تبصرہ: شہزاد بشیر ۔ مصنف و پبلشر مکتبہ کتاب دوست
تسنیم جعفری صاحبہ کا شمار دور حاضر کی باکمال سائنس فکشن رائٹر کے طور پر ہوتا ہے لیکن اس کے علاوہ انہوں نے ماحولیات کے حوالے سے بھی بہترین مواد پیش کیا ہے اور انسداد منشیات پر بھی قلم چلایا ہے۔ مگر حال ہی میں ان کے دورہ چین اور وہاں سے قارئین کے لئے معلومات پیش کرنے کا جوسلسلہ سامنے آیا اس کے بعد ان سے خود میں نے بھی یہ فرمائش کی تھی کہ وہ چین کا سفرنامہ ضرور لکھیں اور اسے کتابی شکل میں شائع کریں سو تسنیم جعفری صاحبہ نے بھی اس کی ضرورت کو محسوس کرتے ہوئے نہ صرف بہترین سفرنامہ تخلیق کیا بلکہ ادیبوں کو حیران بھی کردیا کہ وہ نہ صرف سائنس فکشن بلکہ سفرنامے بھی اتنے ہی دلچسپ لکھتی ہیں۔ اس کتاب کا مفصل جائزہ ذیل میں پیش ہے۔ ذرا دیکھتے ہیں کیا کمالات دکھائے ہیں اس کتاب میں تسنیم جعفری صاحبہ نے۔
اس کتاب کو پڑھنے سے پہلے چین کے بارے میں صرف اتنا ہی معلوم تھا کہ چین پاکستان کا ہمسایہ ہے اور پاک چین دوستی سمندروں سے بھی گہری ہے۔ چین ہر مشکل وقت میں پاکستان کے ساتھ کھڑا ہوتا ہے۔ وغیرہ وغیرہ۔ میں جب چھوٹا تھا تو اکثر گھر والوں کے ساتھ بس یا منی بس میں رشتہ داروں کے گھر جایا کرتا تھا تو وہ کراچی کے مرکزی بازاری حب یعنی صدر کے علاقے سے گزرتی تھی۔ کراچی کا سارا ٹریفک یہاں سے گزر کر جاتا تھا۔ تب اس علاقے میں چینی دان سازوں کی بہت سی دکانیں دکھائی دیتی تھیں۔ ان کے نام بھی چینی ڈاکٹرز کے نام پر تھے۔ بلکہ اب بھی ہیں۔ تو بس اتنی ہی معلومات اس حوالے سے تھیں۔ مزید وہ جو ہم نے اسکول میں مطالعہ پاکستان کی کتب میں پڑھیں۔
یوں دیکھا جائے تو بس ایک مثبت خاکہ تھا ذہن میں کہ چین ایک ایسا ملک ہے جو سوئی سے لے کر جہاز تک بناتا ہے اور کسی بھی پراڈکٹ کی کاپی بھی چین سے بہتر کوئی نہیں کرسکتا۔ مگر جس چین سے محترمہ تسنیم جعفری صاحبہ نے متعارف کروایا وہ تو کوئی اور ہی چین ہے۔ مجھے نہیں لگتا کہ ہم نے کبھی چین کے کسی شہر کے بارے میں یا آبادی کے بارے میں، وہاں کے لوگوں کے بارے میں، وہاں کی ثقافت، شاندار ماضی، پرسکون اور معاشی طور پر مستحکم حال، تیزی سے ترقی کی جانب گامزن مستقبل، ماحولیات، تہذیب و تمدن، کاروبار و ملازمت، رہائش و انفراسٹرکچراور پسند ناپسند کے بارے میں اتنی دلچسپی سے کچھ سنا یا پڑھا ہے جتنااس کتاب میں۔ اس کے ہر صفحے پر حیرت کے نئے در کھلتے دکھائی دیتے ہیں۔
مجھے یہ کہنے میں کوئی جھجک نہیں کہ ہم نے چین کے بارے میں نہ جان کر اور صرف مغربی ممالک کو ہوا بنا کر اپنے پڑوسی ہمسایہ دوست ملک چین کو انڈر اسٹیمیٹ کیا ہوا ہے۔ حالانکہ اس کتاب سے یہ پتہ چلتا ہے کہ چین کسی بھی معاملے میں ترقی یافتہ مغربی ممالک سے کم نہیں بلکہ ایک قدم آگے ہی نظر آتا ہے۔
کتاب کی رسید دیتے ہوئے میں یہ لکھنا بھول گیا کہ یہ آئی کس طرح۔ تو سنئے۔ اس سے پہلے بھی محترمہ تسنیم جعفری نے اپنی ساری کتب مجھے بھیجیں اور میں نے ان پر مفصل تبصرے لکھے۔اس کتاب کے بارے میں بھی جب انہوں نے مجھ سے دوبارہ ایڈریس مانگا تو میں نے کہا کہ کتاب آپ بے شک بھیج دیجئے مگر تبصرے میں کچھ وقت لگ جائے گا مصروفیت کی وجہ سے۔ ان کا جواب تھا کہ ”بے شک تبصرہ نہ کیجئے مگر کتاب تو آپ تک لازمی پہنچانی ہے۔“ اس عزت افزائی کے لئے میں بہت ممنون ہوں۔
کتاب مجھ تک پہنچی اور ارادہ یہی تھا کہ اکتوبر میں ذرا وقت نکلے گا تو اس کو پڑھوں گا۔ مگر کتاب کو ان فولڈ کیا تو رہا نہ گیا۔ کھول کر اندر ”جھانکی “ ماری۔ پہلے تو کتاب کی پریزنٹیشن دیکھ کر ہی دل خوش ہوگیا۔ بھئی پریس فار پیس والے واقعی کمال کرتے ہیں۔ بہت زبردست آؤٹ لک ہے۔ ہارڈ بائنڈنگ میں بہترین مہنگا پیپر اور پھر ہر صفحے پر اس کے ”فوٹر“میں چینی شہر شنگھائی کی تصویر سے اندازہ ہوا کہ مصنفہ نے باقاعدہ پہلے اس کیلئے منصوبہ بندی کی ہوگی۔ بہت محبت سے پبلش کی گئی ہے یہ کتاب۔ٹائٹل کور پر چین کے سفر کی جھلکیاں اور اندرونی جانب کلر تصاویر بہت اچھی لگیں۔
اور یار۔۔۔یہ جو اندر انہوں نے ہر موقع اور ہر جگہ کے حساب سے تصاویر دی ہیں اس سے ایک تو یہ کہ بچپن کے مطالعہ پاکستان کی کتاب یاد آگئی اور دوسرے یہ کہ پھر اس کو پڑھ کر تصویر اور عنوان سے دلچسپی اور بڑھ گئی۔ اس کے لئے تو مصنفہ کو بہت داد دونگا کہ بڑی ہی پلاننگ سے یہ کتاب لکھی گئی ہے کہ قاری بور ہونا تو دور کی بات خود کو اس سفر میں ان کا ہم سفر محسوس کرتا ہے۔ (میری تو یہی کیفیت رہی)۔
اچھا میں یہ بتا رہا تھا کہ کتاب ان فولڈ کی تو سوچاکہ نظر ڈالوں اندرکہ شروعات کہاں سے کی ہے کیونکہ محترمہ نے بتایا تھا کہ انہوں نے پاسپورٹ اور ویزہ سے لے کر چین پہنچنے تک کے تمام مراحل بھی لکھے ہیں جو یقینا ایک بہت ہی زبردست معلوماتی مواد ہے۔
اب جب پڑھنا شروع کیا تو یوں لگا جیسے کوئی جاسوسی ناول شروع کیا ہو اور اس میں محترمہ کسی مشن پر چین جا رہی ہیں (مجبور ہوں کیونکہ پھر وہی جاسوسی ناول۔:)۔ تو۔۔بھئی مگر اس میں میرا کیا قصور۔ تسنیم جعفری صاحبہ نے لکھا ہی اتنے سسپنس فل انداز میں ہے کہ میں تو پڑھتا ہی چلاگیاکہ دیکھوں یہ پہنچی کیسے ہیں وہاں۔اور انہوں نے بھی ایک ایک بات نوٹ کر کے لکھی۔ میں تو حیران تھا کہ انہیں اتنی تفصیل یاد کیسے رہ گئی۔ پھر درمیان میں جہاں موقع لگا انہو ں نے سفرنامے میں اپنی ذاتی سوچ یا بات کو بھی تو بے جھجک کہا ہے۔ جہاں کسی کو سنانی پڑی وہاں انہوں نے سنائی بھی۔ جہاں پاکستانیوں کو مخاطب کرنا پڑا کہ دیکھو ہم وہاں کیا کرتے ہیں اور کہیں یہ بھی لکھا کہ وہ پاکستانی ہی کیا جو یہ نہ کریں یا وہ نہ کریں۔ مطلب توازن قائم رکھا ہے۔ایسا نہیں کہ جھکاؤ ادھر یا ادھر ہوا ہو۔
بہرحال بڑی دلچسپی پیدا ہوگئی تھی ابتدائی صفحات پڑھتے ہوئے۔ پھر جب یہ چین پہنچیں تو ایک زبردست کردار اور شامل ہوگئے سفرنامے یا سسپنس سی بھری کہانی میں۔ یعنی ان کے بھائی۔ اچھا دیکھئے تسنیم صاحبہ برا نہ مانئے گا۔ آپ سے زیادہ کریڈٹ میں بھائی صاحب کو دوں گا اس سفرنامے کا۔ کیونکہ پہلی بات تو یہ کہ انہوں نے آپ کو وہاں بلوایا۔ لیکن جس طرح وہ ہر مقام پر آپ کو گائیڈ کرتے رہے اور پھر جس طرح وہاں انہوں نے آپ کو سارا وقت دیا اور شاید بقول آپ کے اندازاََ چار ہزار کلومیٹر گاڑی چلا کر آپ کو چین کی حیرت انگیز جگہیں دکھائیں، لوگوں سے ملوایا، کھانوں کی ڈشیں ہوں یا بازاروں کے نام، تفریحی مقامات کے نام ہو ں یا ان کے ٹکٹس اور ان کی قیمتیں، کیا اچھا ہے کیا برا ہے، چینیوں کو کیا پسند اور کیا ناپسند،کہاں کونسا ہوٹل اچھا اوراس کا مالک کون۔۔۔۔فووووووہ ہ ہ۔ ہم تو پڑھ پڑھ کر حیران ہوتے رہے اور آپ دونوں نے سمجھیں چین فتح کرڈالا۔ آپ نے کہیں لگی لپٹی نہیں رکھی۔ بھابی کے بارے میں بھی بہت کچھ بتایا۔ اور دیگر لوگوں کے بارے میں بھی۔ جیسے ہارون بھائی، کامران بھائی وغیرہ پھر آخر میں ایڈیٹر و مصنف اکمل معروف صاحب
کے بھائی کا ذکر اور پاکستان کے سفارت خانے میں آخری دنوں کی تقاریب اور ملنا ملانا۔ سب بہت کمال کا لکھا ہے۔ یعنی اگر کوئی وہاں جانا چاہے تو کم سے کم اس کتاب کو پڑھنے کے بعد نہ صرف اسے یہ ایک دستاویز کی طرح لگے گی جس میں چین کے سفر کی ہدایات لکھی ہوں کہ وہاں کیسے رہنا ہے اور کیا کرنا ہے۔ میں تو حکومت سے مطالبہ کرنا چاہتا ہوں کہ یہ معلومات بہت اہم ہیں انہیں کسی بھی طرح مطالعاتی کتب کا حصہ بنایا جائے۔
آخری بات یہ ہے کہ جس مفصل انداز میں ہر جگہ کے بارے میں لکھا گیا، ایک ایک سڑک اور عمارت کا نقشہ جس انداز میں کھینچا گیا، وہاں کاروباری معاملات اور مصنوعات اور ان کے برانڈز اور ان کی فروخت کا طریقہ یہ سب بہت معلوماتی ہے جس سے کاروباری حضرات بھی فائدہ اٹھا سکتے ہیں، پھر وہاں تعلیمی معاملات پر بھی بات کی۔ وہاں کے جو پاکستانی ہیں ان کے بارے میں بھی اور جو وہاں کے چینی عوام ہیں وہ پاکستانیوں کے بارے میں کیا سوچتے اور کیسے مل جل کر رہتے ہیں وہ سب کسی الگ ہی دنیا کی داستانیں معلوم ہوتی ہیں۔
سب سے زیادہ دلچسپی کی باتیں اور اہم ترین غور طلب وہ باتیں ہیں جن میں مصنفہ نے وہاں کے توانائی کے ذرائع خاص کر بجلی کے بارے میں ٹرکس بتائیں اور طریقے بتائے کہ چینی کیسے بجلی پیدا کرتے ہیں اور کیسے استعمال کرتے ہیں۔ کب دن کی روشنی استعمال کرتے ہیں اور کب رات میں روشنی کا۔ سب کچھ حیران کن ہے۔ اور بھی بہت کچھ مگر پھر یہ تبصرہ الگ کتابی شکل میں چھاپنا پڑے گا۔
میرے گھر میں تو بچے بھی اس کتاب کو شوق سے پڑھ رہے ہیں۔ اور مجھے یہ یقین کہ اب انہیں جب بھی اسکول میں یاکالج میں کبھی چین پر مضمون لکھنا پڑا وہ یہ سب کچھ اس میں لکھ سکیں گے جو اس کتا ب میں پڑھا۔
محترمہ تسنیم جعفری صاحبہ کو اتنی زبردست کتاب لکھنے پر اور ان کے ساتھ تعاون کرنے والے تمام احباب کا میں اپنے ادارے مکتبہ کتاب دوست کی جانب سے بھرپور شکریہ ادا کرتا ہوں کہ جن کی وجہ سے پاکستانی ادیبوں اور ادب سے محبت کرنے والے قارئین کو چین کے بارے میں جاننے کا موقع ملا اور شاید کئی لوگوں کا مستقبل اس سفرنامے سے بدلنے والا ہو۔ اللہ آپ سب کو جزائے خیر دے۔ آمین۔
کتاب منگوانے کے لئے تسنیم جعفری صاحبہ یا پریس فار پیس سے رابطہ کیجئے۔ شکریہ
Discover more from Press for Peace Publications
Subscribe to get the latest posts sent to your email.