ڈاکٹر صابر آفاقی
شاہ ہمدان
امیر کبیر سید علی ہمدانی شاہ ہمدان کے نام سے بھی مشہور ہیں ۔ آپ 714 ھجری میں ہمدان میں پیداہوئے اور 786 ھجری میں دارفانی سے کوچ فرما گئے ۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ کے جسد انور کو تاجکستان کے دارالخلافہ دوشنبہ کے نواحی شہر ختلان لایا گیا اور یہیں تدفین عمل میں آئی۔ اپنے دور کے زبردست عالم، صوفی، مصنف، مصلح اور سیاح تھے۔ آپ تقریباً سات سو ایرانی علماء ، صوفیاء اور ہنر مندوں کے ہمراہ774 ھجری میں کشمیر تشریف لائے۔ ان ایرانیوں کو وادی میں آباد کر دیا اور خود بدستور سیر و سیاحت کرتے رہے۔ آپ نے تین مرتبہ کشمیر کی سیاحت کی۔ آپ ہی کی کوششوں سے وادی میں 37 ہزار افراد حلقہ بگوش اسلام ہوئے۔
سری نگر میں آپ کی خانقاہ ’’خانقاہ معلیٰ‘‘ آج تک کشمیری مسلمانوں کا علمی و روحانی مرکز چلی آئی ہے۔ کشمیر کے باشندے آپ سے بڑی عقیدت رکھتے ہیں۔ آپ نے سو کے قریب تصانیف عربی و فارسی میں یادگار چھوڑی ہیں۔ ذخیرۃ الملوک ان کی اہم تصنیف ہے جس میں جہاں بانی و حکمرانی کے اصول بیان کیے گئے ہیں ۔علامہ اقبال کو شاہ ہمدان سے بے پناہ عقیدت تھی۔ اور آپ نے جہاں جاوید نامہ میں ملت کشمیر کو شاہ ہمدان کی زبانی جہاں بانی کا پیغام دیا وہاں ان کو زبردست خراج عقیدت بھی پیش کیا ہے۔ علامہ نے شاہ ہمدان کو مرشد کشور مینو نطیر کہا ہے اوران کو میر، درویش، اورمشیر سلاطین قرار دیا ہے۔
حق یہی ہے کہ کشمیر میں علم، صنعت، تہذیب اور دین حضرت امیر کبیر ہی کی کوششوں سے پھیلا.
خطہ را آں شاہ دریا آستیں
داد علم و صنعت و تہذیب دیں
(اقبال)
شیخ نور الدین ولی
شیخ نور الدین کا صوفیائے کشمیر میں بہت بڑا مقام ہے۔ آپ کشمیری شاعری کے بانیوں میں سمجھے جاتے ہیں ۔ 779 ھجری کو قصبہ کمبوہ کشمیر میں پیدا ہوئے اور 842 ھجری میں وفات پائی ۔ علامہ کے مورث اعلیٰ بابا لولی حج کے مرشد بابا نصر الدین متوفی ھجری855 ؍451 عیسوی شیخ نورالدین کے خلیفہ مجاز تھے۔یہ تفاصیل تو نہیں مل سکیں کہ حضرت علامہ نے شیخ نور الدین ولی سے کس حد تک استفادۂ معنوی کیا۔ البتہ علامہ کے اپنے بھائی کے نام خط سے معلوم ہوتا کہ آپ حضرت شیخ کو عزت واحترام کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔کیا عجب اگر علامہ نے خودی و خود شناسی کا نظریہ بھی اسی درویش کشمیر اور مرشد روشن ضمیر سے لیا ہو۔ کیونکہ علامہ کا خودی سے متعلق سارا کلام شیخ نور الدین ولی کے اس شعر کی تفسیر و تشریح معلوم ہوتا ہے۔ شیخ نورالدین ولی فرماتے ہیں:
سیدہ وندہ رہتھ صاحب گورم
ادہ پرزہ نو وم پنن روہ
میں نے علائق کی سب الجھنیں چھوڑ کر خدا کی تلاش کی پھر اپنی حقیقت پہچان لی۔
ملا محمد طاہر غنی
حضرت ملا سرینگر کے باشندہ اور علوم متداولہ میں زبردست مہارت رکھتے تھے۔ فارسی غزل کا غنی جیسا بڑا شاعر کشمیر نے آج تک پیدا نہیں کیا۔ فلسفہ میں انھوں نے ملا محسن فانی(متوفی ۱۰۸۲ھ) کے آگے زانوئے تلمذ تہ کیا تھا۔غنی کی تاریخ پیدائش تخمیناً ۱۰۱۹ھ۔۱۰۱۵ھ کے درمیان مقرر کی جا سکتی ہے۔ ۱۰۸۲ھ میں فوت ہوئے۔ ان کا فارسی کلام برصغیر پاک و ہند کے علاوہ افغانستان، ایران، ترکی اور سویت یونین میں بھی ذوق و شوق کے ساتھ پڑھا جاتا ہے۔
علامہ اقبال غنی کے ہمیشہ مداح رہے۔ وہ ان کی شخصیت، کردار، اور فن سے زبردست متاثر تھے۔ آپ نے جا بجا اپنے کلام میں اشعار غنی کو استعمال کیا ہے۔ اور غنی کشمیری کے عنوان سے ایک مستقل نظم میں ان کو خراج عقیدت بھی پیش کیا ہے۔جاویدنامہ میں علامہ نے غنی کی زبان سے اہل کشمیر کو انقلاب کا پیغام بھی دیا ہے۔ گرامی کے نام اپنے خط میں علامہ مزار غنی کشمیری پر حاضری دینے کا اشتیاق بھی بیان کرتے ہیں۔ مجھے کسی کتاب سے تو شہادت نہیں ملی لیکن یقین ہے کہ ۱۹۲۱ء کے سفرکشمیر کے موقع پر علامہ نے اپنے محبوب و پسندیدہ کشمیری شاعر غنی کے مزارپر حاضری دی ہوگی۔
میاں محمد بخش
آپ مشہور صوفی اورپنجابی کے قادر الکلام شاعر تھے۔ میاں صاحب کا تعلق گوجروں کی گوت پسوال سے تھا۔ وہ میرپور آزادکشمیر کے نزدیک کھڑی شرف میں ۱۸۲۶ء میں پیداہوئے۔ ان کے والد میاں شمس الدین پیرا شاہ غازی (معروف دمڑی والا) کے خلیفۂ مجاز تھے۔ والد کی وفات کے بعد میاں محمد بخش سجادہ نشیں ہوئے۔میاں صاحب چھوٹی بڑی درجن کتابوں کے مصنف ہیں۔ لیکن ان کی صوفیانہ مثنوی سیف الملوک کو پوٹھو ہاری زبان کی مثنوی معنوی سمجھنا چاہیے۔ یہ مثنوی پنجاب، سرحد، کشمیر میں بے حد مقبول ہے۔ آپ ۱۹۰۷ء میں فوت ہوئے اور کھڑی شریف میں دفن ہوئے۔ یہاں ان کا عرس ہوتا ہے۔ جس میں ہزاروں کی تعداد میں عقیدت مند حاضری دیتے ہیں۔علامہ کی کسی تحریر سے شہادت نہیں مل سکی کہ ان کو حضرت میاں صاحب سے عقیدت تھی۔ البتہ صاحب زادہ میاں محمد سکندر کی تصنیف عارف کھڑی میں دو واقعے درج ہیں جن سے اندازہ ہوتا ہے کہ حضرت میاں محمد بخش نے علامہ کے بڑا آدمی بننے کی بشارت دی تھی۔ اور یہ کہ علامہ سیف الملوک کو سن کر اکثر اشکبار ہو جایا کرتے تھے اورمیاں صاحب کے ولی کامل اور شاعر عظیم ہونے کا اقرار فرمایا کرتے تھے۔
میاں محمد بخش نے علامہ کو دیکھ کر کیا کہا تھا۔ اس کی تفصیل ہم عارف کھڑی سے نقل کرتے ہیں “ایک مرتبہ آپ شہر لاہور میں قیام پذیر تھے کہ حضرت علامہ اقبال کے والد، جو اولیاء اللہ خاص طورپر حضرت میاں صاحب کے ساتھ بڑی عقیدت رکھتے تھے اقبال کو جو اس وقت بچے تھے، لے کر دعا و برکت کے لیے حضرت میاں صاحب کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ حصرت میاں صاحب نے اقبال کے سر پر نہایت شفقت و پیار سے ہاتھ پھیرا اور ان کے والد کی طرف مخاطب ہو کر فرمایا: یہ بچہ امت محمدی کا ایک نہایت درد منددل ہوگا۔ اورمسلمانوں کے لیے ایک بہت بڑا سرمایہ ثابت ہوگا۔ یہ انتہائی ذہین اورقابل ہوگا اور شعر و سخن کے افق پر آفتاب بن کر چمکے گا۔ اس لیے لازم ہے کہ اس کی تعلیم و تربیت اور دیکھ بھال میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھیں۔
اقبال کے والد محترم نے حضرت میاں صاحب سے عرض کی: یا حضرت یہ بہت ضدی ہے۔ اس پر حضرت میاں نے فرمایا: بڑے لوگ عموماًضدی ہوا کرتے ہیں۔ آپ لوگ جس چیز کو ضد کہتے ہیں دراصل یہ دوسروں سے اپنی بات منوانے کا جوہر ہوتا ہے۔ یہ ملکہ انھیں قدرت کی طرف سے ودیعت ہوتا ہے اور آپ لوگ اسے ضد کا نام دیتے ہیں۔ بچے کی اس بات پر آپ فکرمند نہ ہوں۔ یہ بچہ ایک دن بڑا آدمی بنے گا اور تمام خاندان بلکہ ملت اسلامیہ کی عزت و وقار کا باعث ہوگا۔ آپ اس کی تعلیم و تربیت پر خاص توجہ دیں۔ اورحضرت اقبال کو کچھ شیرینی دے کر رخصت کیا۔ حیرت ہوتی ہے کہ پیشگوئی کس طرح حرف بہ حرف پوری ہوئی۔ دوسرا واقعہ یہ ہے۔ میاں محمد سکندر صاحب لکھتے ہیں “تحصیل گوجر خاں علاقہ پوٹھوہار کے (ایک) صاحب جو اب کافی عمر رسیدہ ہو چکے ہیں۔ایام جوانی میں بڑے خوش الحان نعت خواں تھے اور اب بھی حضرت میاں صاحب کا کلام نہایت شوق و درد سے پڑھا کرتے ہیں۔ انھوں نے ہمیں بتایا کہ ایک دفعہ لاہورمیں جب کہ وہ وہاں ملازمت کے سلسلے میں قیام پذیر تھے ایک جلسے میں نعت خوانی کے لیے بلائے گئے۔ جب وہ سٹیج پر آئے تو دیکھا کہ اقبال بھی وہاں تشریف فرما ہیں۔ ایک اردو نعت پڑھنے کے بعد میں نے حضرت میاں صاحب کی تصنیف سیف الملوک کا کلام پڑھنا شروع کیا……. وہ کہتے ہیں کہ حضرت میاں صاحب کا کلام پڑھنے کے دوران میں نے دیکھا کہ تمام جلسے پر وجد طاری تھا۔ جب میں نے حضرت اقبال کی طرف نظر کی تو دیکھتاہوں کہ وہ نہایت غور سے حضرت میاں صاحب کا کلام سن رہے ہیں اوران پر رقت طاری تھی۔ جب میں نے سیف الملوک پڑھنا ختم کیا تو حضرت اقبال نے مجھے پاس بلا کر فرمائش کی کہ تھوڑا اورسیف الملوک سناؤ۔افسوس مصنف سیف الملوک اب اس دنیا میں موجود نہیں ورنہ میں ان کے ہاتھ چومتا۔
جب میں نے حضرت علامہ اقبال پر حضرت میاں صاحب کے کلام کا یہ اثر دیکھا تو ہمت کرکے آپ سے عرض کی۔ جناب اگر پسند کریں تو کچھ اور شعر سیف الملوک کے سناؤں۔ اس پر حضرت علامہ اقبال نے فرمایا کہ ضرورضرور سناؤ۔ اس کے بعد جب میں نے اہل جلسہ کی طرف نگاہ کی تو میں نے محسوس کیا کہ اہل جلسہ کے دلوں میں بھی حضرت میاں صاحب کے کلام سے ایک عجیب تڑپ پیداہوگئی ہے اور ان کی تشنگی ابھی باقی ہے۔ پھر میں نے حضرت میاں صاحب کے مزید اشعار پڑھے۔
اشعار پڑھنے کے بعد میں نے حضرت اقبال کی طرف دیکھا تو ان کی آنکھیں پرنم تھیں اور پاس بیٹھے ہوئے ایک صاحب سے فرما رہے تھے کہ حضرت میاں صاحب کے کلام میں انتہا کا سوز ہے۔
علامہ اورمیاں صاحب دونوں مولانا رومی کو اپنا مرشد معنوی مانتے ہیں۔ دونوں نے ہمت وشجاعت کا پیغام دیا ہے اورسعی و کوشش کی اہمیت پر زور دیا ہے۔ اگرکلام اقبال اورسیف الملوک کا تقابلی مطالعہ کی جائے تو بعض اشعار کا مفہوم میاں صاحب کے بعض اشعار کے مفہوم سے ملتا جلتا ہے۔ چونکہ دونوں صاحب دل بزرگ تھے اس لیے اگران کی پرواز تخیل میں یکسانیت پائی جاتی ہے تو اس میں تعجب کی کوئی بات نہیں۔ بطورمثال یہ اشعار ملاحظہ فرمائیے :
بال چراغ عشق دا میرا روشن کر دے سیناں
دل دے دیوے دی روشنائی جاوے وچ زمیناں
میاں محمد بخش
عشق کا چراغ جلا کر میرا سینہ روشن کر دے۔ میرے دل کے چراغ کی روشنی دور دور تک پھیلے۔
خدایا آرزو میری یہی ہے
میرا نور بصیرت عام کر دے
[اقبال]
دل وچ کرے دلیل شہزادہ کی کم کر سن تارے
آپ تخت تو ڈھیندے جاندے ہو غریب پیجارے
میاں محمد بخش
شہزادہ دل میں سوچ رہا تھا کہ تارے مجھے کیا نفع پہنچا سکتے ہیں۔ وہ تو خود ہی مجبور اور بے بس ہو کر ٹوٹتے اور گرتے ہیں۔
ستارہ کیا میری تقدیر کی خبر دے گا
وہ خود فرانی افلاک میں ہے خوار و زبوں
اقبال
مولانا محمد انور شاہ کشمیری
لولاب کشمیر کا مشہور خطہ ہے۔ علامہ نے وادی لولاب کو مخاطب کرکے ایک نظم کہی ہے۔ مولانا انور شاہ اسی وادی کے گاؤںودوان میں ۱۸۷۵ء میں پیداہوئے۔ ابتدائی اسلامی تعلیم کے حصول کے بعد آپ نے شیخ الہند مولانا محمود الحسن سے احادیث کی کتابیں پڑھیں۔ آپ نابغۂ روزگار تھے اور قابل رشک ذہانت کے مالک تھے۔ آپ دیوبند میں دس سال تک صدر المدرسین رہے۔ عربی میں کئی تصانیف یادگار چھوڑی ہیں اور متعدد کتب پر حواشی تحریر کیے ہیں۔ مغلوں کے بعد کشمیر نے اتنا بڑا عالم و مصنف پیدانہیں کیا۔ آپ کا انتقال ۱۹۳۳ء میں ہوا۔
علامہ اقبال کو مولانا انورشاہ سے بڑی ارادت تھی۔ آپ نے دو بار مولانا سے ملاقات کی تھی اور خط و کتابت کے ذریعے بھی آپ فلسفہ کے مشکل مسائل سے متعلق استفسار کیا کرتے تھے۔
ڈاکٹر عبداللہ چغتائی کی روایت ہے کہ جب ۱۹۲۱ء میں جمعیت علمائے ہند کا جلسہ لاہورمیں منعقد ہوا تو حسن اتفاق سے اس جلسے میں راقم کی معرفت اقبال کا تعارف حضرت انور شاہ سے ہوا۔
1925
میں انجمن خدام الدین (لاہور) کا جلسہ ہوا تو مولانا نے بھی اسی میں شمولیت فرمائی۔ علامہ نے اس موقع پر آپ کے دوستوں کو کھانے پر مدعو کیا تھا۔ علامہ کا اصل رقعہ یہ ہے:
مخدوم و مکرم حضرت قبلہ مولانا”
السلام علیکم و رحمۃ اللہ مجھے ماسٹر عبداللہ سے ابھی معلوم ہوا ہے کہ آپ انجمن خدام الدین کے جلسے میں تشریف لائے ہیں اورایک دو روز قیام فرمائیں گے۔ میں اسے اپنی سعادت تصور کروں گا اگر آپ کل شام اپنے دیرینہ مخلص کے ہاں کھانا کھائیں ……. مجھے امید ہے کہ جناب اس عریضے کو شرف قبولیت بخشیں گے۔ آپ کو قیام گاہ سے لانے کے لیے سواری یہاں سے بھیچ دی جائے گی”
معلوم نہیں مولانا علامہ کے ہاں کھانا کھانے تشریف لے گئے یا نہیں تاہم اس رقعہ سے ایک تو علامہ کی کیفیت کا بخوبی اظہار ہوجاتا ہے اور دوسرے کہ دونوں عظیم فرزندان کشمیر کے پہلے سے ہی تعلقات استوار ہو چکے تھے۔
علامہ نے مولانا سے مشکلات فلسفہ خاص کرکے زمان و مکان اور حدوث و قدم کے مباحث میں خاطر خواہ استفادہ کیا تھا۔
نفحۃ العنبر کے مولف مولانا محمد یوسف بنوری کا کہنا ہے کہ علامہ نے ۱۳۴۸ھ (۱۹۲۹ئ) میں لاہورمیں ملاقات کی اورمشکلات قرآن اوردقائق فلسفہ پر سوال کرکے اطمینان بخش جواب سنے تھے۔
مولانا محمد قادری لائل پوری لکھتے ہیں کہ مولانا محمد انور شاہ نے ان سے فرمایا کہ کسی مولوی نے مجھ سے اقبال سے بڑھ کر استفادہ نہیں کیا۔
https://pressforpeace.org.uk/%d8%aa%d8%ad%d9%82%db%8c%d9%82-%d9%88-%d8%aa%d8%b5%d9%86%db%8c%d9%81/%d8%a7%d9%82%d8%a8%d8%a7%d9%84-%d8%a7%d9%88%d8%b1-%d8%b1%d8%ac%d8%a7%d9%84-%da%a9%d8%b4%d9%85%db%8c%d8%b1/