ہو کر متاثرہ ہو جائے گی۔ مصور کیسے رابطہ کر پاتا ہے تخلیق کے ذریعے تخلیق کار سے؟ ایک لڑی میں پرو دی گئی ارواح کا انجام کیا ہوگا ؟ اس کےلئے 125 صفحات پر مشتمل ناول  ‘دھندلے عکس’ پڑھنا ہوگا۔

یہ کہانی شعوری نہیں الہامی ہے۔ یہ کتاب ایسی ہے کہ ذات کے سفر پر رواں اپنے قاری تک ضرور پہنچے گی جو ایک ہی لڑی میں پررو دے گئے۔ جنہوں نے شاخ سے علیحدہ ہو کر بانس کا درد سہا ہوگا۔ جن کے تن خالی ہوں گے لیکن من محبت کی روشنی سے مالا مال۔ جن کی کوکھ سے نغمۂ محبت، دکھی انسانوں کےلئے آسودگی کا باعث ہوگا، یہ کتاب ان تمام تک ضرور پہنچے گی۔ جب حکم ہوگا، اور وہ بہتر جانتا ہے کہ ‘ کن’ کے کرشمے کب دکھانے ہیں۔

یہ کتاب سفر ہے۔ ذات کے اندر تن تنہا سفر۔ ایسا سفر جس میں زندگی کی گنجلیں کھلنے لگیں۔ پہلیاں سلجھنے لگیں۔ اور دھندلے عکس جو  واضح ہونے لگیں، کیونکہ یہ کتاب سفر ہے۔ اسی قاری کو بھائے گی جس کے خمیر میں عشق گوندھ دیا گیا ہے۔  اور سفر اس کی قسمت میں لکھ دیا گیا ہے۔ اس میں فلسفۂ حیات  ہے۔  محبت ہے، روح کی شناخت ہے۔ اور فیض میں ڈوبی روحانی باتیں ہیں۔ جو چنی گئی حساس ارواح کو سمجھ آ سکتیں ہیں۔ ذات کے مسافر تہی دامن نہیں لٹائے جاتے بلکہ علم کے نور سے منور کئے جاتے ہیں۔ انہیں عرفان نصیب ہوتا ہے۔ یہ وہ جانتے ہیں جو ہر خاص و عام نہیں جانتا۔ کرن عباس کرن کی یہ تصنیف باطن کا سفر ہے۔ خدائے ذولجلال، کرن عباس کے دل کو باطنی علم سے مزید منور کرے۔ اور قلم میں مزید نکھار پیدا کرے۔

Leave a Reply

Discover more from Press for Peace Publications

Subscribe now to keep reading and get access to the full archive.

Continue reading

×

Send a message to us on WhatsApp

× Contact