بغیر ایم بی بی ایس ڈاکٹر والے ایک دیہاتی قصبہ میں ایک خوش بخت کو پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل ہوئی۔ اس قابل ذکر حصول یابی کے بعد تو اس کے مزاج میں اعتدال کی جگہ لاابالی نے گھر کر لی!
معمولی معمولی سی موضوع ِ گفتگو میں ہر خاص و عام کو زور سے وہ اپنا نام ڈاکٹر تیغ الخیری بتایا کرتا۔ لہذا! مزاح کی رو سے موقع کو غنیمت سمجھ کر آئے دن آس پڑوس کے لوگ گروپ بنا بنا کر نَو سند یافتہ ادبی ڈاکٹر کی چوکھٹ تک مبارکبادی کے لیے پہنچنے لگے مزید دوران ِ گفتگو کسی بہانے اس سے مکمل نام دریافت کیا کرتے۔ تیغ الخیری صاحب بھی متکبر ہو کر ‘ڈاکٹر’ کے اضافے کے ساتھ اپنا نام ادا کیا کرتے۔
تہوار کے موقعے پر محلے کے کھلنڈرا نوجوانوں کے گروپ نے اپنی گلی کوچے کو سجانے اور روشن کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس سلسلے میں انہوں نے چندے کی غرض سے باشندگان محلہ کے دروازوں کو کھٹکھٹانا شروع کیا۔ باری باری ہوتے ہوئے ہوشیار لڑکوں کا گروپ علاقے کے ایک ڈپلومہ ہولڈر ہومیوپیتھی ڈاکٹر حیران سمرقندی صاحب (ایم اے اردو) کے پاس پہنچا۔ ڈاکٹر صاحب جلدبازی میں گھرے سے نکلنے ہی والے تھے کہ چوکھٹ پر لڑکوں نے چندے کی رسید پر بغیر لفظ ‘ڈاکٹر’ کے محض ”جناب حیران سمرقندی” لکھ کر تھما دیا۔ انہوں نے دیکھا اور فوراً سو روپے دیتے ہوئے کہا۔
“میرے ہم سایہ کو بہت تیز بخار ہے۔ گھر والے کئی بار میری گھنٹی بجا چکے ہیں! بقیہ پچاس روپے فورا ً واپس کر دو تاکہ جلد جاکر اس کا بخار اتار دوں۔ “بقیہ رقم کی واپسی کے بعد لڑکے مزید چندہ کے لیے اگلے دروازے کی سمت بڑھے۔
اگلی باری بغل والی گلی میں ادبی ڈاکٹر جناب تیغ الخیری کے دروازے کی تھی۔ لڑکوں نے کھٹکھٹایا۔ صاحب نے دروازہ کھولا۔ ایک نوجوان نے رسید ان کے حوالے کیا۔ تیغی صاحب نے کرخت و بلند آواز کے ساتھ پوچھا۔”کس نامعقول نے یہ نام لکھا ہے؟
لڑکوں نے معصومیت سے پوچھا۔ ”کیا ہوا، سر؟” وہ بولے: ”میرا اسم گرامی ادھورا تحریر کیا ہوا ہے! چندہ نہیں دوں گا۔”
ایک تیز رفتار لڑکے نے فوراً موصوف کے ہاتھ سے رسید واپس لیکر دیکھا اور بولا۔ ”سر! ٹھیک تو ہے”
تیغ الخیری نے منہ بِسورتے ہوئے استفسار کیا۔ ”ڈاکٹر” کہاں لکھا ہوا ہے، کم بخت؟
گروپ لیڈر (پڑھا لکھا تھا) نے فوراً رسید اپنے ہاتھ میں لیکر چالاکی سے ساتھیوں کو آنکھ ماری۔ پھر ساتھیوں پر برستے ہوئے کہا۔ “کب تم لوگوں کو سمجھ آئے گی، نالائقو!؟”
نیز فوراً رسید پر نام کے آگے بطور الصاق چھوٹا سا ‘ڈاکٹر’ کا سابقہ لگایا۔ مزید تیغی صاحب کو شیریں آواز میں ”ڈاکٹر صاحب” کہہ کر مخاطب ہوتے ہوئے رسید ان کے حوالے کیا۔
اب ڈاکٹر تیغی صاحب نے بھی لہجے کو نرم کرتے ہوئے نمایاں مسکان کے ساتھ سو روپے کا نوٹ خوشی خوشی چندہ دے دیا۔
ذرا دور جاکر ساتھیوں نے گروپ لیڈر سے پوچھا۔
”ارے یار! اس ہومیوپیتھی ڈاکٹر کے نام کے آگے ہم لوگ ڈاکٹر لکھنا بھول گئے تھے۔ تو بقیہ رقم کے مطالبے کے علاوہ، وہ کچھ نہیں بولے۔ اور ‘ای مَسٹروا’ ویسی ہی معمولی سی بھول پر آنکھ لال پیلا کرنے لگا؟”
گروپ لیڈر نے جواب دیا۔ ہومیو پیتھی والے طبی ڈاکٹر اور پی ایچ ڈی والے ادبی ڈاکٹر کے اختصاص کا مشاہدہ ہم سب نے ابھی کیا۔
جگ ظاہر ہے کہ ادبی ڈاکٹر اور طبی ڈاکٹر میں کس کو”دولت کی بھوک اور ڈاکٹری کا بخار” نیز کس ڈاکٹر کو”نام کی بھوک” مزید لفظ ” ‘ڈاکٹر’ کا بخار ” رہتا ہے۔ تم لوگ تو میرے سمجھدار دوست بھی ہو اور زمانہ شناس بھی ۔
تحریر: علی شاہد دلکش
Discover more from Press for Peace Publications
Subscribe to get the latest posts sent to your email.