کتاب :- اسیر ماضی
مصنف :- حافظ ذیشان یاسین
مبصر:- فرح ناز فرح

کرید تا ہے بہت راکھ میرے ماضی کی
میں چوک جاؤں تو وہ انگلیاں جلا لے گا

آج میرے ہاتھوں میں پریس فار پیس پبلی کیشنز کا ایک اور کارنامہ موجود ہے ” اسیر ماضی ” کی صورت میں جو  جناب حافظ ذیشان یاسین کی تخلیق ہے ۔کتاب کے سارے افسانوں کی علامتیں آپ کو سرورق پر ہی نظر آجائیں گی لیکن چونکہ افسانے بھی علامتی ہیں تو اس کے لئے کتاب کا مطالعہ ضروری ہے ۔
آج کا دن کل ماضی بن جائے گا، اگر ہم ایک خوشگوار مستقبل کی طرف جارہے ہوتے تو شاید ماضی کو یاد کرتے وقت لفظوں میں اتنی اداسی نہ ہوتی ۔ہم نے بہت خوب صورت وقت ماضی کے حوالے کردیا ۔
انتساب مختصر مگر مکمل کتاب کا خلاصہ ہے۔ لکھاری ویسے ہی بہت حساس ہوتا ہے اور مصنف کا قلم تو بعض جگہ سسکیاں بھرتا محسوس ہوا۔ کتاب کھولتے ہی آپ کو محسوس ہو گا کہ آپ کسی ٹرین میں بیٹھے ہیں اور کھڑکی سے وہ مناظر جو اب دور گزشتہ کا حصہ بن چکے دیکھ رہے ہیں ،جب جگنوؤں ، تتلیوں ، چہچہاتے پرندوں سے جنگل آباد تھے۔ جب  ذات ومفاد کے لئے  چہچہاتے پرندوں سے ان کے آشیانے چھین لئے جائیں ،شجر سایہ داروں کو کاٹ کر ویرانے میدان چھوڑ دئے جائیں تو وہاں صرف ریت ہی اڑتی نظر آئے گی ۔
اسیر ماضی کہنے کو ایک کتاب ہے لیکن جیسے جیسے آپ پڑھتے جائیں گے آپ کو محسوس ہوگا کہ آپ کوئی پینٹنگ دیکھ رہے ہیں ۔لفظوں سے مناظر پینٹ کرنا اور اس طرح کہ کئی دفعہ آپ خود کو اس پینٹنگ کا حصہ سمجھنے لگیں یہ مصنف کا کمال ہنر ہے۔
حافظ ذیشان یاسین صاحب ہر موسم کے ہر پہر کے مزاج سے اس حد تک آشنا ہیں کہ اداس شام کا درد پڑھتے ہوئے رگ و پے میں اتر تا محسوس ہوتا ہے تو کبھی رات کا کرب تڑپا دیتا ہے۔

“رات اپنا دکھ اپنی ویرانی اور کچھ اداس حکایتیں شبنم کی صورت درختوں کے پتوں پر چھوڑ جاتی ہے جب صبح طلوع ہوتی ہے تو پرندے اور چرواہے شبنم کے قطروں کو دیکھ کر رات کا دکھ جان لیتے ہیں۔”
موسم خزاں کا ہو یا بہار کا ،قصہ ہجر کا ہو یا وصال کا قاری اس کا حصہ بنتا چلا جاتا ہے ۔حافظ صاحب کے پاس خوب صورت الفاظ اور تراکیب کا ایک ذخیرہ ہے جو ان کے بیان کا حسن ہے ایک ہی بات کو کئی جگہ لکھنا مگر ہر دفعہ مختلف انداز اور ترکیب کے ساتھ استعارے اور علاما ت سے سجی عبارت ہر بارنئے پیرہن میں دکھائی دیتی ہے۔

“ہجر کی آمیزش سے شام تنہائی اور اداسی کا استعارا بن جاتی ہے ۔ جنگل اور دل تنہائی اور جدائی کی خوشبو سے مہکنے لگتے ہیں “

ایک جگہ اور بڑی خوبصورت بات لکھتے ہیں

“گاؤں کے پرانے اسٹیشن سے روانہ ہوتی ریل کی کوک ہجر و فراق کا ستعارا ہے ، یہ طویل جدائی کی تمہید ہے “

مصنف نے کتاب میں نہ صرف ارضیاتی تبدیلیوں ، قدرتی وسائل کی بربادی اور فطرت کے حسن کے برباد ہونے کا نوحہ لکھا ہے بلکہ مرشد کے کردار سے افسانوں میں تصوف کارنگ بھی جھلکتا ہے ۔الغرض یہ کہ مصنف نے بہت ادبی افسانوی اور فنکارانہ انداز بیان سے بہت سے المیوں کا احاطہ کیا ہے جن سے ہمارا مستقبل جڑا ہے دعا ہے کہ اللہ حافظ صاحب کی یہ آرزو جو صرف ان کی نہیں بلکہ ہر ذی شعور کی آرزو ہے۔
“یہ آرزو ہے کہ آنے والی نسلوں کے لئے چمکتے جگمگاتےجگنو خوش رنگ تتلیاں اور خوب صورت معصوم پرندے موجود رہیں “
اسیر ماضی صرف ایک بار کے مطالعے کے لئے نہیں ہے آپ اسے بار بار پڑھنا چاہئیں گے میں نے ان کی تحریروں سے بہت کچھ سیکھا آپ بھی استفادہ اٹھائیں اور اپنے ادبی ذوق کو تسکین پہنچائیں۔
حافظ ذیشان یاسین صاحب کے لئے بہت سی نیک خواہشات۔

 

Discover more from Press for Peace Publications

Subscribe now to keep reading and get access to the full archive.

Continue reading

×

Send a message to us on WhatsApp

× Contact