نورین عامر
پریس فار پیس کی جانب سے محترمہ عافیہ بزمی کی کتاب موصول ہوئے تقریباً مہینہ ہونے والا ہے۔ کتاب کا مطالعہ بھی کر چکی ہوں مگر جب کچھ لکھنے کا ارادہ کرتی ہوں سوچ میں گم ہو جاتی ہوں کہ ان افسانوں کی بابت کیا لکھا جائے کہ جن میں ہر جگہ محبت بکھری ہوئی ہے؟
عافیہ نے گلی کوچوں،محلوں،بازاروں، کالجوں، شہروں، راستوں اور پگڈنڈیوں میں محبت کا چراغاں کیا ہوا ہے اور ان کے کردار ان چراغوں کی روشنی میں اپنا مقدر ڈھونڈ لیتے ہیں۔
عافیہ کے افسانے پڑھتے ہوئے ادراک ہوتا ہے کہ یہ تمام کہانیاں فطری ہیں اور چونکہ فطرت کا تعلق براہ راست انسان کے باطن سے ہے تو یہ حالات و واقعات کے تصادم کا نتیجہ نہیں ہیں البتہ فطرت کا جھکاؤ اچھائی یا بدی کی جانب مائل ہوسکتا ہے لہذا فطرت شناسی سے انکار کی گنجائش نہیں نکلتی۔ یہی پہچان عافیہ کے افسانوں کی اساس ہے۔
کتاب میں موجود عافیہ بزمی کے افسانوں کا دور ان کی اپنی زندگی کے ان ایام کا عکاس ہے جب وہ خود طالب علم تھیں۔ اس لیے ان کے افسانوں میں بے ساختگی سی ہے جو تحریر کی خوبی کہلائی جا سکتی ہے ورنہ محبت کی وضاحت دینا ایک مشکل امر ہے۔ جو وضاحتوں میں الجھ جائیں وہ محروم رہ جاتے ہیں اور عافیہ کے افسانے قاری کو احساس محرومی سے نکال لاتے ہیں۔
در حقیقت’محبت کے چراغ‘ اشتہائے نفس و تسکین وجود سے کہیں پرے رہ کر دو ارواح کی باہمی سنگت کی تفہیم کا بیان ہے۔
میں عافیہ کو ان کی کتاب کی اشاعت پر دلی مبارکباد پیش کرتی ہوں۔ امید ہے ان کا قلم اسی روانی کے ساتھ ادب تخلیق کرتا رہے گا۔
Discover more from Press for Peace Publications
Subscribe to get the latest posts sent to your email.