تحقیق و تحریر: مجتبی بیگ
آج کے دور میں کسی بھی فرد سے پوچھیں کہ اس کی بڑی بڑی فکرات کون سی ہیں تو شاید ہی کوئی بال بچے دار فرد ہوگا جو بچوں کی سیفٹی کی فکرمندی کا اظہار نہ کرتا ہو مگر زیادہ تر کو یہ بات معلوم ہی نہیں کہ بچوں کے لیے ایک بہت بڑا خطرہ موسمیاتی تبدیلی کے ہولناک اثرات بھی ہیں جن کی تفصیل اور ان سے بچنے کے اہم ترین طریقے اس مضمون میں دئیے جارہے ہیں:
بچوں کی قوت مدافعت بڑوں کے مقابلے میں خاصی کمزور ہوتی ہے اسی لیے ایک تحقیق کے مطابق موسمیاتی تبدیلی کے اثرات سے بچے دگنا متاثر ہوتےہیں اس وقت ستر کروڑ بچے ایسے ممالک میں رہتے ہیں جوموسمیاتی تبدیلی کے شدید اثرات کی زد میں ہیں اور بدقسمتی سے پاکستان بھی ایسے ہی ممالک میں سے ایک ہے.
موسمیاتی شدت خواہ وہ شدید گرمی کی شکل میں ہو یا سردی کی شکل میں مختلف بیماریوں کی صورت میں سب سے پہلے بچوں کو نقصان پہنچاتی ہے جبکہ ہم بڑے آرام سے یہ کہہ دیتے ہیں کہ بچے کو ٹھنڈ لگ گئی یا لو لگ گئی مگر یہ کبھی نہیں سوچتے کہ ایسا کیا ہوا کہ کیا بچے کیا بڑے سب ہی پہلے کے مقابلے میں اتنی زیادہ تعداد میں موسمی بیماریوں کا شکار ہورہےہیں.
سیلاب, خشک سالی اور طوفانوں کے باعث انفرااسٹرکچر کی تباہی, بے گھری, جبری ہجرت, خوراک اور پانی کی قلت کے علاوہ تباہیوں کے بعد پھوٹنے والی بیماریوں کا بھی بچے زیادہ شکار ہوتے ہیں. اسکے علاوہ موسمیاتی تباہیوں کے باعث تعلیمی ادارے بند ہونےکی وجہ سے تعلیمی تعطل کے منفی نتائج بھی اپنے آگے کے کیرئیر میں بچوں کو ہی بھگتنے پڑتے ہیں.
اقوام متحدہ نے پہلےہی خبردار کردیا ہے کہ آگے آنے والی موسمیاتی تباہیوں کی وجہ سے لوگوں کو بھوک یا ہجرت میں سے ایک کا اننتخاب کرنا ہوگا اور ظاہر ہے ہجرت کی صورت میں بچوں کا حال اور مستقبل دونوں ہی خراب ہوسکتے ہیں.
مختلف معتبر ویب سائٹس سے جمع کیے گئے اعداد و شمار کے مطابق
*موسمیاتی تبدیلی سے پھیلنے والی 90 فیصد بیماریوں میں پانچ سال سے چھوٹے بچے فوری متاثر ہوتے ہیں
* آئندہ دو دہائیوں میں موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کی وجہ سے مزید ڈھائی کروڑ بچے بدخوراکی (میلنورشمنٹ) کا شکار ہونگے.
* آئندہ ایک دہائی میں موسمیاتی تبدیلی سے زیادہ متاثرہ خطوں میں ہر چار میں سے ایک بچہ پانی کی قلت کا شکار ہوگا
* کم و بیش سولہ کروڑ بچے موسمیاتی تبدیلی کے نتیجے میں ہونے والی طویل اور شدید خشک سالی سے متاثر ہونگے
* پونے چار کروڑ بچوں کے تعلیمی تسلسل میں موسمیاتی آفات کے باعث چند ماہ سے لیکر ایک سال تک کا حرج ہوسکتا ہے جس کے نتیجے میں آگے جاکر معیاری افرادی قوت کی تعداد کم ہوتی جائے گی
آئندہ دو دہائیوں میں موسمیاتی بحران کی وجہ سے تقریبا” پندرہ کروڑ لوگ جبری ہجرت پر مجبور ہونگے جن میں سے نصف تعداد بچوں کی ہوگی.
ان تمام ہولناک اثرات سے بچنے کا دارومدار ہمارے انفرادی اور اجتماعی اقدامات پرہے جن میں سرفہرست موسمیاتی تبدیلی کی سب سے بڑی وجہ کاربن کے فضاء میں اخراج کو کم سے کم کرنا ہے. اور ایسا ہم صرف اس یقین کی صورت میں کرسکتے ہیں کہ کرہ ارض کے علاوہ کوئی سیارہ رہائش کے قابل نہیں اور نہ ہی دور دور تک اس کے امکانات ہیں
پس ہمیں چاہیے کہ آج سے ہی
بجلی کی بچت کریں اور متبادل ذرائع توانائی کے استعمال کی طرف آئیں.
برقی آلات اور اوزاروں کا شدید ضرورت میں استعمال کریں
ایندھن سے چلنے والی سواریوں کا انتہائی مجبوری میں استعمال کریں
مالی گنجائش کے باوجود ذاتی سواری پر تھوڑی سی زحمت برداشت کرکے اجتماعی سواری (پبلک ٹرانسپورٹ) کو ترجیح دیں
کم فاصلے پیدل چل کر طے کریں
الغرض اپنے طرز زندگی کو ماحول دوست بنانے کی کوشش کرتے رہیں.
Discover more from Press for Peace Publications
Subscribe to get the latest posts sent to your email.