افسانہ : تکبیر۔تحریر: عصمت اسامہ

You are currently viewing افسانہ : تکبیر۔تحریر: عصمت اسامہ

افسانہ : تکبیر۔تحریر: عصمت اسامہ

عصمت اسامہ ۔
حمدان شیخ ،اپنے آرام دہ لگژری بیڈروم میں محو_استراحت تھا ،اس کی سائیڈ ٹیبل پر دنیا کا مہنگا ترین آئی فون پڑا تھا جس پر کسی کی کال آنے کے سبب لائٹ بلنک ہورہی تھی مگر سائیلنٹ موڈ کی وجہ سے شیخ تک نہیں پہنچ رہی تھی۔ کمرے کا نیم تاریک ماحول شیخ کے خراٹوں سے گونج رہا تھا۔ یکایک شیخ نیند میں کچھ بڑبڑانے لگا اور پھر ایک جھٹکے سے اس کی آنکھ کھل گئی ،وہ اٹھ کے بیٹھ گیا ،اس کی نبض تیز چل رہی تھی اور ماتھے پر پسینہ تھا۔ اس نے سائیڈ ٹیبل پر پڑے جگ سے پانی گلاس میں انڈیلا اور غٹاغٹ پی گیا۔ وقت دیکھا تو آدھی رات کا وقت تھا ،وہ دوبارہ لیٹ گیا اور کچھ دیر بعد کمرہ پھر اس کے خراٹوں سے گونج رہا تھا۔
شیخ حمدان کے خاندان کا شمار دبئی کے امیر ترین خاندانوں میں ہوتا تھا۔ اس کا بزنس مشرق_ وسطی’ کے متعدد ممالک تک پھیلا ہوا تھا۔ہر روز کسی نہ کسی کانفرنس میں شرکت کے بعد اسے نئے آئیڈیاز سوجھتے اور پھر چند دنوں بعد کسی نئے پراجیکٹ کا آغاز کردیا جاتا۔ سرمایہ دارانہ نظام میں امیر ،امیر ترین ہوتے چلے جاتے ہیں خصوصاً ایسے ملک میں جہاں بیرون ملک سے بزنس پارٹنرز سرمایہ لگانے کو کھچے چلے آتے ہوں۔ شیخ حمدان کی دو بیویاں اور چھ بیٹے تھے جن میں سے دو اس کے بزنس کو سنبھالتے تھے اور باقی زیر_ تعلیم تھے۔ کاروبار کی شاخیں اب یورپی ممالک تک لے جانے کا پلان تھا ۔
 حمدان گہری نیند میں گویا کسی خواب کی کیفیت میں تھا کہ یکایک اس کا بیڈ بری طرح ہلنے لگا جیسے زلزلہ آگیا ہو ،شیخ نے فوراً آنکھ کھولی اور گھبراہٹ کے عالم میں آئی فون سے پرسنل سیکرٹری کو کال کی ۔ سیکرٹری اس کے گھر میں ہی قیام پذیر تھا اور سارے معاملات کی مینجمنٹ کرتا تھا۔ سیکرٹری نے اسے مطمئن کیا کہ کسی قسم کا زلزلہ نہیں آیا اور پھر شیخ دوبارہ سو گیا۔دراصل اس نے نیند کی ٹیبلٹ لی تھی تاکہ کچھ دیر سکون سے سوسکے۔انویسٹمنٹ کے بڑھتے منصوبوں اور  کاروبار کی ٹینشنوں نے اس سے قدرتی نیند چھین لی تھی۔شیخ حمدان کے خراٹوں کی وجہ سے فیملی کے دیگر افراد اس کے ساتھ سونے کی بجائے الگ بیڈرومز میں سوتے تھے ،ویسے بھی اس کے محل نما گھر میں بہت سے بیڈرومز تھے۔رات گہری ہوچکی تھی اور شیخ حمدان کی سانسیں بھی دھیمی اور گہری ہورہی تھیں ۔ کھڑکی کے شیشوں پر اوس کے قطرے بڑھتے جارہے تھے کہ اچانک ایک زور دار دھماکہ ہوا  ،چھت سے گرتی اینٹوں اور مٹی کے بوجھ تلے پھنسے شیخ نے ہاتھ پاؤں چلانے کی کوشش کی مگر وہ اتنی بری طرح ملبے میں پھنسا ہوا تھا کہ عملی طور پر کچھ کرنے سے قاصر تھا،نجانے کتنے گھنٹے یونہی گزر گئے۔ اس وقت اس نے کثرت سے خدا کو مدد کے لئے پکارا۔ موت و حیات کی کشمکش میں تخیل میں ماضی کے واقعات چل رہے تھے ،گذری ہوئی زندگی ،اب کچھ پچھتاوے سے جگا رہی تھی ۔ کیا  آگے صرف موت ہے ؟ کیا میرا نامہء اعمال مجھے بخشواسکتا ہے ؟ پریشانی اور خوف کی لہریں اس کی ہارٹ بیٹ کو مدھم کرنے لگیں، پھر دور سے کچھ لوگوں کے آنے کی آوازیں سنائی دیں ۔اس نے زور سے پکارا،
” میں زندہ ہوں ،مجھے یہاں سے نکالو !” اس کی آواز سن کے وہ لوگ اس کے اوپر سے ملبہ ہٹانے لگے اور پھر کچھ ہاتھوں نے اسے اوپر کھینچ لیا ،وہ بری طرح مٹی سے اٹا ہوا تھا ،مٹی اس کے حلق سے لے کر پیٹ تک بھری ہوئی تھی ، وہ کھانسنے لگا ۔ وہ لوگ اسے ملبے سے نکال کر آگے جاچکے تھے تاکہ مذید افراد کو نکال سکیں۔ خدایا تیرا شکر ہے ،وہ دل میں گڑگڑایا۔ ابھی وہ کچھ قدم آگے گیا تھا کہ قریب ہی کہیں سے  دل شگاف چیخ ابھری ،اس نے آواز کی سمت دیکھا تو ایک باپ نے ہاتھوں میں دو شاپرز پکڑے ہوئے تھے جن سے خون ٹپک رہا تھا اور وہ حواس باختہ چیخیں مارتا کہتا جارہا تھا ،یہ میرے بچے تھے ،یہ میرے بچے تھے ،یہ میرے جگر گوشے تھے ۔۔۔۔۔شیخ حمدان زیادہ دیر تک یہ جملے برداشت نہ کرسکا اور وہاں سے بھاگ کھڑاہوا۔ اسے دور سے سڑک پر ایک آئس کریم ٹرک کھڑا دکھائی دیا ،شیخ کے حلق میں پیاس سے کانٹے سے چبھ رہے تھے ،اس نے ٹرک کی جانب بھاگنا شروع کر دیا تاکہ وہاں سے آئس کریم لے سکے ،قریب پہنچ کے اس نے دیکھا کہ ٹرک کے دروازے کھلے ہیں ،جب اس نے اندر جھانکا تو ایک جھٹکے سے فوراً پیچھے ہٹ گیا ،اس ٹرک کے اندر آئس کریم نہیں تھی بلکہ ننھے منے بچے کفن میں لپٹے پڑے تھے ۔ “اف خدایا “،وہ بے ساختہ دھاڑیں مار کے رونے لگا ،”یہ کیا قیامت ہے ؟” اس نے ایک دیوار کا سہارا لیا۔ اس کی ٹانگیں لرز رہی تھیں وہ نیچے بیٹھ گیا۔”چچا!” ایک چھوٹا سا ہاتھ اسے اپنے کندھے پر محسوس ہوا۔شیخ نے سر اٹھایا تو سامنے سفید رنگت اور شہد رنگ گھنگھریالے بالوں والا چھ سات سالہ بچہ کھڑا تھا۔۔ “چچا ،یہ پانی پی لو “،اس بچے نے پانی کی بوتل اس کی طرف بڑھا دی جو شیخ اسی وقت پی گیا۔
 “تم کون ہو ؟” ،شیخ نے پوچھا.”میں یوسف ہوں “بچے نے نام بتایا ۔ “تم کیا کرتے ہو میٹھے یوسف ،تمہارے والدین کہاں ہیں ؟”شیخ نے استفسار کیا ۔۔ ” میرے والدین بہن بھائی سب شہید ہوگئے، صہیونیوں نے سب کو ماردیا ۔میں اکیلا ہوں ،بس لوگوں کو پانی پلاتا ہوں،وہاں سے کولر سے بوتلیں بھرتا ہوں ” بچے نے اشارہ کرتے ہوۓ معصومیت سے کہا تو شیخ نے اسے گلے سے لگا لیا “تم آج سے میرے بیٹے ہو” ۔بھوک کی شدت سے پیٹ میں بل پڑ رہے تھے۔اچھا یہ بتاؤ کہ روٹی کہاں سے ملے گی ؟ شیخ نے پوچھا۔” وہاں پچھلی گلی میں ایک تندور ہے ،وہاں سے ” بچے نے بتایا۔شیخ بچے کے بتانے پر اس گلی میں گھس گیا جو کسی حد تک تنگ اور بل کھاتی ہوئی آگے جارہی تھی ،ارد گرد کی قدیم دیواروں سے بڑے بڑے پتھر باہر کو نکلے ہوئے تھے ،اس نے نان بائی کی طرف ہاتھ بڑھادیا تو نان بائی نے بغیر پیسے مانگے ایک نان  اس کے ہاتھ پر رکھ دیا،گلی میں بچوں کا ہجوم تھا کہ اچانک ایک سیٹی کی سی آواز آئی جیسے کسی خطرے سے آگاہ کیا جارہا ہو ۔ دوکان داروں سمیت سب بچے سرعت کے ساتھ بھاگنے لگے ،شیخ بھی بغیر کچھ سوچے ان کے ساتھ دوڑنے لگا کہ اوپر سےبم گرادیا گیا ۔۔۔۔۔۔۔ہر چیز کے پرخچے اڑ رہے تھے ۔شیخ کے سر پر کوئی چیز آٹکرائی ۔بیہوش ہونے سے پہلے شیخ نے اس بچے یوسف کو ہوا میں اچھل کے زمین پر گرتے ہوئے دیکھا ،وہ شہید ہوچکا تھا ۔ ” یوسف !! میرے بچے” ،شیخ کا دل چلایا مگر اس کی چیخ سینے میں گھٹ کے رہ گئ۔نجانے کتنی دیر تک وہ بے حس و حرکت پڑا رہا ،پھر کسی بچی کے رونے کی آواز سے اسے ہوش آیا ، تین سالہ بچی کے ہاتھ میں پانی کی خالی بوتل تھی اور وہ ہچکیوں سے رو رہی تھی ،شیخ نے اپنا سر سہلایا جہاں چھوٹا سا زخم بن چکا تھا ۔اس نے بچی کو ساتھ لیا اور جہاں سے یوسف پانی کی بوتلیں بھر کے لوگوں کو پلاتا تھا ،اس طرف کو چل پڑا ۔بمباری سے تباہ شدہ گھروں کے ملبے سے لوگوں کے رونے اور کراہنے کی آوازیں آرہی تھیں ، بچی کو پانی دے کر وہ بھی دوسروں کے ساتھ مل کے امدادی کاموں میں لگ گیا ۔لوگ اپنے عزیزواقارب کو ملبے سے نکال رہے تھے ،ایک طرف عمامہ باندھے ایک باریش شخص ،گود میں چھوٹی سی بے جان بچی کو بوسے دیتے ہوئے والہانہ کہہ رہا تھا” تم میری روح کی روح ہو”- یہاں ہر کوئی زخمی تھا ،جسم کے زخم بھر بھی جائیں تو روح کے زخم کہاں بھرتے ہیں ۔مائیں گود میں اپنے بچوں کے لاشے اٹھاۓ رو رہی تھیں ۔جلد ہی وہاں صحافیوں کی ٹیم پہنچ گئ اور موجود افراد سے واقعات پوچھنے لگی۔’معتز عزیزا’ نامی معروف صحافی جنگ کی کوریج کرتے ہوۓ کہہ رہا تھا : یہ جنگ نہیں ہے ،جنگ دو فریقین کے مابین لڑی جاتی ہے جب کہ فلسطین میں اسرائیل, شہری آبادیوں پر بم اور میزائل چلا رہا ہے ۔یہ قتل_ عام ہے ،جینو سائیڈ ہے یہ مسلمانوں کا ہولو کاسٹ ہے ” پھر اس نے کیمرے کا رخ زخمیوں کی طرف کردیا ،ایک  زخمی بچے نے جرات سے کام لیتے ہوئے کیمرے کے سامنے مسلم حکمرانوں کو للکارتے ہوۓ کہا کہ ” تم نے ہمیں چھوڑ دیا ہے ،ہمیں تم سے کچھ نہیں چاہئیے ۔بس یہ بتانا چاہتے ہیں کہ ہماری غائبانہ نمازِجنازہ مت پڑھنا ،اس لئے کہ ہم( شہید ) زندہ ہیں لیکن تم مر چکے ہو ! یاد رکھنا ہم خدا تعالیٰ سے تمہاری شکایت کریں گے “۔ اسی اثناء میں وہاں ایمبولینس پہنچ گئ اور طبی عملہ زخمیوں کو سٹریچر کے ذریعے ایمبولینس میں منتقل کرنے لگا۔ شیخ حمدان نے سوچا کہ واقعی قبلہء اول بیت المقدس کی حفاظت کی خاطر مسلم افواج کو حرکت میں آنا فرض تھا لیکن یہ خاموشی بتاتی ہے کہ حقیقتاً یہودیوں کا قبضہ ساری دنیا پر ہوچکا ہے سواۓ فلسطین کے۔ ابھی وہ سوچ ہی رہا تھا دور سڑک پر لوگوں کا ہجوم نظر آیا ،وہ بھی ان کی طرف بڑھنے لگا ،وہاں کچھ مجاھدین قطار بناۓ جارہے تھے جن کے تنومند جسم ،نقاب سے جھلکتی پر عزم آنکھیں اور پر اعتماد چال ںتاریی تھی کہ وہ اپنی بقا کی جنگ ہر قیمت پر لڑیں گے ۔لوگ حماس کے کمانڈر’ ابو عبیدہ’ کی ایک جھلک دیکھنے کے لیے ٹوٹے پڑ رہے تھے ،یہ بے سروسامان مجاھد ،امت مسلمہ کے ماتھے کا جھومر اور قبلہء اول کے محافظ ہیرو تھے ،چلتے چلتے اچانک شیخ حمدان کو چکر آنے لگے،زمین و آسمان کسی دائرے میں گھوم رہے تھے۔وہ زمین پر آرہا ۔ آنکھ کھلی تو وہ اپنے بیڈ پر تھا ۔ “یہ سب کیا تھا ،کیا میں خواب دیکھ رہا تھا ؟ الحمدللہ ابھی میں زندہ ہوں یعنی میری مہلت عمل ختم نہیں ہوئی “۔وہ خود کلامی کے انداز میں بولا اور جلدی سے اٹھ کے بیٹھ گیا ، آئی فون سے اپنے سیکرٹری کا نمبر ملایا ” میرے مینیجر سے کہو ،آج سے میری کوئی آئل کمپنی ،اسرائیل کو تیل فراہم نہیں کرے گی ! کیا کہا نقصان ؟ مجھے کسی مالی نقصان کی پروا نہیں ،میرا فلسطین جل رہا ہے ،بیت المقدس خطرے میں ہے ،ہم یہودیوں کے ساتھ سارے کاروباری معاہدے منسوخ کرتے ہیں” ۔اس نے بات مکمل کرکے آئی فون بیڈ پر پھینک دیا ،اذان ہوچکی تھی ، نماز پڑھنے چل دیا، ابھی اسے فلسطین کے لئے فلائٹ کی بکنگ بھی کروانی تھی  :
~ نکلے جو مجاھد کے لب سے ،وہ چیز ہی دیگر ہوتی ہے                                                                                 کہنے کو تو ہم بھی کہتے ہیں ہر مسجد میں تکبیر بہت
ایک ان جانی سی خوشی اس کے دل کو مسرور کر رہی تھی ،سجدے کا مزہ آج سے پہلے کبھی نہیں آیا تھا  


Discover more from Press for Peace Publications

Subscribe to get the latest posts sent to your email.