تحریر :محمد ثناألحق
;مجھ کو چھاؤں میں رکھا اور خود جلتا رہا دھوپ میں
میں نے دیکھا اِک فرشتہ باپ کے روپ میں;
ناجانے آج کا زمانہ ماں ماں ہی کیوں کہتا ہے وہ بھی زبانی کلامی ۔والدین دنیا کی وہ انمول نعمت ہیں کہ یہ نعمت کھونے کے بعد کبھی بھی نہیں حاصل ہو سکتی۔ماں اگر جنت ہے تو باپ جنت کا دروازہ ،باپ کی رضا اللّہ کی رضا ہے،پھر کیوں آج کے معاشرے میں باپ کو زیر بحث نہیں لایا جاتا ۔باپ وہ عظیم ہستی ہے جو خود کو کبھی سورج کی گرمی تو کبھی سردی کے کُہر سے ٹکرا دیتا ہے۔ایک بیٹے کی ہی نہیں بیٹے کی مامتا کی بھی پرورش کرتا ہے ۔
سمندرکِنارےایک جھوپڑی تھی جس میں ایک غریب لکڑہارا اپنے تین سالا بیٹے اور بیوی کے ساتھ رہتا تھا ایک دن اُن والدین کا لخت جگر سمندر میں گِر گیا تو دونوں بچے کو نکالنے لگے تو ماں غم سے نڈھال ہو گی ماں تو آخر ماں ہے ماں بے ہوش ہو گی مگر باپ جو اُولاد کے لیے ہر چٹان سے خود کو ٹکرا دیتا ہے باپ حوصلے کی مثال ہے جو ماں کی غیر موجودگی میں ماں کا روپ دھار لیتا ہے ۔اتنے میں
باپ نے سمندر سے کہا اپنی لہر سے میرا بچہ باہر پھنک دے مگر سمندر نہ مانا تو باپ بولا دیکھ میں تیرا سارا پانی پی جاوُں گا تجھے ریگستان بنا دونگا تیری طاقت باپ کے سامنے کچھ نہیں، سمندراپنے غرور میں گرجا کہ اے بندے میں چاہوں تو ساری دنیا کو غرق کردوں اور تو میرا کیا بگاڑ سکتا ہے؟
باپ نے اتنا سُنا تو بولا چل پھرخشک ہونے کو تیار ہوجا آج تجھے باپ کی طاقت کا اندازہ ہو گا اسی کےساتھ اُس نےایک گھونٹ بھرا اور دور جاکے تھوکا اور پھرآیا گھونٹ بھراپھر دور تھوکا یہی عمل اُس نے سات سے آٹھ بار دُھرایا تو سمندر گھبرا کے بولا: پاگل ہوگا ہےکیا کیوں مجھےختم کرنےلگا ہے ؟ مگرباپ نےاپنی دُھن میں یہ عمل بار بار کر کیا اتنے میں سمندر نے ایک زور کی لہر ماری اور بچے کو باہر پھینک دیا۔
باپ نے کہا اے طاقت کےبادشاہ تو جو ساری دُنیا کو پل بھر میں غرق کر سکتاتھا اس کمزور سے عمل سے ڈر گیا ؟
سمندربولا تو کیا سجھا میں جو تجھےایک پل میں اُکھاڑ سکتاہوں اک پل میں دُنیا تباہ کرسکتا ہوں اس بندہ نا چیز سے ڈرونگا؟
نہیں میں تواس ایک باپ سےڈرا ہوں باپ کےجذبے سے ڈرا ہوں اک باپ کے سامنے توعرش ہل جاتا ہے تو میری کیا مجال.. جس طرح تو مجھے پی رہی تھا۔ مجھےلگا کہ تو مجھے واقعی ریگستان بنا ہی دےگا
باپ ” اللہ پاک ” کی سب سے عظیم
نعمت ہے جو وقت آنے پر اُلاد کے لیے کسی بھی مشکل کا مقابلہ کرنے کو تیار رہتا ہے۔
ایک باپ ہی نہیں بلکہ دونوں (والدین ) کی قدر کریں یہ نعمت دنیا کی ناپید نعمت ہے ان کے ساتھ جیسا کرۓ گے ویسا اپنے اُلادوں سے پائیں گے۔
لکھاری کا تعارف
محمد ثناألحق ایک متحرک سماجی کارکن اور کالم نگار ہیں -ان کا تعلق باغ آزاد کشمیر سے ہے -وہ اِقرا یونیورسٹی اسلام آباد سے اسلامِک سٹیڈیز سے ماسٹر زکر رہے ہیں -پیشہ صحافت اور تدریس میں بھی دلچسپی رکھتے ہیں -اس کے علاوہ ایک نجی ادارے کے ساتھ بطور رپورٹر کام کر رہے ہیں -۔آبائی گاؤں سیری بھولیاسہ میں سماجی سرگرمیوں میں متحرک کر دار کیا ہے -کالم نگاری علم و ادب ان کا شوق ہے -وہ خود ایک ڈس ایبل شخص ہونے کی وجہ سے معذور افراد کو معاشرے میں باوقار مقام دلانے کے لئے مخلصانہ جہدو جہد کے لئے پر عزم ہیں –
Discover more from Press for Peace Publications
Subscribe to get the latest posts sent to your email.
You must be logged in to post a comment.