آزاد کشمیر کے ضلع میرپور میں قلعہ رام کوٹ جو کہ کسی زمانے میں دریائے جہلم اور دریائے پونچھ کے سنگھم پر واقع تھا اور تین اطراف سے پانی میں گھرا ہوا تھا آج منگلہ ڈیم کے بیچ و بیچ ایک جزیرہ نما بلند ٹیلے پر واقع ہے اور اپنی تنہائی اور بے بسی پر ماتم کناں ہے۔
قلعہ رام کوٹ کس نے اور کب تعمیر کیا؟ اس کا حتمی جواب دینے سے تاریخ قاصر ہے بعضوں کا خیال ہے کہ رام کوٹ قلعہ کے قریب ہی تقریبا 20 کلو میٹر کے فاصلے پر منگلہ کا قلعہ ہے دونوں قلعوں کا یہ فاصلہ ظاہر کرتا ہے کہ یہ دو الگ الگ راجدھانیوں کی نمائندگی کرتے ہیں ، منگلہ کا قلعہ رانی منگلہ سے منسوب ہے جو کہ راجہ پورس کی بیٹی تھی ۔ پورس اور سکندر اعظم کے درمیان 326 ق م میں جو معرکہ ہوا وہ اسی کے نواح میں ہوا تھا ۔ رامائن کے ہیرو رام چندر نے بھی اسی دھرتی پر 1500 ق م جنم لیا ۔ اس علاقے کا قدیم زمانے سے آباد ہونا اس قلعے کی تاریخ کو بھی قدیم ثابت کرتا ہے ۔
کچھ محققین کا کہنا ہے کہ قلعے کا طرز تعمیر اور ڈھانچہ مظفر آباد کے قلعے ریڈ فورٹ سے کافی مماثلت رکھتا ہے جو کہ سولہویں صدی کے وسط میں بنایا گیا تھا یقینا قلعہ رام کوٹ بھی سولہویں صدی کے وسط میں مغل بادشاہ اکبر کی جانب سے ممکنہ حملوں کی روک تھام کے لئے چک خاندان کے بانی غازی چک خان نے بنوایا تھا۔
بعض تارخ دان یہ بھی کہتے ہیں کہ قلعہ رام کوٹ جو کہ گکھڑوں کے دور حکومت میں فوجی ہیڈ کوارٹر کی اہمیت رکھتا تھا اسے گھکڑوں کے سلطان تغلو گکھڑ نے بارہویں صدی کے وسط میں تعمیر کروایا تھا پھر تیرہویں صدی کے وسط میں شھاب الدین غوری نے اس پر حملہ کرکے گکھڑوں کو اس سے بے دخل کیا ۔ اس کے پانچ سو سال بعد یعنی ستارہویں صدی کے اواخر میں گکھڑ رانی منگو نے اس کی تزئین و آرائش کی ۔ بعد ازاں انیسویں صدی میں کشمیر کے ڈوگرا مہاراجہ اس پر قابض رہے ۔
قلعے میں معلوماتی تختیوں کے مطابق اس کی تعمیر غوری سلاطین کے عہد میں 1886 ء میں سلطان غیاث الدین نے کی ہے ۔
قلعہ رام کوٹ کی کوئی بھی تاریخی حیثیت ہو لیکن یہ سچ ہے کہ اس قلعے نے زمانے کے بہت نشیب و فراز دیکھے ہیں ، بہت سی حکومتوں کو بنتے گرتے دیکھا ، زمین کی حیثیت بدلتی دیکھی ہے ، اس نے اپنے اطراف میں دریائے جہلم اور پونچھ کو بہتے دیکھا ہے اور آج سب کچھ کھو کر تن تنہا خستہ حال دیواروں کے ساتھ اپنی عظمت رفتہ کا گواہ بنا کھڑا ہے ۔
قلعہ رام کوٹ دفاعی لحاظ سے ہر دور میں اہمیت کا حامل رہا ہے کیوں کہ قدیم دور میں سری نگر جانے کے جو چار راستے ہوا کرتے تھے ان میں ایک راستہ رام کوٹ سے یعنی اس قلعے کے دامن سے گزرتا تھا علاوہ ازیں اس کا طرز تعمیر بھی بتاتا ہے کہ اس کی تعمیر کا بنیادی مقصد ہی یہ رہا ہوگا ۔ قلعے کے اندر پانی ذخیرہ کرنے کے دو بڑے تالاب ، خام لوہے کی بڑی مقدار ، فصیلوں تک توپوں کو لے جانے کے لئے ڈھلوان دار راستہ ، بندوقچیوں کے لئے بنائے گے سوراخ اس کے فوجی ہیڈ کوارٹر ہونے کی گواہی دیتے ہیں ۔
قلعہ رام کوٹ نہ جانے کب نظروں سے اوجھل ہوا اپنا وجود چھپائے بیٹھا تھا اور شاید کبھی نہ اس کو دیکھا جاتا اگر ہمالین وائلڈ لائف فاؤنڈیشن(غیر سرکاری تنظیم ) کے سربراہ ڈاکٹر انیس الرحمن مچھلی پکڑنے نہ آتے یہ تو اتفاق ہوا کہ وہ 1990ءمیں شکار کی غرض سے آئے اور قلعہ دیکھا تو اس پر توجہ دی ۔ کم و بیش ایک سال کی تگ و دو کے بعد انہوں نے قلعے کو دید کے قابل بنایا ۔
قلعے تک پہنچنے کے لئے منگلہ ریزورٹ سے کشتی بک کروانی پڑتی ہے جو کہ تیز رفتاری کے ساتھ تیس منٹ میں اس پہاڑی ٹیلے کے ساتھ اتارتی ہے جس کی بلندی پر قلعہ واقع ہے وہاں سے کم و بیش چار سو پچاس سیڑھیاں چڑھنے کے بعد قلعے کا مرکزی داخلی دراوزہ خوش آمدید کہتا ہے ۔قلعے پر کھڑے ہوکر اطراف کا نظارہ انتہائی دل کش اور پر کیف ہے ۔ جس سمت بھی دیکھیں دور تک پانی ہی پانی ہے یوں محسوس ہوتا ہے جیسے کسی جزیرے میں آگئے ہوں۔
دیکھ بال نہ ہونے کی وجہ سے قلعے میں جھاڑیاں اور خستہ خالی بڑھ گئی ہے جسے دیکھ کر دکھ ہوتا ہے اگر تھوڑی سی توجہ دی جائے ، صفائی ستھرائی اور دیکھ بال مکمل کی جائے تو یہ قلعہ کشمیر میں سیاحت کو فروغ دینے کا سبب بھی بن سکتا ہے اور اپنی داستاں کا عام بھی کرسکتا ہے ۔
Discover more from Press for Peace Publications
Subscribe to get the latest posts sent to your email.