انسانی فطرت درخت کی مانند ہے جو مٹی سے خوراک کشید کرتا ہے اور ہوا سے سانس ۔ دونوں ( مٹی اور ہوا) سے اٹوٹ رشتہ ہی اس کی زندگی اور بقا کا ضامن ٹھہرتا ہے۔ اسی طرح زندگی اور بقاء کی کشمکش انسان کو دیارِ غیر کی فضاؤں میں بھی اپنی مٹی سے محبت پر مجبور کیے رکھتی ہے۔ جس کا اظہار کبھی نظریات کی صورت اختیار کرتا ہے اور کبھی جذبات کی صورت میں اور اگر انسان تخلیقی صلاحیت سے مالا مال ہو تو یہ دونوں رنگ اس کی تحریر میں جھلکتے دکھائی دیتے ہیں۔
پاکستان سے تعلق رکھنے والے ہسپانیہ میں مقیم عرفان مجید راجہ کے ہاں یہ دونوں رنگ ان کے افسانوں میں دکھائی دیتے ہیں۔
“تیسری دستک” ایک ایسا افسانوی جس میں ایک دور اور ایک تہذیب کو محفوظ کر دیا گیا ہے۔ یہ تہذیب پیری مریدی سے متعلقہ ہو یا رنگین دنیا سے ، دیہاتی زندگی کے رنگ ہوں یا ذات اور نسل کا شکار طبقہ کے مسائل، توہم پرستی ہو یا خانگی سیاست، غریبوں کی مشقت سے بھرپور مسائل کا شکار زندگی ہو یا منافقت کے روپ، خاندان کو خوشحال بنانے والے بیرونِ ملک بقا کی جنگ لڑتے افراد یا قسمت کے روپ ، آگہی کے عذاب ہوں یا سسکتے جذبات غرض زندگی کا ہر رنگ مصنف “عرفان مجید راجہ” نے افسانوی مجموعے” تیسری دستک” میں سمو دیا ہے۔
” تیسری دستک” میں موجود 22 افسانے موضوعات کے تنوع، پرکشش عنوانات، زبان وبیان کی روانی اور پرکشش و پختہ اسلوب کی بنا پر قاری کے دل ودماغ پر دیر پا اثرات مرتب کرنے کا باعث ٹھہرتے ہیں۔
“تیسری دستک” کے افسانوں کی پہلی خوبی جو قاری کو ساحرانہ انداز میں اپنے ساتھ جڑے رہنے پر مجبور کر دیتی ہے وہ افسانوں کے پرتجسس ، پرکشش اور شاعرانہ عنوانات ہیں۔ “روشنی”، “بھوت پریت”،”کرگس”، “بجلی”، “شمی”، “ازاربند”، “شب قدر ” اور “انتہائے شوق کیا ہے؟ ” اگر اپنے اندر تجسّس سموئے ہوئے ہیں تو “قول آبرو کا تھا کہ نہ جاؤں گا اس گلی” ، “ثبات اک تغیر کو ہے زمانے میں”، “خواب کملائی ہوئی آنکھوں کے آزار ہوا کرتے ہیں” اور “نہ کسی سے ہمیں حجاب رہا” جیسے عنوانات اپنے شاعرانہ رنگ اور موسیقانہ انداز کی بنا پر ناصرف قاری کو افسانے کی قرأت کی ترغیب دیتے ہیں بلکہ مکمل شعر کی تلاش پر بھی مجبور کر دیتے ہیں۔
افسانوں میں کہانی حال اور ماضی کی فلیش بیک تکنیک کے ساتھ آگے بڑھتے ہوئے جب اختتام پر پہنچتی ہے تو چونکا دینے والے اختتام قاری کی قوتِ بیان کو کچھ لمحات کے لیے سلب کر لیتا ہے۔ کچھ توقف کے بعد قاری ناصرف حواس کی دنیا میں واپس آتا ہے بلکہ اس سوچ، غم اور تکلیف کو بیان کرنے کے قابل ہوپاتا ہے جو مصنف کا مطمعٔ نظر تھا۔ یہ انداز “تیسری دستک”، “انتہائے شوق کیا ہے؟”، “اَزار بند”، “دیہاڑی دار”، “خواب کملائی ہوئی آنکھوں کے آزار ہوا کرتے ہیں”، “شمی”، “چالیسویں چادر” اور “ہمارے وقتوں میں” نمایاں ہے۔
” روشنی”، “بجلی”، “بہادر شیر جان”، “شمی” جیسے افسانے جہاں پرتجسٌس عنوان کی بنا پر توجہ مبذول کرواتے ہیں وہیں ان کرداری افسانوں میں موجود کردار بدلے کی آگ، خانگی سیاست، خوش فہمیوں میں گھرے نادانوں اور غلط فہمی اور اپنی ذمہ داریوں سے فرار کا شکار ہونے والوں کی عمدہ عکاسی ہیں جنھیں مصنف کے قلم کی روانی عمدہ منظر کشی اور معیاری زبان نے انفرادیت عطا کی ہے۔
حلیہ نگاری “تیسری دستک “کے افسانوں کی نمایاں خصوصیت ہے۔”تھا قول آبرو کا نہ جاؤں گا اس گلی” میں تبسم رعنا کی حلیہ نگاری۔ “روشنی” میں “چاچا خیرو” کی ، “بھوت پریت” میں “آسیہ” کی ، “تیسری دستک” میں “کیتھی”، “انتہائے شوق کیا ہے؟ “میں “ماریا” غرض ہر افسانے میں کرداروں کی حلیہ نگاری قاری کے ذہن میں نقش کو گہرا کرنے میں خاص اہمیت رکھتی ہے۔
منظر نگاری تیسری دستک کا ایسا وصف ہے جس نے مناظر کو بصری روپ عطا کر دیا ہے۔ جزیات نگاری نے ان مناظر کو متحرک تصاویر کی صورت قرطاس کی زینت بنا دیا ہے ۔
“تیسری دستک” میں افسانوں کی زبان کی شائستگی اور اسلوبِ بیان کی عمدگی ہی افسانوں کو فحاشی سے دور کرتے ہوئے معیاری بناتی ہے۔ علامتی زبان و بیان “تیسری دستک” کا خاصہ ہے جس نے بیان کی مشکل کو آسان بنا دیا ہے۔ بیرونِ ملک رہائش پذیر افراد کے لیے وطن کی تہذیب، زبان، ماحول، تہوار، روایات، سوچ اور نظریات اس قدر اہمیت اختیار کر جاتے ہیں کہ مصنف کی تحریر میں ان کی جھلک ناگزیر ہو جاتی ہے۔ اس کے علاوہ نئی سرزمین کی زبان اور ماحول سے دامن بچانا ممکن نہیں ہو پاتا۔ عرفان مجید راجہ کے ہاں “تیسری دستک” کے افسانوں میں یہ دونوں رنگ نمایاں اور تحریر کی انفرادیت ہیں۔
” تیسری دستک” میں موجود ہر افسانہ نفسیاتی پہلوؤں اور گرہوں کی عمدہ عکاسی کرتا ہے۔ اگرچہ “تیسری دستک” کے متعدد افسانوں میں جنسی رنگ نمایاں ہے لیکن اختتام پر موجود پیغام تلذذ پرستی سے کوسوں دور لے جاتے ہوئے دماغ کو تفکرات اور دل کو غم سے بھر دیتا ہے۔
“مینڈکی کو پانی میں زکام ” مضمون نما ایسی تحریر ہے جس میں بات سے بات نکالی گئی ہے اور اس کے ذریعے محاورے معاشرتی سوچ اور نظریات کو عمدگی سے پیش کیا گیا ہے اس تحریر نے مشتاق احمد یوسفی کی یاد تازہ کر دی۔
مجموعی طور پر افسانوی ادب کی دنیا میں افسانوی مجموعہ “تیسری دستک” منفرد آواز کی حیثیت رکھتا ہے جس کے موضوعات کا تنوع، زبان کی شائستگی، بیان کی عمدگی، بھرپور منظر نگاری، بہترین جزیات نگاری، پرکشش عنوانات، بھرپور کردار نگاری اور کرداروں کی عمدہ حلیہ نگاری ایسی خصوصیات ہیں جو افسانوں کو انفرادیت بخشتے ہوئے قاری کے دل ودماغ پر گہرے اثرات مرتب کرنے کا باعث ہیں۔
مصنف عرفان مجید راجہ صاحب کو ان کی تخلیقی کاوش تیسری دستک کی اشاعت پر مبارک ہو۔ اللّٰه تعالیٰ کامیابیوں کا سلسلہ دراز فرمائے۔
(خالدہ پروین)
Discover more from Press for Peace Publications
Subscribe to get the latest posts sent to your email.