You are currently viewing مدینہ منورہ کا تاریخی قلعہ قباء تحریر. پروفیسر محمد اکبر خان
masjid quba

مدینہ منورہ کا تاریخی قلعہ قباء تحریر. پروفیسر محمد اکبر خان

تحریر.پروفیسر محمد اکبر خان

 خوش قسمتی سے اس بار مدینہ منورہ میں قیام کے دوران متعدد مرتبہ جادہ قبا کے راستے سے گزرتے ہوئے مسجد قبا جانے کا موقع ملا. قبا کا علاقہ مسجد نبوی سے تین کلومیٹر کے فاصلے پر ہے دور نبوی صل اللہ علیہ والہ وسلم میں مدینہ منورہ موجودہ مسجد نبوی جتنا ہی تھا ان دنوں قبا مدینہ منورہ کا نواحی علاقہ ہوا کرتا تھا. مسجد نبوی سے پیدل مسجد قباء طرف چلیں تو اسلام کی اولین مسجد، مسجد قبا اور مسجد جمعہ جہاں رسول اکرم صل اللہ علیہ والہ سلم نے نماز جمعہ ادا فرمائی تھی اس سے کچھ  پہلے سیدھے ہاتھ کی طرف ایک بلند اور قدیم طرز تعمیر کی عمارت دکھائی دیتی ہے پہلی بار جب میری نگاہ اس پر پڑی تو  کچھ دیر غور غوص کے بعد ہی یہ اندازہ ہوگیا تھا  کہ یہ ایک تاریخی عمارت ہے ارد گرد جنگلا نصب تھا اندر جانے کی ممانعت تھی اور عمارت پر بحالی کے کام کے آثار واضح تھے بعد ازاں تحقیق سے معلوم ہوا کہ اس  تاریخی عمارت کا نام قلعہ قباء  ہے.جو جنگی مقاصد کے لیے تعمیر کیا گیا تھا. یہ قلعہ مشہور عثمانی فوجی جرنیل  فخری پاشا کے حکم پر 1915 عیسوی میں تعمیر کیا گیا. فخری پاشا کے نام سے مشہور ہونے والی اس شخصیت کا پورا نام عمر فخر الدین ترکان تھا وہ 1868 عیسوی میں بلغاریہ کے شہر “روسی” میں پیدا ہوئے جو اس وقت سلطنت عثمانیہ کا حصہ تھا. وہ سلطنت عثمانیہ کی افواج کا حصہ بنے اور آرمینیا، لیبیا، موصل اور مدینہ منورہ میں تعینات رہے. پہلی جنگ عظیم میں جب شریف مکہ نے لارنس آف عربیہ کی سازشوں کے جال میں پھنس کر عثمانی سلطنت کے خلاف برطانوی فوجی معاونت سے بغاوت کا علم لہرایا تو انھیں مدینہ منورہ بھیجا گیا یہی وجہ ہے کہ انھیں محافظ مدینہ بھی کہا جاتا ہے. انھوں نے قبا کے علاقے میں قدرے بلند مقام پر اس قلعے کی تعمیر کا حکم دیا تاکہ مدینہ منورہ کو ھاشمی باغیوں کے حملوں سے بچایا جا سکے. طویل محاصرے کے بعد مدینہ منورہ سے ترکوں کے اقتدار کا خاتمہ تو ہوگیا بعد ازاں فخری پاشا کو ترکی کی حکومت نے افغانستان میں اپنا سفیر تعینات کر دیا.البتہ ان کے حکم پر تعمیر کردہ قلعہ آج بھی موجود ہے.  یہ قلعہ ایک تین  منزلہ مضبوط عمارت ہے جسے مدینہ منورہ کے مقامی سیاہ پتھروں سے تعمیر کر کے اس پر سفید پلاستر کیا گیا ہے. اس قلعے کا صرف ایک ہی دروازہ رکھا گیا تھا جو ہنوز موجود ہے. اسلام کی پہلی مسجد قبا سے اس کا فاصلہ تقریباً ڈیڑھ کلومیٹر ہے. اسے قلعہ بنوقینقاع بھی کہا جاتا ہے. بعض روایات کے مطابق یہ قلعہ عین اس مقام پر تعمیر کیا گیا جہاں ہجرت مکہ کے بعد مدینہ پہنچنے پر وہاں کے لوگوں نے رسول اللہ صل اللہ علیہ والہ سلم اور حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا استقبال کیا تھا.میں جب قلعے کے قریب پہنچا تو دیکھا کہ قلعہ قباء قدرے بلند چٹان پر تعمیر کیا گیا ہے اس وقت قلعے کے آس پاس بہت سی بلند و بالا رہائشی عمارات موجود ہیں جن میں سے اکثر قلعے سے بھی کافی بلند ہیں میں نے اچھی طرح گھوم پھر کر دیکھا مگر پورے قلعے کو ایک عارضی حفاظتی رکاوٹ سے بند کیا ہوا تھا اندر داخلے کی کوئی سبیل دکھائی نہ دی غالباً بحالی کا کام پورا ہوجانے کے بعد ہی اسے سیاحوں کے لئیے کھولا جائے گا. میں صبح سویرے وہاں پہنچا تھا آس پاس مکمل خاموشی طاری تھی اور  مدینہ منورہ کی اس  خوشگوار صبح وہاں صرف پرندوں کی آوازیں ہی سنائی دے رہی تھیں یا قلعے سے کچھ ہی فاصلے پر واقع مسجد نبوی صل اللہ علیہ والہ سلام سے مسجد قبا جانے والے راستے پر پیدل چلنے والے لوگوں کی دھیمی دھمیی آوازیں. قلعے کا اچھی طرح جائزہ لے کر میں مسجد میں قبا کی طرف سے روانہ ہوگیا. سعودی حکومت نے سیاحت کے فروغ کی خاطر پوری مملکت میں موجود تاریخی، ثقافتی اور دینی آثار اور یادگاروں کو محفوظ کرنے کا منصوبہ بنا رکھا ہے جس کے تحت بے شمار مقامات پر بحالی اور تعمیر نو کے کام جاری ہیں. امید  ہے کہ بحالی و مرمت کے بعد یہ قلعہ سیاحوں کی لیے کھول دیا جائے گا اور سیاحوں کو اپنی طرف متوجہ کرے گا۔

This Post Has One Comment

  1. editor_1

    ماشا اللہ ، بہت معلوماتی مضمون ہے۔

Leave a Reply