مصنف: دانش تسلیم
فاروق کے گھریلو حالات سازگار نہیں تھے۔ گھر کا بڑا بیٹا اور باپ کا بازو ہونے کی وجہ سے ذمہ داریوں کا بوجھ کم عمری میں ہی اس کے کندھوں پر ڈال دیا گیا تھا۔ جس کے گھر میں ایک کمانے والا اور دس کھانے والے ہوں بھلا وہ سکون کی نیند کیسے سو سکتا ہے؟
فاروق کے والد ایک نمک کی کان میں پتھر توڑتے تھے اور یہ جان لیوا کام وہ اس سے کروانا پسند نہیںں تھے۔ یہ کوئی کام دھندا بھی نہیں جانتا تھا۔ اس لئے مجبورا اسے اپنی سانسیں غباروں میں پرو کر فروخت کرنا پڑتی تھیں۔ رات گھر جاتے وقت جب یہ اپنی معمولی آمدنی دیکھتا تو پھولوں کی طرح کھل اٹھتا۔
فاروق فٹ پاتھ پر بیٹھا غبارے پھلا رہا تھا۔ کئی غبارے اس کے پاس ہوا کے دوش میں لہرا رہے تھے۔ سڑک پر گاڑیوں اور انسانوں کی ریل پیل تھی۔ فاروق نے ایک آدمی کو اپنی جانب آتا دیکھ کر آواز لگائی اور وہ اسے ‘شکریہ’ کہہ کر چلا گیا۔ اتنے میں غبارہ واپس اپنی پہلی حالت میں لوٹ آیا کیونکہ اس سے ہوا نکل چکی تھی۔ غبارے پھلا پھلا کر اس کے حلق اور منہ میں شدید درد نکل آئی تھی۔
فاروق معمول کے مطابق غبارے پھلا رہا تھا کہ ایک ننھی گڑیا رنگ برنگ کے غبارے دیکھ کر والدین سے اصرار کر رہی تھی کہ وہ اسے غبارے دلا دیں۔ فاروق اسے دو غبارے فروخت کر کے بہت خوش تھا کیونکہ آج یہ اس کا چھٹا اور ساتواں غبارہ فروخت ہوا تھا۔
ننھی گڑیا نے غبارے اپنے ناخنوں میں ڈبوچ کر فاروق کے سامنے ہی پھاڑ دیئے تھے۔ اس کے کانوں میں ٹھاہ ٹھاہ کی آواز گونجنے لگیں اور سانسیں ہوا کے ساتھ اپنے سفر پر روانہ ہوگئیں۔ یہ نم آنکھیں لئے مسکرا رہا تھا اور یہ کسی سے کوئی شکوہ بھی نہیں کر سکتا تھا کیونکہ یہی غبارے اس کی بھوک پیاس مٹاتے تھے۔
》ختم شد《
Discover more from Press for Peace Publications
Subscribe to get the latest posts sent to your email.