Tuesday, April 30
Shadow

بہاولپور میں اجنبی۔۔۔۔ تحریر- نقی اشرف

جب میں بچپن سے لڑکپن میں پہنچا تو بچوں کی کہانیوں اور رسائل سے آگے بڑھتے ہوئے ناول، افسانے اورشاعری پڑھی۔سفر نامے سے واقفیت ہوئی اور پھر جب تمام اصناف ِ ادب سے متعارف ہوا تو دو اصنافِ اد ب جن میں مجھے خصوصی دلچسیی ہونے لگی وہ افسانہ اور سفرنامہ تھا۔ گو کہ ڈاکٹر وز یر آغا کا ایک انشائیہ جو غالباََ ہجرت کے عنوان سے اُن کی کسی کتاب میں چھپا تھا،آج تک میرے ذہن سے محو نہ ہوسکنے کے باعث مجھے انشائیے کی طرف کھینچتا رہامگر تلاشِ بسیار کے باوجود مجھے انشائیہ پڑھنے کا موقع تو درکنار ڈاکٹر وزیر آغا کی وہ کتاب اور وہ انشائیہ بھی پھر سے نہ ملا۔

 افسانے سے میری دلچسپی اس کے اختصار کے باعث ہوئی کہ جب موقع ملا ایک ہی نشست میں پڑھ لیا مگر رفتہ رفتہ یہ مجھے اپنا رسیا کرتا گیا۔سفرنامہ میرے اندر چھپی جہاں گردی کی خواہش کی تسکین کا سامان رہا ہے مگر اب کسی جگہ کو بنفسِ نفیس جاکر دیکھنے میں بھی وہ مزا نہیں آتا جو زبان و بیان پر قادر ایک سفرنامہ نگار کی روادِ سفر پڑھ کر آتا ہے۔ گو کہ اب ٹیکنالوجی کی ترقی کے باعث ویڈیو اور ڈاکومینٹری کے ذریعے بھی کسی جگہ اور مُلک کی سیر کی جاسکتی ہے مگر میری ناقص رائے میں ایک سفرنامے کی اہمیت اس وجہ سے بہرحال کم نہیں ہوئی ہے۔

برطانیہ میں مقیم،پریس فار پیس فاونڈیشن کے روح رواں،ہمارے دیرینہ دوست ظفراقبال نے کچھ عرصہ قبل تذکرہ کیا کہ برطانیہ میں ہی مقیم مظہر اقبال مظہر کی کتاب جلد منظرعام پر آرہی ہے جو اُن کے بہاولپور میں مختصر قیام کی روداد ہے اور اُس میں اُن کے دو افسانے بھی شامل ہیں۔ ایک تجسس سا ہوا کہ کب ملے گی تو پڑھ پاؤں گا-مجھے ایک ندیدے بچے کی طرح ڈاک کے ذریعے ملنے کا ویسے ہی انتظار رہا جیسے بچپن میں بچوں کے رسائل کا ہوتا تھا۔ہم پرانے دور کی وہ آخری نشانیاں ہیں جو آج بھی کتابوں کی ہارڈ کاپی پڑھنے میں ہی آسانی محسوس کرتے ہیں۔

جب میں نے مظہراقبال مظہر کی تصنیف ’’بہاولپور میں اجنبی‘‘ کا مطالعہ کرنا شروع کیا تو اُن کی تحریر مجھے اپنے سحر میں مبتلا کرتی چلی گئی۔ میرا جی چاہا کہ اور کوئی کام کاج نہ ہو تو میں یہ کتاب ایک ہی نشست میں ختم کرلوں مگر عملی زندگی میں داخلے کے بعد یہ کب ممکن ہوتا ہے۔دل کی بات اور ہے کہ دل اب بھی ڈھونڈتا ہے فرصت کے وہی ر ات دن۔

گو کہ یہ مظہراقبال کی پہلی تصنیف ہے مگر اُن کی تحریر ایک پختہ کار لکھاری کی تحریر معلوم ہوتی ہے۔ تحریر کو اس نہج تک پہنچانے میں تعلیم،مطالعہ،اور مشق کا عمل دخل ضرور ہوتا ہے مگر اصل عطا وہ خداداد صلاحیت ہوتی ہے جس کے بغیردیگر عوامل بھی اپنا رنگ دکھا نہیں پاتے ہیں۔اُن کی یہ تصنیف اس بات کی غماز ہے کہ خدا نے اُنھیں اس صلاحیت سے خوب نوازا ہے۔اُن کی تحریر سے یہ واضح ہوتا ہے کہ اُنھوں نے بہاولپورر کو تھوڑا بہت دیکھا ہی نہیں بلکہ اُس کے بارے میں کافی پڑھا بھی ہے۔

 مظہراقبال مظہر الفاظ کو برتنے کے فن سے بخوبی آگاہ ہیں اور اُس پر مستزاد یہ کہ وہ حسِ ظرافت سے اپنی تحریر کو اور بھی خوشنما بناتے ہیں۔ ’’بہاولپور میں اجنبی‘‘ ایک خوبصورت تخلیق ہے،جس پرمظہر اقبال بجا طور پر مبارکباد اور داد و تحسین کے مستحق ہیں۔گو کہ اُن کی یہ تصنیف محض ایک سو اُنیس صفحات پر مشتمل ہے مگر ایک معیاری تصنیف ہزاروں غیر معیاری ضخیم کتابوں پر بھاری ہوتی ہے۔ ماضی میں ہم یہ رونا روتے تھے کہ ہمارے ہاں لکھنے والوں کی کمی ہے،رفتہ رفتہ وہ کمی نہ رہی۔خدا لگتی یہی ہے کہ اچھا لکھنے والوں کی اب بھی کمی ہے،ایسے میں یہ بات خوش آئندہے کہ مظہراقبال جیسے لکھاری وہ کمی پوری کرنے کی سعی کررہے ہیں۔

مجھے زندگی میں بہاولپور دیکھنے کا موقع نہیں ملا مگر یہ سفرنامہ پڑھنے کے بعد میرا بھی بہاولپور یاترا کو جی مچل رہا ہے۔ ایک اچھے سفرنامے کی یہ خاصیت ہوتی ہے کہ وہ جس جگہ اور مقام کے بارے میں لکھا گیا ہوتا ہے،قاری میں اُس جگہ اور مقام کو دیکھنے کی تحریک پیدا کرتا ہے۔یہ سوشل میڈیا کا دور ہے، فیس بُک پرمظہراقبال میری فرینڈ لسٹ میں موجود ہیں،اُن کے ایک دو پہاڑی افسانے،میں پڑھ سُن چکا ہوں مگر میری اُن سے کبھی بالمشافہ ملاقات نہیں ہوئی۔اُن کے دیگر بھائیوں سے بھی میری پرانی یاد اللہ ہے، یہ سب بھائی اپنی دھرتی سے پیار کرنے والے اور اپنے عوام کے زندہ دکھوں کو محسوس کرنے و الے ہیں۔

مظہراقبال مظہر نے جس خوبصورتی سے اپنی دھرتی کی محرومی و محکومی کو سرائیکی وسیب کے ساتھ جوڑ کر اس سفرنامے کا حصہ بنایا ہے وہ اُنھی کا خاصہ ہے۔ اُنھوں نے اپنی تہذیب و ثقافت اور ماں بولی کی مثالی ترجمانی اور اپنی دھرتی کی خوبصورت سفارت کاری کی ہے۔ اپنی تحریر کو زمان و مکان کی قید سے نکال کر ہر جگہ اور ہر مُلک اور مختلف ثقافتی پسِ منظرکے قارئین کے لیے قابلِ قبول اور باعثِ دلچسپی بنانا ایک اچھے لکھاری کی نشانی ہوتی ہے اور مظہراقبال مظہر میں یہ بخوبی بدرجہ اُتم موجودہے۔مظہر اقبال مظہر کے تحریر کردہ افسانے بھی جان دار ہیں۔یہ افسانے پڑھہ کر یہ گمان ہوتا ہے کہ یہ ضرور کسی جغادری ادیب کی تخلیق ہیں۔ مظہر اقبال مظہر کی اس مختصر تصنیف کی مثال چاول کی دیگ سے چند دانے اُٹھا کر دیکھنے کی سی ہے جس سے ہم اُن کی مجموعی تحریر کے بارے میں رائے قائم کرسکتے ہیں۔

 مجھے اُمید ہے مظہر اقبال مزید لکھیں گے،ہمیں اُن کے افسانوں کے مکمل مجموعے، مزیدسفرنامے اور دیگر تخلیقات پڑھنے کو ملیں گی۔’’بہاولپور میں اجنبی‘‘ ،اس ایک کتاب میں سفرنامہ اور ساتھ میں دو افسانے شامل کیا جانامجھے یوں لگا جیسے کسی کو کھانے کے بعد ڈیزرٹ پیش کیا جاتا ہے۔ممکن ہے یہ تصنیفی روایات کے برعکس ہو یا اہلِ علم کی رائے میں مناسب نہ ہو مگر مجھے اپنی دو پسندیدہ اصنافِ ادب ایک ساتھ دیکھ کر اچھا لگا۔ ’’بہاولپور میں اجنبی‘‘ کمپوزنگ کی غلطیوں سے پاک تصنیف ہے،یقیناََِ بہت باریک بینی سے اس کی پروف ریڈنگ ہوئی ہے۔اس کا کریڈٹ بہرحال ظفراقبال کو جاتا ہے،یہ اور بات کہ مظہر اقبال سے یہ کتاب لکھوانے کے لیے اُنھوں نے جو تحریک کی ہوگی اُس کا کریڈٹ ایک قاری اُن کو نہ دے پائے گا کہ دنیا بادشاہوں کو جانتی ہے،بادشاہ گروں کو نہیں۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ مظہراقبال ہمارے ’’اپنے آدمی‘‘ ہیں مگر اُن کی تصنیف پڑھ کر کچھ میں نے جولکھا ہے،اُنھیں محض اپنا آدمی سمجھ کر نہیں لکھا ہے۔ جو میں نے لکھا ہے،مصنف اس سے بڑھ کر الفاظ کے سزاوار ہیں مگر میرے جیسے سکول سے بھاگے ہوئے قاری کے لیے اس سے کچھ بڑھ کر کہاں ممکن ہے۔ اسے اپنی تصنیف پر میرا تبصرہ سمجھنے کی مصنف کو چنداں ضرورت نہیں ہے۔کتابوں پر تبصرہ اہل علم کو ذیبا ہے اور ہم کہ ٹھہرے ایک راندہ درگاہ عام قاری۔

پسِ تحریر: پریس فار پیس فاونڈیشن کے پلیٹ فارم سے ظفراقبال کا بے مثال  کا م اُن کے حوالے سے ایک الگ آرٹیکل کا متقاضی ہے۔ کبھی فرصت ملی اور زندگی نے مہلت دی تو یہ قرض بھی چکاؤں گا۔

تحریر: نقی اشرف

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

×

Send a message to us on WhatsApp

× Contact