Monday, May 6
Shadow

ڈاکٹر برگر/انعم طاہر  

تحریر: انعم طاہر
سر آپ یہاں ؟ ثاقب نے چپس اور برگر بیچنے والے آدمی کو غور سے دیکھتے ہوئے انتہائی گرم جوشی سے کہا جیسے اس کے ہاتھ کوئی خزانہ لگ گیا ہو۔
ریڑھی والا جسے ثاقب سر کہہ کر مخاطب کررہا تھا ایکدم ٹھٹکا تھا، غیر محسوس انداز میں اس نے اپنے چہرے پہ موجود ماسک کو ٹھیک کرنے کی کوشش کی حالانکہ ماسک نے ویسے بھی کافی حد تک اسکا چہرہ چھپا رکھا تھا۔ اس نے ثاقب کو نظر انداز کیا جیسے کہ اس نے اس کو دیکھا ہی نہ ہو نہ کچھ کہتے سنا ہو۔ مہارت سے دو برگر تیار کرکے اس نے خریدار کو تھمائے اور بغیر گنے پیسے جیب میں ڈال لیے۔ اسی اثنا میں ثاقب اس کے قریب آیا اور اسے پھر سے مخاطب کرنے لگا۔
سر آپ سر اشعر ہیں ناں، میں ثاقب آپ نے مجھے نہیں پہچانا۔ اشعر نے ثاقب کے چہرے کو بغور دیکھا۔ وہی آس وہی امید وہی اپنائیت۔۔۔۔۔۔ ثاقب کے چہرے کو دیکھنا ایک جھٹکا تھا جو اسے ماضی میں کہیں بہت پیچھے لے آیا تھا۔ ثاقب تو کیا وہ وہ عقیل ، حسنین اور رافع کو بھی نہیں بھولا تھا جو ثاقب کے جگری دوست تھے۔ اور وہ سب جو ثاقب کے دوست بھی نہیں تھے، رؤف، فیروز، بلال، نورالعین، سعدیہ، ردا، اور۔۔۔۔۔ ایک ایک کرکے سب چہرے اسکی آنکھوں کے آگے گھومنے لگے۔ وہ شاید ہی کسی کو بھولا تھا۔ اسکا اپنے اسٹوڈنٹس سے کوئی روایتی تعلق تو تھا نہیں۔ وہ محبت کرنے والا، انھیں سننے والا، سوال کی اجازت دینے والا، ہنسی مذاق کرکے ان کا دل بہلانے والا، دلجوئی کرنے اور حوصلہ بڑھانے والا، انصاف پسند، دوست نما روایت سے ہٹ کر ایک منفرد استاد تھا۔ معاشرے کی سوچ سے برعکس اسکے شاگرد اسے بہت کچھ سمجھتے تھے۔ کبھی وہ کہتے ‘سر آپ سے پہلے کبھی آپ جیسا کوئی استاد ملا ہی نہیں’۔ کبھی اشعر کے رویے اور ایمانداری سے متاثر ہو کر کہتے ‘سر اس فراڈ معاشرے میں رہ کر آپ نے یہ سب کیسے سیکھ لیا؟ جہاں وہ ایک کونے میں کھڑا ہوکر ان سب کو دلائل دیتے، چھبتے ہوئے سوال اور ہنسی مذاق کرتے دلچسپی سے دیکھتا، وہیں جب وہ سمجھانے کے لیے بولنا شروع کرتا تو کلاس میں سکوت چھا جاتا۔ وہ گھڑی دیکھ کر فائلز اٹھاتا تو سب چیغ اٹھتے ‘سر آپکی کلاس کا ٹائم اتنی جلدی کیوں گزر جاتا ہے’ ‘سر اگلی کلاس بھی آپ ہی لے لیں’۔ وہ اکثر سوچتا تھا جانے ایسی کیا بات تھی کہ اسٹوڈنٹس اس کا بےحد احترام کرتے تھے۔ حتیٰ کہ اپنے ذاتی مسائل لیکر وہ اس کے پاس آیا کرتے تھے۔ کسی کو فیس ادائیگی میں مسًلہ درپیش ہوتا، تو کوئی ڈپریشن کا مریض، کسی کی ماں باپ سے ان بن، تو کوئی کم عمری کی محبت کا ستایا ہوا۔ وہ سب کو سنتا تھا، ہمدردی کرتا اور حوصلہ بڑھاتا تھا۔ ثاقب وہی تھا جو تین دفعہ خود کشی کی کوشش کرچکا تھا۔ ایک انتہائی حساس لڑکا جسے گھروالوں کی غیر معمولی توقعات نے ذہنی مریض بنا دیا تھا۔ کلاس میں لگی آخری کرسیوں پہ بیھٹا خود سے لڑتا، خلاؤں کو گھورتا ثاقب بھی اشعر کی حساس نگاہوں سے اوجھل نہیں رہ سکا تھا۔ وہ کلاس میں آتا، فائلز کو روسٹرم پہ رکھتا اور آخر پہ لگی کرسیوں کے پاس کھڑا ہوجاتا۔ ثاقب کو بات بات پہ مخاطب کرنا، اس سے سوال کرنا، کبھی اپنی مثالوں میں ثاقب کو حوالہ بنا کے پیش کرنا، نہ محسوس انداز میں وہ ثاقب کو جگانے لگا تھا۔ پھر یوں ہوا کے ثاقب اکثر اشعر کے پاس آجاتا اور اپنے مسلئے مسائل شیٔر کرتا۔
ڈیڈھ دو لاکھ تنخواہ لیکر بھی وہ خود کو دنیا کا امیر ترین شخص سمجھتا تھا۔ چونتیس پینتیس سال کی عمر میں ہی جو عزت اور محبت اس کے حصے میں آئی تھی، وہ تو کبھی اسکے گمان میں بھی نہیں تھی۔ جس کلاس میں وہ پڑھاتا، اسٹوڈنٹس کو اپنا گرویدہ بنا لیتا، ہر جگہ پھر اسی کا تذکرہ رہتا۔
یہ چوتھا ادارہ تھا جہاں اسے اپنی صلاحیتوں کی بنا پر ہاتھوں ہاتھ لیا گیا تھا۔ اس سے پہلے وہ تین اداروں میں کچھ کچھ عرصہ گزار کر خود استعفی دے چکا تھا۔ حالانکہ ان اداروں میں بھی اسٹوڈنٹس اس کا اسی طرح احترام کرتے تھے۔ کئی اسکے جانے پہ افسردہ ہوتے کہی آنسو بہاتے۔
وہ خود بھی بھاری دل کے ساتھ سب جو خیر آباد کہتا کہ یہی اسٹوڈنٹس اسکا اثاثہ تھے۔ لیکن وہ کیا کرتا ؟ وہ تو مجبور تھا۔
کچھ لوگوں کو وہ بری طرح سے کھٹکنے لگتا تھا۔ اسے ان لوگوں کے چہرے بھی اچھی طرح یاد تھے، کچھ چاپلوس، کچھ عیار، کچھ بے ایمان، کچھ بد نیت، کچھ حاسد اور کچھ ڈرپوک اور نالائق۔ وہ حیران ہوتا، تعلیمی ادارہ تھے یا سیاسی میدان ؟ پروفیسرز پورا پورا دن دفتروں میں بیٹھے ایک دوسرے کی ٹانگیں کھنچنے میں مصروف کلاسوں میں جانا ہی بھول جاتے تھے۔ کچھ جو پڑھانا نہیں جانتے تھے ایچ او ڈیز، ڈینز اور وی سی سے بنا کر رکھتے تھے اور اسٹوڈنٹس کو دبانے کے لیے خامخواہ کا رعب جما کے رکھتے تھے۔ کچھ کاپی پیسٹ کو ریسرچ کا نام دے کر اپنی سی وی اپڈیٹ کرنے میں مصروف رہتے۔ کچھ تو کردار کے اتنے دو نمبر تھے کہ کلرکوں کو سو دو سو روپیہ جیب میں ڈالتے اور بنا پیپر چیک کیے رزلٹ بنوا لیتے، ذاتی پسند ناپسند پہ نمبرز بانٹے جاتے اور اسٹوڈنٹس کو لالچ دے کر ان سے اپنی مرضی کے کام لیے جاتے ۔۔۔۔  کیا کچھ نہیں دیکھتا تھا وہ اور کیا کچھ وہ برداشت کرتا تھا۔
جب کہیں اسکی ذبان نے ذرا سی جسارت کی، ہوا کا رخ اسکے مخالف چل پڑتا۔  اسکو تنگ کرنے کا ہر حربہ آزمایہ جاتا۔ کبھی جواب طلبی کا رقعہ تھما دیا جاتا تو کبھی کام چور فکیلیٹی ممبرز کا بوجھ بھی اسکے کندھوں پر ڈال دیا جاتا۔ جہاں ممکن ہوتا اسے سامنے آنے سے روکا جاتا۔ حق دار ہونے کے باوجود اسے کسی اہم پوسٹ کی ذمہ داری نہیں  سونپی جاتی۔ بظاہر میھٹا بولنے والے بھی اندر ہی اندر اسکی جھڑیں کھوکھلی کرنے میں سرگرم رہتے تھے۔ وہ یہ سب دیکھ دیکھ کر ذہنی طور پر بہت تھک چکا تھا۔ ایسا نہیں تھا کہ اسکی برداشت کم تھی، وہ بہت کچھ سہنے کا حوصلہ رکھتا تھا لیکن یہ بھی سچ تھا کہ وہ بہت لمبا عرصہ کم ظرفوں کے بیچ رہ کر وہ گٹھن کا شکار تھا۔۔۔ وہ غلامی پسند، کرسی کو خدا سمجھنے والے، لوگوں کے جائز حق کھانے والے حاسدوں اور دیمک ذدہ ذہنوں سے اتنا مختلف تھا کہ اسے یقین ہوگیا تھا کہ خود کو غلاظت سے بچانے کے علاوہ اس کے پاس اور کوئی آپشن نہیں تھا۔
اشعر اپنے خیال سے چونکا تو ثاقب کو امید لیے اپنی طرف دیکھتے پایا۔ اسے حیرت ہوئی جانے کیسے ثاقب اس حلیے میں اسے پہچان گیا تھا۔ کہاں پینٹ کوٹ ٹائی لگائے ہوئے ارسطو، افلاطون، کارل مارکس پہ تجزیہ کرتا ہوا پی ایچ ڈی ڈاکٹر اشعر، اور کہاں سالوں پرانا کرتا شلوار پہنے ٹھیلے پہ کھڑا بہاؤ تاو کرتا برگر والا اشعر جسکے چہرے کی خوبصورتی کو چلملاتی دھوپ کھاگئی تھی، اور آنکھوں میں چمکتے خوابوں کو حسد۔  کلین شیو کی جگہ ہلکی داڑھی نے لے لی تھی۔ پھر بھی وہ ہمیشہ ماسک لگا کر رکھا کرتا تھا کہ جانتا تھا اسی شہر کے اندر اس کے کئی شاگرد تھے۔ وہ کبھی نہیں چاہتا تھا کہ وہ اسکے شاگرد اسے وہاں دیکھیں جہاں وہ تھا۔
اشعر نے نہ چاہتے ہوئے بھی سر ہلایا اور پوچھا ‘کیسے ہو ثاقب؟’ ثاقب گویا خوشی سے جھوم اٹھا۔ اپنے بارے میں بتانے کے لیے اسکے پاس بہت کچھ تھا۔ پھر وہ یکدم سنجیدہ ہوا اور پوچھنے لگا۔
آپ کہاں چلے گئے تھے سر ؟ کہاں کہاں نہیں ڈھونڈا ہم نے آپکو۔ آپ نے ہم پہ بھی اعتبار نہیں کیا؟
ثاقب کے لہجے میں دکھ تھا۔اشعر نے ثاقب کی آنکھوں میں اتری نمی کو اپنی آنکھوں میں محسوس کیا۔
کیسے پہچان لیا تم نے مجھے اس حلیے اور ماسک کے ساتھ؟ اشعر نے دھیمی سی مسکراہٹ کے ساتھ پوچھا۔
ثاقب آگے بڑھا اور بےساختگی سے اشعر کے ہاتھوں کو آنکھوں کے ساتھ لگا کے کہنے لگا۔
سر آپکو پہچاننے کے لیے آپکا چہرہ دیکھنے کی ضرورت نہیں ہے۔ ہم تو آپکو سنتے تھے، آپکی آواز آپکے الفاظ آج بھی کانوں میں گونجتے ہیں۔۔۔  اور جس آواز نے مجھے ذندگی کی طرف پلٹنے کا شعور دیا ، میری سوچ کو ایک نیا زاویہ دیا، مجھے جینے کی امنگ دی، میں اس آواز کو کیسے فراموش کرسکتا ہوں سر؟
وہ رکا پھر کہنے لگا
 آپ انڈے والے برگر کے بارے میں کسی کو بتا رہے تھے تو مجھے ایسا لگا کہ میں آپکی کلاس میں بیٹھا ہوا ہوں۔ وہ ہنسنے لگا۔ اشعر بھی مسکرایا تھا۔ پھر اشعر نے اسے محبت سے گلے لگا لیا۔ وہ چاہتے ہوئے بھی ثاقب کو یہ نہیں بتا سکا کہ بازار کے بیچ و بیچ برگر کا ٹھیلہ لگا کے وہ ہر شام ہجوم میں کن چہروں کو ڈھونڈتا تھا۔

2 Comments

  • Habibah Batool

    I found your story deeply engaging and thought-provoking. Your vivid descriptions and character development drew me in from the very beginning. The character of Ashar reminds me of your own qualities as a teacher. Just like Ashar, you possess a unique blend of sensitivity, empathy, and integrity. Your dedication to your students, your ability to listen, and your willingness to address their concerns resonate deeply with me. Much like Ashar, you create a supportive and nurturing environment where students feel valued and understood.
    Your story beautifully captures the complexities of human relationships and the challenges we face in navigating societal expectations. It serves as a reminder of the importance of genuine connection and understanding in our interactions with others. Thank you for sharing such a compelling narrative.

  • Sarwat

    Such a lovely, heartwarming and emotional story❣️ Really reminded me of my student life! Some teachers are really Godsend. Mam Anum is also one of the kindest teacher to so many students❣️May Allah bless her

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

×

Send a message to us on WhatsApp

× Contact