مظہر اقبال مظہر

پاکستان کی توانائی کی طلب تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ جس کی وجہ آبادی میں اضافہ، صنعتی ترقی اور بہتر زندگی کے معیار کی خواہش ہے۔ 2023میں پاکستان کی مجموعی توانائی کی طلب تقریباً 80,000 میگاواٹ تھی۔ اس میں سے تقریباً 65 فیصد بجلی جبکہ باقی 35 فیصد گیس اور دیگر ایندھن کی صورت میں استعمال ہوتی ہے۔ اندازہ ہے کہ پاکستان 60,000 میگاواٹ سے زائد شمسی توانائی پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے، جو اس کی موجودہ توانائی کی ضروریات کے قریب ہے۔

کسی بھی ملک کے جغرافیہ اور شمسی توانائی کا ایک دوسرے سے گہرا تعلق ہے۔ کیونکہ سورج کی روشنی کی مقدار اور اس کی شدت جو کسی خاص مقام پر پہنچتی ہے وہ اس ملک کے موسم اور قدرتی ماحول پر منحصر ہوتی ہے۔  زمین کے خط استوا کے قریب والے علاقے زیادہ سورج کی روشنی حاصل کرتے ہیں کیونکہ سورج کی شعاعیں براہ راست ان علاقوں پر پڑتی ہیں۔ جیسے جیسے آپ قطبین کی طرف جاتے ہیں، سورج کی شعاعیں زمین کی سطح پر زیادہ زاویے پر پڑتی ہیں، جس سے کم توانائی پیدا ہوتی ہے۔

 

پاکستان کا جغرافیہ سولر انرجی یا شمسی توانائی کے حصول کے لیے انتہائی موزوں ہے۔ یہاں سال کے مختلف اوقات میں سورج کی روشنی کی مقدار مختلف ہوتی ہے۔ عام طور پر، گرمیوں کے موسموں میں سردیوں کے موسموں کے مقابلے میں زیادہ سورج کی روشنی ہوتی ہے۔ خط استوا کے قریب کے علاقے، صاف آسمان اور کم بادلوں والے علاقے شمسی پینلز کے لیے مثالی مقامات ہیں۔جغرافیائی معلومات کے نظام کا استعمال کرتے ہوئے، ماہرین  ایسے  نقشے بنا سکتے ہیں جو شمسی توانائی کے ممکنہ وسائل کی نشاندہی کرتے ہیں۔ یہ نقشے حکومتوں، کاروباروں اور افراد کو یہ فیصلہ کرنے میں مدد کر سکتے ہیں کہ کہاں شمسی توانائی کے منصوبے قائم کیے جائیں۔

پاکستان کو اپنی توانائی کی ضروریات کو پورا کرنے اور ایک پائیدار توانائی کے مستقبل کو یقینی بنانے کے لیے اپنے توانائی کے شعبے میں سرمایہ کاری کرنے کی ضرورت ہے۔ حکومت اگرچہ قابل تجدید توانائی کے ذرائع، جیسے شمسی توانائی کے فروغ کے لیے کئی اقدامات کر رہی ہے اور  توانائی کی کارکردگی کو بہتر بنانے اور بجلی کے گرڈ کو اپ گریڈ کرنے کے لیے بھی کام کر رہی ہے۔تاہم اس شعبے کو باقاعدہ صنعت کا درجہ دینے کے لیے ابھی  تک بہت زیادہ کام نہیں ہواہے۔

پاکستان میں گرم اور خشک موسم ہوتا ہے، جو شمسی پینلز کے لیے مثالی ہوتا ہے کیونکہ وہ زیادہ سورج کی روشنی میں زیادہ موثر طریقے سے کام کرتے ہیں۔پاکستان میں بادلوں کا احاطہ کم ہوتا ہے، جو سورج کی روشنی تک رسائی کو یقینی بناتا ہے۔ملک بھر میں عام طور پر اور پنجاب و سندھ کے  صوبوں میں  وسیع و عریض کھلے علاقے ہیں جو شمسی پینلز کے فارمز کے لیے بہترین ہیں۔ان عوامل کی وجہ سے، پاکستان میں شمسی توانائی کے حصول کے لیے بہت زیادہ صلاحیت ہے۔

حکومت نے قابل تجدید توانائی کے اس نایاب  ذریعے کو فروغ دینے کے لیے کئی اقدامات کیے ہیں، جن سے اس کے روشن مستقبل  کی راہ نکلتی ہے۔ نیشنل سولر ٹیرف پالیسی 2015 کے تحت پاکستان نے سولر پاور پلانٹس کے قیام کے لیے ٹیکس اور دیگر مراعات فراہم کیں، جس سے ملک میں اس صنعت میں سرمایہ کاری میں اضافہ ہوا۔ حکومت کی نیٹ میٹرنگ پالیسی صارفین کو اضافی بجلی کو قومی گرڈ میں واپس بیچنے کی اجازت دیتی ہے، جس سے گھریلو اور کاروباری صارفین کے لیے سولر پینلز کی قیمت کم ہو جاتی ہے۔حکومت نے  خود بھی بڑے پیمانے پر سولر پاور پلانٹس کے قیام میں  سرمایہ کاری کی ہے، جس سے قومی گرڈ میں قابل تجدید توانائی کی مقدار میں اضافہ ہوا ہے۔ان اقدامات کی بدولت، پاکستان میں سولر انرجی کی صنعت تیزی سے ترقی کر رہی ہے۔

تاہم اس شعبے کو بے شمار چیلنجز کا سامنا بھی ہے۔ ایک چیلنج یہ ہے کہ سولر پینلز کی ابتدائی لاگت اب بھی نسبتاً زیادہ ہے۔ اس کے علاوہ، گرڈ انفراسٹرکچر کو بڑے پیمانے پر سولر توانائی کو مربوط کرنے کے لیے اپ گریڈ کرنے کی ضرورت ہوگی۔2023 میں حکومت نے سولر پینلز پر درآمدی ڈیوٹی کو ختم کر دیا، جس سے ان کی قیمتوں میں مزید کمی واقع ہوئی۔2024 میں، حکومت نے ایک نیا پروگرام شروع کیا جس کا مقصد کم آمدنی والے گھروں کو سولر پینلز فراہم کرنا ہے۔صوبہ پنجاب میں “روشن پنجاب پروگرام” کے تحت شروع کی جانے  والے اس  منصوبے  کا ہدف  ایسے  گھریلو صارفین ہوں گے جو  ماہانہ 100 یونٹ بجلی استعمال کرتے ہیں۔

پنجاب حکومت کے شمسی توانائی کے پائلٹ پراجیکٹ کے تحت  ابتدا میں  50,000  خاندانوں کو شمسی توانائی کی فراہمی کا منصوبہ بنایا گیا ہے۔ اس منصوبے کے تحت  پنجاب بھر میں مستحق خاندانوں کے ہر  گھر  میں دو سولر پینلز، بیٹری، انورٹر  نصب کیے جائیں گے  جو پنکھے، لائٹس اور ایک چھوٹا واٹر پمپ چلانے کے لیے کافی  ہوں گے۔ جبکہ ایک  لیتھیم آئن بیٹری 16 گھنٹے کے لیے بیک اپ فراہم کرے گی، یعنی ایک گھرانہ اپنی دن بھر کی   توانائی کی ضروریات کے لیے شمسی توانائی پر انحصار کر سکتا ہے ۔

اسی طرح خیبر پختونخوا کی حکومت  صوبے بھر میں ایک لاکھ سولر سسٹم تقسیم کرنے کا اعلان کر چکی ہے۔ حکومت اس وقت اس منصوبے پرعملدرآمد کی حکمت عملی کو حتمی شکل دے رہی ہے۔ اس منصوبے کو بینک کے ذریعے یا براہ راست عمل میں لایا جا سکتا ہے۔ حکومت اس منصوبے کے لیے مناسب وینڈرز کی تلاش میں بھی سرگرم ہے۔

پاکستان میں سولر انرجی کے لیے حالیہ پیش رفت اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ حکومت  اس ذریعہ توانائی کو ملک بھر میں ایک قابل عمل اور سستی توانائی کے ذریعے کے طور پر اپنانے  کے لیے پرعزم ہے۔

Leave a Reply

Discover more from Press for Peace Publications

Subscribe now to keep reading and get access to the full archive.

Continue reading

×

Send a message to us on WhatsApp

× Contact