مظہر اقبال مظہر
بھارتی مقبوضہ جموں و کشمیر میں رہنے والے پہاڑی قبائل کی امیدیں آج کل عروج پر ہیں۔ پیر پنجال کی پہاڑیوں کے دامن میں سینکڑوں دیہات پر مشتمل پہاڑی خطے کے لوگ نئے جوش و جذبے کے ساتھ جاگ رہے ہیں کہ انہیں اب شیڈول کاسٹ کے زمرے میں شمولیت کا دیرینہ مطالبہ پورا ہو جائے گا۔
نوے کی دہائی میں بھارت کی مرکزی حکومت نے جموں و کشمیر کے سات قبائل کو شیڈیول کاسٹ کا درجہ دیا، جن میں گجر بکروال بھی شامل تھے ، لیکن پہاڑی قبائل اس سہولت سے محروم رہے۔
بھارت سرکار گلا پھاڑ کر اور پورا زور لگا کر کہہ رہی ہے کہ پہاڑی قبائل سے تعلق رکھنے والے لوگ مرکز سے یہ مطالبہ کر رہے ہیں۔ موجودہ سیاسی حالات میں یہ اندازہ لگانا بہت مشکل ہے کہ اس میں کتنی حقیقت ہے ؟
خاص طور پر جب وزیر اععظم مودی نے لال قلعہ کی فصیل سے پہاڑی قبیلے کے مطالبات کا ذکر کرنا مناسب سمجھا اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے جموں میں ایک ریلی کے دوران ان کے دست راست امیت شاہ کی یقین دہانی نے پہاڑی کمیونٹی میں جوش و خروش بھر دیا ہے۔
مقبوضہ جموں و کشمیر کے لوگوں کو یہ بتایا جا رہا ہے کہ پہاڑی لوگوں کو ایس ٹی کا درجہ دینے کا ایک جواز ہے۔کیونکہ جموں و کشمیر کے جس ریجن میں پہاڑ ی بولنے والے رہتے ہیں وہاں نہ تو صنعتیں لگائی گئی ہیں اور نہ ہی روزگار کا کوئی دوسرا بڑا ذریعہ فراہم کیا گیا ہے۔
معاشی تنگدستی اور غربت کی وجہ سے پہاڑی لوگ اکثر اپنے بچوں کو مناسب تعلیم فراہم کرنے میں پیچھے رہ جاتے ہیں۔ شائید یہی وجہ ہے کہ یہ خطہ اب تک معاشی، سماجی، تعلیمی حتیٰ کہ سیاسی تنزلی کا شکار رہا ہے۔
اور جموں و کشمیر کے وہ اضلاع جو پیر پنجال کی پٹی کے ساتھ ہیں وہاں کے لوگوں کا معیار زندگی بہتر ہونے کی یہی ایک راہ ہے کہ انہیں بھی سیاسی فوائد دئیے جائیں۔
ان سیاسی فوائد کی پہلی برسات پیر پنجال کے دور افتادہ علاقے بھٹنڈی کے رہنے والے انجینئر اور بی جے پی کے دیرینہ سرگرم کارکن غلام علی کی راجیہ سبھا کے لیے نامزدگی کی صورت میں برسی ہے۔
مگر دوسری جانب اسی خطے سے تعلق رکھنے والی گوجر بکروال برادری کے سینکڑوں لوگوں نے الزام لگایا ہے کہ بھارت سرکار غیر شیڈول ٹرائب (ایس ٹی) لوگوں کو ایس ٹی زمرہ میں شامل کر کے ان کے حقوق کا استحصال کرنے جار ہی ہے۔ انہوں نے تو کئی جگہوں پر احتجاج بھی کر دیا۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ سب ڈرامہ ووٹ بینک کی سیاست کے لیے کیا جا رہا
ہے جبکہ ہماری کمیونٹی کو پسماندہ کیا جا رہا ہے۔ ہمارے لوگ خیموں میں رہ رہے ہیں اور خانہ بدوش ہیں پھر بھ ہمارے کوٹے پر سمجھوتہ کیا جا رہا ہے۔ اگر حکومت کسی اور کمیونٹی کو کوٹہ دینا چاہتی ہے تو انہیں الگ کوٹہ فراہم کرے
ایک سماجی کارکن مشتاق پہلگامی کے خیال میں جموں و کشمیر میں گجر بکروال اور دوسرے قبیلوں کو سال 1991 میں مرکزی سرکار کی طرف سے شڈول ٹرائب (ST) کا درجہ دیا ملنے کے بعد ان کے رہن سہن میں کچھ بہتری آئی مگر گجر برادری پر نظر ڈالی جائے تو یہاں ابھی بھی ان لوگوں کی غربت اور خستہ حالی صاف نظر آتی ہے ۔
یہ لوگ ابھی بھی چناب وادی اور پیر پنجال کے گجر و بکروال کے ساتھ تعلیم اور دوسرے شعبوں میں مقابلہ نہیں کر سکتے ہے جموں صوبہ کا گجر کشمیر صوبہ کے گجر سے تعلیم میں بہت آگے ہیں۔ اس کا مطلب کشمیر کے گجّروں کو آج تک ST میں جو فائدہ حاصل ہونا چاہئے تھا ویسا نہیں ہورہا، اور اس کا زیادہ فائدہ جموں صوبہ کے ST آبادی کو ہی حاصل ہوتا گیا ۔
اور یہی وجہ ہے کہ یہاں کشمیر صوبہ کے گجر برادری کو اپنی زندگی کسم پرسی کی حالت میں گزارنی پڑتی ہے اور ان کی حالت ابھی تک بہتر نہیں ہوئی ہے ۔ کچھ وقت سے کہا جاتا ہے کہ موجودہ شڈول ٹرائب )ST ) کوٹہ میں کچھ حصہ نکل کر پہاڑی طبقے کو دیا جائے گا۔۔۔
ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ۔ ہم مانتے ہے کافی تحداد میں جموں و کشمیر میں رہنے والے پہاڑی طبقے سے تعلق رکھنے والے لوگ بھی غربت کی لکیر سے نیچے اپنی زندگی بسر کرنے پر مجبور ہے مگر مردم شماری سال 2011 کے مطابق جس طرح گجّر و بکروال طبقے کی حالت ہر طرح سے کمزور ہے۔
ایسی حالت یہاں کشمیر میں شاید اور کسی طبقے کی نہیں ہے ۔۔۔تو اگر سرکار پہاڑی طبقے کو کوئی بھی مراعات دینا چاہتا ہی انکو دیا جائے جو انکا حق ہیں۔۔
مگر جو موجودہ کوٹہ جو گجر و بکروال برادری کے لئے مخصوص رکھا گیا ہے اس پر کوئی بھی اثر نہ ڈالا جائے جس سے گجّر و بکروال قوم کی موجودہ پسماندہ حالات اور خراب ہو جائے ۔۔۔
کشمیر میں گجر کی کل آبادی 14 لاکھ کے قریب ہیں اور پہاڑی لوگوں کی کل آبادی 10 لاکھ کے قریب ہیں تو دونوں طبقے اپنے جگہ پر اہمیت رکھتے ہے اور دونوں کی اہمیت کو سمجھ کر سرکار کو کوئی بہتر فیصلہ کرنا چاہئے جس سے کسی بھی برادری کا نقصان نہ ہو اور ہر کسی کے ساتھ بہتر انصاف ہو خاص طور سے جو یہاں گجر اور بکروال لوگوں کی مالی طور ،تعلیمی طور اور دوسرے طریقوں سے کمزور حالت ہیں اس کو بہتر بنانے کی کوشش ہونی چاہئے تاکہ یہ لوگ بھی سماج میں برابری،خوشحال اور عزت کی زندگی بسر کر سکے۔
Discover more from Press for Peace Publications
Subscribe to get the latest posts sent to your email.