آغوش صدف، تاثرات: مہوش اسد شیخ

ecee423d 4a0d 452e adc6 e3808bc46ef1 1
ecee423d 4a0d 452e adc6 e3808bc46ef1 1
ecee423d 4a0d 452e adc6 e3808bc46ef1 1

آغوش صدف، تاثرات: مہوش اسد شیخ

آغوش صدف
شاعر : پروفیسر خالد بزمی

پروفیسر خالد بزمی

تاثرات :مہوش اسد شیخ

مہوش اسد شیخ

اس گرم موسم میں ٹھنڈے ٹھنڈے دلکش  رنگوں سے سجی کتاب ہاتھ میں آتے ہی راحت کا احساس ہوا۔ سیپ کی آغوش میں سچے موتی، سرورق بہت دیدہ زیب ہے۔ سرورق پر لکھے جناب بزمی صاحب کے شعر نے سرورق کی شان مزید بڑھا دی۔
اب دہلی اور لکھنو ماضی کی ہے بات
آج  ادب  کا گلکدہ  ہے  بزمی ! لاہور
یہ شاعری کا مجموعہ جناب محترم پروفیسر خالد بزمی مرحوم کا ہے جو کہ ان کی بیٹی عافیہ بزمی کی انتھک کوششوں اور باپ سے بے پناہ محبت کے باعث منظر عام پر آیا ہے ۔ کتاب کا انتساب انھوں نے اپنے پیارے بابا کے نام کیا ہے ۔
لکھتی ہیں :” ابو جی کا کلام، جان سے پیارے ابو جی کے نام! ان کی شفقتوں اور محبتوں میں گزرے ہر اس لمحے، ہر گھڑی، ہر پل اور ہر ساعت کے نام! جو آج انمول یادیں بن کر میری زندگی کا قیمتی سرمایہ ہیں۔ “
پیش لفظ کے ہر ہر لفظ سے باپ اور بیٹی کی لازوال محبت چھلکتی محسوس ہوتی ہے۔ ان کی محنت و محبت دیکھتے ہوئے، کیسے انھوں نے کٹھن مراحل سے گزر کر اپنے والد صاحب کا کلام پبلش کروایا ہے، دل سے دعا نکلتی ہے اللہ پاک ایسی بیٹی سب کو دے۔ کاش میری اولاد میں بھی ایسا جذبہ ہو میرا نام، میرا کام میرے بعد بھی منظر عام پر آئے آمین ثم آمین
*************


شاعری کے بارے میں میرا خیال تھا، شاعری وہ ہے جس میں اپنے خیالات کا برملا اظہار کیا جا سکے، جسے محسوس کیا جا سکے جسے گنگنایا جا سکے۔ جو جذبات کی ترجمانی کر سکے ۔ کسی دور میں، میں بھی شاعری کرتی تھی لیکن وزن سے خارج ۔۔۔ البتہ میری شاعری میں روانی تھی جذبات تھے مگر عروض کا نام و نشان نہ تھا۔ پھر میں نے شاعری کے عروض سیکھے سیکھنے کے بعد اسے خیر باد کہہ دیا کہ اب مشکل یہ آن پڑی تھی کہ جذبات کا اظہار کرتی تو وزن کہیں پیچھے رہ جاتے، وزن کا خیال کرتی تو جذبات و خیالات کا شیرازہ بکھر جاتا۔ شاعری گنگنانے لائق نہ رہتی تب میں نے اس صنف سے ہاتھ اٹھا لینے میں بہتری جانی ہاں البتہ بچوں کے لیے کبھی کبھار کوئی نظم لکھ لیتی ہوں ۔
خالد بزمی صاحب بھی پہلے شاعری کی پابندیاں پسند نہیں فرماتے تھے لیکن آہستہ آہستہ اس کے قائل ہو گئے اور حدود میں رہ کر کیا کمال لکھا۔ یہ مجموعہ ان کی 118 غزلوں پر مشتمل ہے۔ ہر غزل ایک سے بڑھ کر ایک ہے۔ میری سمجھ میں نہیں آ رہا اس تبصرے میں ان کی کس غزل کا ذکر کروں کسے پیچھے چھوڑوں ۔
ان کے قلم کی روانی کے اظہار کے واسطے یہاں کچھ اشعار درج کرنا چاہوں گی۔
*میرے دل نے ہر آہٹ پر یہ سمجھا، وہ آئے ہیں
میں نے ان کی یاد میں، کتنے دھوکے کھائے ہیں

اس کو میرے دل کی حالت ابتک بھی معلوم نہیں
میں نے جس کے پیار کے نغمے ہر محفل میں گائے ہیں

*یہ سر نہیں ہر در پہ خمیدہ، اسے کہنا
ہونٹوں پہ ہے تیرا ہی قصیدہ، اسے کہنا

*آنکھیں اداس ہوں تو نظاروں کو کیا خبر
دل میں جو تیرگی ہے ستاروں کو کیا خبر

بزمی!  کس   کس کو  ملا  فہمِ شاعری
اس  نعمت شعور کی ساروں کو کیا خبر

*اس نئے دور کے اطوار سے ڈر لگتا ہے
مجھ کو حالات کی رفتار سے ڈر لگتا ہے

نئے حالات نہ جانے کہاں لے جائیں ہمیں
مجھ کو تو وقت کی یلغار سے ڈر لگتا ہے

*مری وفاؤں کا انکار کر سکو تو کرو
غلط خیال پہ اصرار کر سکو تو کرو

جفا کے بدلے کسی سے وفا کرو تو سہی
جہاں میں تم بھی یہ ایثار کر سکو تو کرو

*شہر دل میں آج پھر رسم وفا جاری کرو
اپنے تو اپنے ہیں غیروں کی بھی دلداری کرو

اک امانت یہ قلم بزمی!  تمھارے پاس ہے
چاہو تو کانٹے بکھیرو، چاہو گلکاری کرو
**********

یہ سائیڈ ٹیبل پر یا اپنے اسٹڈی ٹیبل پر رکھنے کی کتاب ہے، ہر روز دو چار غزلوں کے اشعار کو گنگنایا جائے، دھیرے دھیرے لطف اٹھایا جائے۔
حسب روایت پریس فار پیس نے شاندار غزلوں کو بہت عمدگی سے شائع کیا ہے۔ پریس فار پیس کی ٹیم کا کام واقعی سراہے جانے کے قابل ہے ۔
کتاب کے حصول کے لیے ادارے یا عافیہ بزمی صاحبہ سے رابطہ کیا جا سکتا ہے ۔
شکریہ


Discover more from Press for Peace Publications

Subscribe to get the latest posts sent to your email.