دنیا بھر میں حالیہ چند برسوں میں توانائی کی طلب میں مسلسل اضافہ ہو اہے۔ مگر خوش آئند بات یہ ہے کہ مضر اثرات والی توانائی سے دُوری اور پائیدار و صاف توانائی کے حصول کا سفر شروع ہو چکا ہے۔ عمومی طور پر بڑھتی ہوئی آبادی، صنعتی ترقی، اور معیار زندگی میں بہتری توانائی کی طلب میں اضافہ کی وجوہات سمجھی جاتی ہیں۔ تاہم توانائی کی طلب و رسد کے حوالے سے دنیا کو جن دیگر چیلنجز کا سامنا ہے ، ان میں موسمیاتی تبدیلیاں، محدود فاسل فیولز، توانائی کی سیکیورٹی اور نئی ٹیکنالوجی کی ترقی شامل ہیں۔وجوہات کچھ بھی ہوں ، توانائی کے وسائل کو پورا کرنے کے لیے جس قدر نئے اور موثر طریقے تلاش کرنے کی ضرورت دنیا کو اب ہے وہ اس سے پہلے کبھی نہیں تھی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ فاسل توانائی کے ذرائع مثلاً تیل، گیس اور کوئلہ بہت تیزی سے موسمیاتی تبدیلیوں کا باعث بن رہے ہیں۔ اس لیے ان پر انحصار کم کرنا اور قابل تجدید توانائی کے ذرائع کی طرف توجہ مرکوز کرنا انتہائی ناگزیر ہو چکا ہے۔
تیزی سے رونما ہوتی ہوئی موسمیاتی تبدیلیاں دنیا بھر کے توانائی کے نظام کو متاثر کر رہی ہیں اور مستقبل میں مزید چیلنجز پیدا کر سکتی ہیں۔ مثال کے طور پر، شدید موسمی واقعات توانائی کی پیداوار اور تقسیم کو متاثر کر سکتے ہیں۔ اسی طر ح توانائی کی سیکیورٹی ایک اہم چیلنج ہے، خاص طور پر ان ممالک کے لیے جو توانائی کے لیے دوسرے ممالک پر انحصار کرتے ہیں۔اس کے علاوہ نئی توانائی کی ٹیکنالوجی کو تیار کرنا اور اس کو وسیع پیمانے پر لاگو کرنا ایک مہنگا اور وقت طلب عمل ہے۔ ان وجوہات کی بنا پر مستقبل کی توانائی کے حل کو پائیدار ہونا چاہیے۔ اس کا سادہ سا مطلب یہ ہے کہ مستقبل کی توانائی کے ذرائع کو ماحولیات، معیشت اور سماج کے لیے فائدہ مند ہونا چاہیے۔
پائیدار توانائی سے مراد وہ توانائی ہے جو مستقبل کی نسلوں کی توانائی کی ضروریات کو پورا کرنے کی صلاحیت پر کوئی سمجھوتہ کیے بغیر حاصل کی جاسکتی ہے۔ پائیدار توانائی کے ذرائع فاسل توانائی کے برخلاف ماحول پر کم سے کم یا نہ ہونے کے برابر مضر اثرات ڈالتے ہیں۔یہ ذرائع، مثلاً شمسی توانائی ، ہوا اور زمینی حرارت عالمی توانائی کی ضروریات کے لیے طویل مدتی حل فراہم کرتے ہیں۔ اگرچہ پائیدار توانائی کی ٹیکنالوجی کو ترقی دینے اور اس سے استفادہ کرنے کے لیے ابتدائی سرمایہ کاری درکار ہوتی ہے، لیکن خود یہ ذرائع قدرتی وسائل ہونے کی وجہ سے مفت ہوتے ہیں اورایک طویل عرصے تک سستا اور ماحول دوست ایندھن فراہم کرتے ہیں۔
تاہم اس ضمن میں پائیدار توانائی اور قابل تجدید توانائی کے مابین فرق کرنا ضروری ہے، کیونکہ یہ دونوں اصطلاحات اکثر ایک دوسرے کے متبادل کے طور پر استعمال ہوتی ہیں، لیکن ان میں ایک باریک سا فرق موجود ہے۔پائیدار توانائی کو فطری طور پر لامحدود تصور کیا جاتا ہے، جبکہ قابل تجدید توانائی، اگرچہ دوبارہ پیدا کی جا سکتی ہے، مگر مناسب دیکھ بھال نہ کی جائے تو یہ بھی ختم ہو سکتی ہے۔ مثال کے طور پر، بائیو ماس اور ہائیڈرو پاور جیسے تجدیدی توانائی کے ذرائع قدرتی وسائل پر منحصر ہیں جو اگرچہ دوبارہ پیدا ہو سکتے ہیں، مگر زیادہ استعمال یا ناقص انتظام کے باعث ختم ہو سکتے ہیں۔ جب ہم توانائی کے تناظر میں بائیوماس کی بات کرتے ہیں تو اس سے مراد وہ جاندار مادہ ہوتا ہے جسے جلا کر یا کیمیائی عمل سے گزار کر توانائی حاصل کی جا سکتی ہے۔
پائیدار توانائی کے ذرائع توانائی کی فراہمی کو قابل اعتماد بناتے ہیں اور اس کے ختم ہونے یا خراب ہونے کا خطرہ نہیں ہوتا، جو کہ مستقبل کی توانائی کے چیلنجز سے نمٹنے کے لیے نہایت اہم ہے۔ مزید برآں، ان ذرائع کے عام طور پر ماحول پر منفی اثرات کم یا بالکل نہیں ہوتے، جبکہ فوسل فیولز موسمیاتی تبدیلی کے بڑے اسباب میں شامل ہیں۔ اگرچہ پائیدار توانائی کے نظاموں کی ترقی میں ابتدائی لاگت شامل ہے، لیکن خود اس قسم کی توانائی اکثر مفت ہوتی ہے، جو اسے ایک قابل عمل اور دیرپا حل بناتی ہے۔پائیداری کا تصور موجودہ ضروریات کو پورا کرنے کی صلاحیت کو بیان کرتا ہے بغیر اس کے کہ مستقبل کی نسلوں کی ضروریات پر سمجھوتہ ہو۔ توانائی کے حوالے سے، پائیداری میں ان وسائل کا استعمال شامل ہے جو یا تو دوبارہ پیدا ہو سکتے ہیں یا لامحدود ہیں، تاکہ سب کے لیے مسلسل اور قابل بھروسہ توانائی کی فراہمی کو یقینی بنایا جا سکے۔
دنیا بھر میں عوام کے درمیان موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کے بارے میں شعور بڑھ رہا ہے، جس کے نتیجے میں صاف توانائی کے حل کی مانگ میں اضافہ ہوا ہے۔ مثال کے طور پر، سویڈن اور ناروے جیسے ممالک نے پائیدار توانائی کے حوالے سے نمایاں قدم اٹھائے ہیں اور فوسل فیول کے بجائے ہائیڈرو پاور اور شمسی توانائی کے استعمال پر زور دیا ہے۔ سویڈن میں نوجوان ماحولیاتی کارکن گریٹا تھنبرگ کی پرزور وکالت نے نوجوانوں اور دیگر عوامی حلقوں میں موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے لیے تحریک پیدا کی، جس کے نتیجے میں یورپ سمیت دنیاکے کئی ممالک میں قابل تجدید توانائی کے استعمال میں اضافہ دیکھنے میں آیا۔ مثال کے طورپر کئی ممالک نے موسمیاتی بحران سے نمٹنے کے لیے مستقبل قریب میں نیٹ زیرو کاربن اخراج کے قابل حصول اہداف مقرر کر کے کئی منصوبے شروع کر دئیے ہیں۔ مثال کے طور پر ڈیزل اور پٹرول کی جگہ الیکٹرک گاڑیوں کا استعمال عام کر دیا ہے۔
قابل تجدید توانائی کی ٹیکنالوجی جیسے کہ شمسی توانائی اور ہوا سے حاصل شدہ توانائی کے ساتھ ساتھ بیٹری اسٹوریج میں جدید ترقی نے ان ذرائع کو سستا اور مؤثر بنا دیا ہے۔ شمسی توانائی کے پینلز کی قیمتیں پچھلی دہائی کے دوران تیزی سے کم ہوئی ہیں، جس سے ان کی رسائی عام صارفین اور چھوٹے کاروباروں تک بڑھ گئی ہے۔ ہوا کی توانائی کے شعبے میں بھی ٹربائن کی کارکردگی کو بہتر بنانے کے لیے جدت کی گئی ہے، جیسے کہ جنرل الیکٹرک کی جدید ونڈ ٹربائنز جو زیادہ بجلی پیدا کر سکتی ہیں ۔ الیکٹرک گاڑیاں بنانے والے مشہور بڑی کمپنی ٹیسلا کی پاور وال بیٹری اب گھروں میں استعمال کی جاتی ہے تاکہ شمسی توانائی کو محفوظ کیا جا سکے اور بجلی کی کمی کے اوقات میں استعمال کیا جا سکے۔ اس کے نتیجے میں کئی ممالک میں چھوٹے گھروں اور کاروباروں میں پائیدار توانائی کی رسائی ممکن ہوئی ہے۔
اسی طرح کئی حکومتیں قابل تجدید توانائی کے استعمال کو فروغ دینے کے لیے متعدد پالیسیاں نافذ کر رہی ہیں، جن میں سبسڈیز، ٹیکس میں چھوٹ، اور فیڈ-ان ٹیرف شامل ہیں۔ امریکہ میں انفلیشن ریڈکشن ایکٹ 2022 نے قابل تجدید توانائی کی ٹیکنالوجیز میں بھاری مراعات فراہم کی ہیں، جس سے شمسی اور ہوا کی توانائی کے پروجیکٹس میں سرمایہ کاری میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ اسی طرح چین، جو دنیا میں سب سے زیادہ کاربن اخراج کرنے والا ملک ہے، اس نے شمسی توانائی کی پیداواری صلاحیت میں عالمی سطح پر برتری حاصل کی ہے۔ حکومت کی طرف سے سبسڈیز اور توانائی پالیسیز کی وجہ سے چین میں شمسی توانائی کے بڑے پلانٹس کا قیام ممکن ہوا۔
ترقی یافتہ ممالک میں کارپوریٹ سیکٹر میں استحکام کے اقدامات کے نتیجے میں کمپنیاں اپنے کاروباری ماڈلز میں صاف توانائی کو شامل کر رہی ہیں۔ مثال کے طور پر، گوگل اور ایپل جیسی بڑی کمپنیاں اپنے ڈیٹا سینٹرز کو قابل تجدید توانائی سے چلانے کے عزم میں مصروف ہیں۔ 2030 تک، ایپل نے کاربن نیوٹرل ہونے کا عہد کیا ہے اور اپنے سپلائی چین کو بھی پائیدار بنانے کے اقدامات کر رہی ہے۔اسی طرح مائیکروسافٹ نے کاربن نیگیٹیو بننے کا اعلان کیا ہے اور 2050 تک اپنے کاربن اخراج کو ختم کرنے کا عزم کیا ہے۔ اس مقصد کے لیے کمپنی نے قابل تجدید توانائی کی پروجیکٹس میں سرمایہ کاری شروع کر دی ہے۔
موسمیاتی تبدیلی کے مسئلے سے نمٹنے کے لیے بین الاقوامی تعاون بھی ضروری ہے۔ پیرس معاہدہ 2015 ایک اہم معاہدہ ہے جس کے تحت دنیا بھر کے ممالک نے 2 ڈگری سینٹی گریڈ سے کم درجہ حرارت کے اضافے کو برقرار رکھنے کے لیے کام کرنے کا عہد کیا تھا۔ یہ معاہدہ عالمی سطح پر موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے لیے حکومتی اور نجی شعبوں میں تعاون کی اہمیت کو اجاگر کرتا ہے۔اس ضمن میں یورپی یونین اور افریقی یونین کے درمیان صاف توانائی کے پروجیکٹس کے لیے مشترکہ سرمایہ کاری اور تعاون کی مثالیں دیکھنے کو ملی ہیں، جن کا مقصد افریقی ممالک میں قابل تجدید توانائی کی سہولتوں میں اضافہ کرنا اور کاربن کے اخراج کو کم کرنا ہے۔یہ رجحانات اس بات کا مظہر ہیں کہ دنیا بھر میں موسمیاتی تبدیلی اور صاف توانائی کے حل کے لیے جامع اقدامات کیے جا رہے ہیں، جس کا مقصد مستقبل میں ایک پائیدار اور قابل برداشت توانائی کا نظام بنانا ہے۔
Discover more from Press for Peace Publications
Subscribe to get the latest posts sent to your email.