مجیداحمد جائی ۔
ماضی ہمیشہ یادیں بن کر انسانی زندگی کے ساتھ ساتھ سفر کرتا رہتا ہے۔یادیں حسین ہوں تو حال اور مستقبل قدرے آسان بسر ہوتا ہے اور اگران یادوں میں دُکھ درد ،غم الم اورمعاشرے کی تلخیاں شامل ہوجائیں توزندگی کا ہر گزرتالمحہ روگ بن جاتا ہے شاید اسی لیے ماضی کو عذاب سے تشیبہ دی گئی ہے۔انسانی زندگی گزرتے لمحوں کے ساتھ مختلف تجربات ،مشاہدات کشید کرتی رہتی ہے یوں زندگی کے اندر واقعات کا انبارلگ جاتا ہے۔ان واقعات اور تجربات ومشاہدات کولفظوں کا روپ دیا جائے تو زندگی کے شب وروز حسین ہو جاتے ہیں ۔ایسا نہ ہوتو یہ یادیں،ماضی بن کر دیمک کی طرح انسان کو اندر ہی اندر چاٹتا رہتا ہے اور بلاآخر انسان ختم ہوکر منوں مٹی میں ہمیشہ کے لیے سو جاتا ہے ۔ممتاز غزنی یادوں کے حوالے سے یوں رقم طراز ہوتے ہیں ”یادیں عمر کا حاصل ہوتی ہیں اور تنہائیوں کی محفلیں سجانے کا سامان بھی ۔سوچ اور ہاد میں بہت ہی معمولی فرق ہے ۔سوچ اور یاد کی سر زمین ایک ہے ۔بس درمیان میں ایک باریک لکیر لگا دی گئی ہے ۔آپ سوچ کی سرزمین پر ہیں یا یاد کی ،اس کا پتا ایسا لگتا ہے کی یاد کی سر زمین کی فصل ماضی ہے اور سوچ کی سرزمین کی فصل حال ہے ۔“
”دیپ بکھری یادوں کے“ایک ایسی ہی کتاب تخلیق ہوئی ہے ۔جس میں بیتے ہوئے لمحوں کی کہانیاں ہیں جو یادیں بن کر مصنفہ کے ذہن و دل پر گردش کرتیں رہتی ہیں۔ جس کا مطالعہ کرتے ہوئے مصنفہ کے ساتھ ساتھ قاری بھی ان وادیوں ،پربتوں،آبشاروںسے لطف لیتا ہے ۔ان گزرے لمحوں میں قاری بھی مصنفہ کے ساتھ سفر کرتا ہے ۔کبھی پربتوں کو جذبوں کے ساتھ سر کیا جاتا ہے اور کبھی ماحول کو خراب کرنے اوفضائی آلودگی پھیلانے والوں کو احساس دلایا جاتا ہے کہ یہ حسین و خوبصورت مقام لطف لینے کے لیے ہیں گندگی پھیلانے کے لیے نہیں ۔
نسیم سلیمان شعبہ تدریس سے وابستہ ہیں ۔آپ گھبرائیں تو نہیں ناں۔یہ نام جب پہلی بار میری سماعتوں سے ٹکرایا تھاتو تخیلاتی طور پر چالیس پچاس سالہ بزرگ کا حلیہ میرے تخیل پرگردش کرنے لگا تھا۔جس طرح آپ نام پڑھ کر سوچ رہے ہیں کہ مرد ہے یا عورت ۔لیکن تھوڑی دیر بعد جب میں نے ”یادوں کی الماری “کا پیش لفظ پڑھا تو آشکا ر ہوا ،نسیم سلیمان لکھاریہ ہیں۔”یادوں کی الماری“ نے مجھے اندر سے جھنجوڑ کر رکھ دیا تھا جو واقعات اس میں دئیے گئے تھے ،ان کوپڑھتے ہوئے دل رویا،آنکھیں برسی اور میںتڑپتا رہا ۔اسی کتاب سے میں نسیم سلیمان کا گروید ہوااور اس قلم کی نوک سے صفحہ قرطاس پر پھیلے لفظوں کا شدت سے انتظار رہنے لگا ۔انتظار تو انتظار ہی ہوتا ہے جس میں کرب تو ہو سکتا ہے راحت نہیں ۔خیر بھلاہو نسیم سلیمان کا ،جنہوں نے زیادہ انتظار نہیں کرایا اور ”دیپ بکھری یادوں کے “یادوں کا مجموعہ ہماری دسترس میں آگیا۔
اب”دیپ بکھری یادوں کے“منظر عام پرجوآئی ہے ۔اس کتاب کو یادوں کی الماری کی بہن کہہ سکتے ہیں۔یہ اسی سلسلے کی اگلی کڑی ہے۔لیکن ”یادوں کی الماری “اور”دیپ بکھری یادوں کے“میں فرق ہے ۔”یادوں کی الماری“ میں البیلی یادیں ہیں ،شرارتیں ہیں ،چاہت محبت کے سچے جذبوں کا اظہارہے۔پربتوں کی کہانیاں ہیں ،پھلوں ،سوغاتوںکے قصے ہیں ۔بزرگوں کے شیریں مٹھاس لہجوں کی کہانیاں ہیں ،ماﺅں کی ممتا کی کہانیاں ہیں ۔
لیکن ”دیپ بکھری یادوںکے “کرب ناک یادوں کا مجموعہ ہے ۔یہ یادیں سسکتی ہوئی ،آنسو بہاتی نوحہ کناں اور معاشرے کے ستم ظریفی کا نوحہ پیش کررہی ہیں ۔معاشرے کے ناسوروں کا المیہ پیش کر رہی ہیں ۔ان یادوں میں بچھڑنے والوں کا ذکر ہے ۔ان بچھڑنے والوں کا جو کروناوباءسے اس جہاں سے دوسرے جہاں کا سفر کر گئے ہیں۔کہیں آلودگی پر آنسو بہائے گئے ہیں ،کہیں غفلتوں کاذکرہے اور کہیں سیاحوں سے گلہ ہے کہ جنت نظیر وادی کی سیاحت کے لیے آتے ہیں لطف لیتے ہیں لیکن جاتے ہوئے کوڑاکرکٹ کے انبار لگاجاتے ہیں ۔صفائی ستھرائی کا خیال نہیں کرتے اور ماحول کو خراب کرتے ہیں ۔
”دیپ بکھری یادوں کے “میں ڈائری نما چھوٹے چھوٹے مضامین ہیں۔یہ ڈائری ہمیںبیتے لمحوں میں غوطہ زن کرتی ہے ۔جنت نظیروادی کشمیر کے پربتوں ،آبشاروں اور حسین وادیوں کی سیر کرواتی کتاب ہے۔مجھے کشمیر سے دلی محبت ہے۔اس کے باسی محبتوں کے امین ہیں ۔میں خوش نصیب ہوں کے اس وادی کے قلمکار ،ادیب ،اساتذہ میرے رابطے میں رہتے ہیں ۔میری دلی تمنا ہے کہ اس وادی میں شب روزبسرکروں ۔ٹھنڈی ٹھنڈی ہواﺅں سے روح کو سرشار کروں ۔قدرت کی اس میں کوئی مصلحت ہوگی کہ جنت نظیر وادی کہلانے والی ناسوروں کے قبضہ میںہے اور وہ معصوم لوگوں کے ناحق خون سے رنگین کر رہے ہیں۔
کشمیر کے خمیر میں محبت ہے ،چاہت ہے،مہمان نوازی ہے ۔یہاں کے باسیوں کے لب ولہجہ میں مٹھاس ہی مٹھاس ہے ،خلوص ہے ۔وہ چاہے صاحب کتاب استاد” ممتاز غزنی“ ہوں یا” مظہراقبال مظہر “،”سراج احمد تنولی“ ہوں یا” نسیم سلیمان“ اوران جیسے دیگر اس وادی کے قلمکار۔نسیم سلیمان سے رابطہ ”یادوں کی الماری“منظرعام آنے سے ہوا تھا،نسیم سلیمان بہترین قلمکار،ادیبہ اوراستاد ہیں ۔یہی نہیں آپ بہترین بہن ہیں ،محبت کرنے والی ماں ہیں ، محبت بانٹنے والی سہیلی ہیں ،بچوں کے لیے سایہ شفقت ہیں ،بڑوں کے لیے ملنسار بااخلاق ہیں ۔جب کرونا کی وبا ¾ کی لپیٹ میں آئیں تو ہم دل سے دعا صحت کی دعائیں کرتے رہے ۔نسیم سلیمان نے اس وباءسے خوب مقابلہ کیا ،مایوس نہیں ہوئیں بلکہ قلم قرطاس سے دل لگا لیا اور یوں ”دیپ بکھری یادوں کے “کے وجود میں آئی ۔اللہ تعالیٰ ان کے علم وعمل برکت عطا فرمائے اور صحت کاملہ کے ساتھ زندگی بسر کرائے آمین ۔!
”یادوں کی الماری“ اور” دیپ بکھری یادوں کے“ ،دونوں کتابیں پیارے دوست ،صاحب کتاب استاد” ممتاز غزنی“نے مجھ تک پہنچائی ہیں۔گاہے گاہے میری ادبی پیاس بجھانے کے لیے کتب ارسال کرتے رہتے ہیں۔میری دل کیفیت کہہ لیں یا کمزور ی ،استاد کالفظ سنتے ہی میںقربان ہو جاتا ہوں اور یہ دونوں شخصیت استاد ہیں ۔ان سے ہر وقت سیکھنے کو ملتا ہے ۔اللہ تعالیٰ مجھے استادوں سے ملاتا رہتا ہے ۔
”دیپ بکھری یادوں کے “۲۵۱صفحات پرمشتمل خوبصورت اور معیاری کتاب ہے۔کتاب کے آخرمیں آٹھ رنگین صفحات پر تصاویر دی گئیں ہیں۔البتہ ”یادوں کی الماری “کتاب کی طرح تصاویر اندرونی صفحات پر ہوتی تو اچھا ہوتا۔”دیپ بکھری یادوں کے“کا انتساب پیارے بھائی سردارصغیر ایڈوکیٹ کے نام کیا گیا ہے۔
پیش لفظ میںمصنفہ کسر نفسی سے کام لیتے ہوئے لکھتی ہیں کہ میں ادنی سی لکھاری ہوں پس اپنی زندگی کی یادوں کو صفحہ قرطاس پربکھیرتی رہتی ہوں ۔میں کہوں گا لکھاری ادنیٰ یا اعلیٰ نہیں ہوتا ،لکھاری ،لکھاری ہوتا ہے۔ جو دل کی بات لفظوں کی صورت قرطاس پر پھیلائے اور ان لفظوں سے کسی اور کی زندگی کابھی راستہ نجات متعین ہوجائے تو وہ عظیم ہوتا ہے ادنی ٰ نہیں ۔حرف چند میں ممتاز غزنی یادوں کے حوالے سے کمال لکھتے ہیں ”جو یادیں یاد رکھی جاتی ہیں تو ان کو یاد کرنے کے بھی کچھ طریقے اور کچھ آداب ہوتے ہیں ،کچھ لوگ یاد کو تنہائی میں محسوس کرتے ہیں ،کچھ لوگ دیپ جلاتے ہیں ،کاغذوں پر لکھتے ہیں اور پھر یادیں دوسروں تک پہنچاتے ہیں ۔لکھ کر یاد کرنے کا اپنا ہی مزہ ہوتا ہے ۔“خورشید احمد چودھری لکھتے ہیں :”نسیم سلیمان صاحبہ ماضی کی حسین یادوں کو اتنے خوب صورت انداز میں پیش کرتی ہیں کہ ہر قاری ماضی کی حسین یادوں کے پاتال میں کھو جاتا ہے ۔سلاست سادگی اور حقیقت نگاری ان کا خاصہ ہے جو ان کی تحریروں میں بدرجہ اتم موجو د ہیں ۔ ©️ ©️پروفیسر سید وجاہت گردیزی کہتے ہیں ”نسیم سلیمان صاحبہ پونچھ کی تہذیب و ثقافت کی علمبردار ہیں ۔وہ ثقافتی سر گرمیوں کا مرکز و محور بن جاتی ہیں ۔وہ منظر نامے میں ہنستے کھیلتے ،کھاتے پیتے ،خوش پوش اور خوش گفتار لوگوں کے خاکے بناتی جاتی ہیں ۔
”دیپ بکھری یادوں کے “کہ فہرست کا جائزہ لیں تو ”پاں پاں والا “نیلم لہو لہو ،زندگی کے دُکھ ،جنج ڈولی ،ماں رستہ دیکھتی رہی ،مادر آف پکھر ،اور طوطی لوٹ آئی ،دیوی گلی ،بہت مشکل ہے زندگی ،شہر اُجڑ رہا ہے جیسے دیگر مضامین دل گرفتہ کرتے ہیں ۔آپ ایک بار اس کتاب کا مطالعہ کرنا شروع کریں تو کرتے ہی چلے جائیں گے اور اختتام ہوتے ہی خود کو کافی دیرتک ان وادیوں ،ان پربتوں پر ،آبشاروں سے لطف لیتے رہیں گے اور مصنفہ ساتھ ساتھ سیاحت کریں گے ۔یہی مصنفہ کی کامیابی کا عمدہ ثبوت ہے ۔کتاب کی قیمت ۰۵۵ روپے ہے اور جنوری ۲۲۰۲ میں اشاعت پذیر ہوئی ہے ۔دلی دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ، نسیم سلیمان کے قلم ،علم وعمل اور زندگی میں برکتیں عطا فرمائے آمین ۔