2021 آزادکشمیر میں انتخابات کا سال ہے۔ موروثی سیاست اور مفادات کی اس قربان گاہ میں ہم کس طرح سیاسی نظام کے تعفن زدہ جوہڑ میں مینڈکوں کی طرح پھدکتے پھرتے ہیں؟ پروفیسر عبدالشکور شاہ کی یہ تحریر آزاد کشمیر کے عوام کا نوحہ بیان کر رہی ہے ۔
پروفیسرعبدالشکورشاہ
مارٹن لوُتھر کِنگ کا قول ہے: جس دن ہم اپنی زندگی کے اہم مسائل پر بات کرنے کے بجائے چپ رہتے ہیں اس دن ہماری زندگی ختم ہو جاتی ہے۔اگر ہم اپنے آپ کو اس قول کے مطابق پرکھیں تو ہم میں اکثر زندہ لاشیں نکلیں گی۔ہم لاشوں کی طرح سیاسی موجوں کی سمت بہتے چلے جاتے ہیں۔
ذاتی مفاد اور ہماری بے حسی
آج تک ہم نے قومی مفادات کو پس پشت ڈال کر ذاتی مفادات کے نام پر ووٹ دیے ہیں۔ کیوں نہ اس مرتبہ قومی مفادات کے نام پر ووٹ دیے جائیں۔
آزادی کشمیر کا نام نہاد نعرہ
آزادکشمیر کی تمام سیاسی پارٹیوں میں سے ایک بھی ایسی پارٹی نہیں ہے جو آزادی کشمیر کے نام پر الیکشن لڑے یاکم از کم آزادی کشمیر کوایک سیاسی نعرے کے طور پر ہی استعمال کرے۔ اگر ہم اپنے گریبان میں جھانکیں تو مسئلہ کشمیر کے التواء کے سب سے بڑے مجرم ہم ہی نکلیں گے۔ کشمیر کی بدنصیبی دیکھیں ہمیں تو چیئر مین کشمیر کمیٹی بھی کشمیر سے نہیں ملتا۔
ہمیں مسئلہ کشمیر سے پہلے مسئلہ ضمیر کی طرف دھیان دینے کی اشد ضرورت ہے۔جب تک ہم ضمیرکے بجائے وزیر کی بات سنیں گے تب تک کشمیرکے بجائے سفیرکی باتیں سنیں گے۔
درآمدی پارٹیاں
جب باڑ ہی کھیت کھانے لگ جائے تو پھر کیا کیا جا سکتا ہے۔آزادکشمیر میں درآمدی پارٹیوں کی بھر مار ہے۔ واحد ریاستی پارٹی کہلوانے والی مسلم کانفرنس نے بھی الحاق کا نعرہ اقتدار کے لیے لگایا۔ ہم تو الیکشن میں کشمیر کا سیاسی چورن بھی نہیں بیچتے اور شکوہ کرتے ہیں کہ کشمیر کے لیے کسی نے کچھ نہیں کیا۔
بدلتا ہوا سیاسی مزاج
آزادکشمیر میں اگرچہ سیاسی نقشہ کافی حد تک بدلتا دکھائی دیتا ہے مگر ابھی بھی سرمایہ داراور جاگیردار طبقہ اقتدار پر حاوی ہے۔ آزادکشمیر میں چند مخصوص خاندان باری باری حکومت کر تے آئے ہیں اور مستقبل قریب میں بھی کسی بڑ ی تبدیلی کی امید نہیں ہے۔
2021 کے انتخابات کے حوالے سے ہمارے مطالبات کیا ہونے چاہییں؟
آزادی کشمیر کی جدوجہد تیز کرنے کا مطالبہ
آمدہ الیکشن میں کشمیر کی غیور مگر مجبور عوام آزادی کشمیر کے مطالبے پر ووٹ دینے کا تہیہ کر لے۔ ہمارے سیاستدان اسلام آباد کی منشا کے بغیر اپنی کرسی تک فتح نہیں کر سکتے وہ کشمیر کہاں آزاد کروائیں گے۔البتہ اس کا ایک فائدہ ہو گا یہ ہمارے قومی شعور کو بیدار کرنے کے لیے معاون ثابت ہو گا۔
مقامی ثقافت کا فروغ
دوسرا قومی مطالبہ آزادکشمیر میں کشمیری اور دیگر مقامی زبانوں کو علاقائی سطح پر لازمی مضمون کا درجہ دنیا ہونا چاہیے۔ہم نے سیاست کے چکر میں ثقافت کو روند ڈالا ہے اگر یوں کہا جائے کے ہم نے ثقافت پر پاوں رکھ کر سیاست کی کرسی پر قدم رکھا ہے تو بے جا نہ ہو گا۔ کشمیری ثقافت کے تحفظ اور ترویج کے لیے سرکاری سطح پر تہواروں کا انعقاد کیا جائے۔
نصاب تعلیم میں تبدیلیاں
ہمارا تیسرا قومی مطالبہ کشمیری قومی نصاب کی تدوین و ترویج ہونا چاہیے۔ کشمیریوں کو تاریخ کشمیر، تاریخ جدوجہد آزادی کشمیر، کشمیر کی جغرافیائی اور دفاعی اہمیت سے نابلد رکھا ہو ا ہے۔ تاریخ کشمیر اور تاریخ جدوجہد آزادی کشمیر کو میٹرک تک لازمی مضمون اور میٹرک کے بعد اختیاری مضمون کے طور پر شامل کیا جائے۔
زرعی شعبے میں اصلاحات
چونکہ کشمیر کی اکثریتی آبادی شعبہ زراعت سے وابستہ ہے اس لیے عوامی فلاح و بہبود کے لیے کشمیر کے تمام اضلاع میں زرعی یونیورسٹی کے کیمپس کھولنے کے ساتھ ساتھ زراعت کی تعلیم اور اس کی تربیت پر خصوصی توجہ کا مطالبہ سامنے لایا جائے۔
کنٹرول لائن پر آبادی کے مسائل
کنڑول لائن پر مقیم افراد کے لیے متبادل جگہ یا شیل پروف بنکرز کا مطالبہ کیا جائے۔ کنڑول لائن پر مقیم آبادی کو سیلف ڈیفنس کی تربیت کی فراہمی کا مطالبہ کیاجائے۔
اقوام متحدہ میں کشمیریوں کی نمائندگی
آزادی کشمیر کے لیے اقوام متحدہ میں کشمیریوں کو الگ سے نمائندگی دی جائے تا کہ وہ خود اپنی آواز عالمی سطح پر بلند کر سکیں۔
مختلف ممالک میں کشمیری سفیر مقرر کیے جائیں تا کہ ہم کشمیر کے لیے اپنے پاوں پر کھڑے ہو کر جدوجہد کو آگے بڑھا سکیں۔
وسائل کے استعمال میں شفافیت
کشمیر میں آر ٹی آئی قانون کو نافذ العمل کرنے کا مطالبہ کیا جائے تاکہ کشمیر عوام جان سکے پس پردہ ان کے نام پرلیے جانے والے فنڈز، عطیات، پراجیکٹس اور الاونسز کہاں جا تے ہیں۔یہ قانون کشمیر میں کرپشن کے تابوت میں آخری کیل ثابت ہو گا کیونکہ اس کے زریعے ہر فرد اپنے علاقے کے لیے جاری ہونے والے ترقیاتی فنڈز اور منصوبوں کی تفصیل لے سکتا ہے۔
ملازمتوں میں اہلیت و قابلیت کو ترجیح
سیاسی، برادری، سرمایہ اور سفارشی بنیادوں پر دی جانے والی ملازمتوں کے بجائے ایک شفاف نظام کا مطالبہ کیا جائے تا کہ پڑھے لکھے نوجوانوں میں سیاسی مجاوری کے بجائے اپنی اہلیت اور قابلیت پر اعتماد پیدا ہو۔
اعلیٰ تعلیم کی سہولتوں میں اضافہ
آبادی کے تناسب سے آزادکشمیر کے لیے میڈیکل، انجینئرنگ اور سکالر شپ کی تعداد میں اضافے کا مطالبہ کیا جائے۔
ریاست کی آئینی حیثیت کے تحفظ کی یقین دہانی
ریاستی تشخص اور موجودہ آئینی حیثیت کو قائم رکھنے کی یقین دہانی لی جائے۔ امیدواران اسمبلی سے یہ مطالبہ کیا جائے کے وہ آئینی اور قانونی تبدیلیوں کے زریعے اپنے آپ کو عوام کے سامنے جوابدہ کریں۔ ایم ایل ایز کا بنیادی کام موجوزہ آئینی ترامیم اور قانونی تبدیلیاں لانا ہو تا تا کہ عوام کے مسائل کو حل کرنے میں آسانی پیدا کی جا سکے مگر ہمارے ہاں سب کچھ الٹ ہو تا ہے۔
عدالتی اور انتظامی نظام میں بہتری
عدالتی اور انتظامی نظام میں تبدیلیوں کا مطالبہ کیا جائے تاکہ عام آدمی کے مسائل کم ہوں۔ ایسے قوانین اور آئینی ترامیم کے مطالبے پر ووٹ دیں جس کے زریعے موروثی سیاست کو دفن کیا جا سکے اور کشمیر نسل در نسل چند خاندانوں کی مجاوری سے نکلیں۔
مقامی حکومتوں کے نظام میں تبدیلی
لوکل گورنمنٹ کے نظام میں تبدیلیاں کرنے کا مطالبہ کیا جائے تا کہ لوکل ترقیاتی سکیمیں زمین پر نظر آئیں کیونکہ کہ موجودہ لوکل گورنمنٹ کا نظام کرپشن کا گڑھ بن چکا ہے۔ بلدیاتی الیکشنز کے بروقت انعقاد کے مطالبے پر ووٹ دیں تا کہ اختیارات عوامی سطح پر منتقل ہوں۔
ارکان اسمبلی کی جواب دہی کا نظام
اسمبلی میں اگر ایم ایل ایز کی حاضر ی کا قانون بن سکتا ہے تو پھر ان کی عوام میں حاضری کا قانون کیوں نہیں بن سکتا؟ ہمارا ایم ایل اے ووٹ لینے5سال بعد نظر آتا ہے۔ ایسی قانونی اور آئینی تبدیلی کے مطالبے پر ووٹ دیں جس کے زریعے اگر ایم ایل اے عوامی کام نہیں کر تا یاعوامی مسائل نہیں سنتا تو اس کے خلاف قانونی، آئینی اور پارٹی سطح پر کاروائی کی جائے۔ اگر ہم ایم ایل ایز کو 5سال کے لیے استثنی دے کر من مرضی کرنے دیں گے پھر عوام کے خادم عوام کے حاکم ہی بنے پھریں گے۔
ترقیاتی کاموں کو کارکردگی سے منسلک کیا جائے
ایسا قانون بنانے کے مطالبے پر ووٹ دیے جائیں کے ایم ایل ایز اپنے علاقے کی لیے ترقیاتی کاموں کی فہرست الیکشن کمیشن میں جمع کروائیں اور اگر وہ تین2یا 3سال تک تناسب کے حساب سے کام نہیں کرپاتے تو ان کے تنائج منسوخ کر کے دوسرے نمبر والے امیدوار کو موقع دیا جائے۔ مگر قانون تو غریبوں کے لیے بنائے جاتے امیروں اور ایم ایل ایزوغیرہ کے لیے تو یہ موم کی ناک ہیں پہلے تو بننے نہیں دیتے اگر غلطی سی بن جائیں تو ان کو اپنے گھر کی لونڈی کی طرح استعمال کر تے۔
پولیس کے نظام میں بہتری
پولیس کے نظام میں بہتری لانے کے لیے ووٹ دیں کیونکہ ڈوگرہ اور انگریز راج کے بعد اگر عوام پر ظلم و ستم کے پہاڑ ڈھائے ہیں تو یہ بے لگام محکمہ پولیس کا ہے۔
صنعتوں اور کارخانوں کا مطالبہ
تما م اضلاع میں برابر کارخانے لگانے کے مطالبے پر ووٹ دیں تا کہ سب کو برابر مواقع دستیاب ہوں۔ ضلع نیلم میں ایک بھی کارخانہ نہیں ہے جبکہ نیلم آزادکشمیر کو سب سے بڑا ضلع ہے۔ جب ہمارے علاقے میں کارخانے لگیں گے تو ہمارے لوگوں کو کراچی، لاہور، پنڈی، اسلام آباد اور دیگر علاقوں میں جا کر کام نہیں کر نا پڑے گا۔
خواتین اور نوجوانوں کی نمائندگی
آمدہ الیکشن میں 50%نمائندگی خواتین اور نوجوانوں کو دینے کے مطالبے پر ووٹ دیں تا کہ ان روائیتی، دقیانوسی اور تحکمانہ سوچ رکھنے والے طبقے سے جان چھڑائی جا سکے۔
وزیر اعظم اور صدر کے عہدے کے لیے آئینی تبدیلیاں
وزیر اعظم اور صدر کے عہدے کے لیے آئینی تبدیلیاں کی جائیں تا کہ ہر ضلع کو ایہ اعزاز، مراعات، فنڈز اور اختیارات کو فائدہ ہو۔ کشمیر کے چند مخصوص اضلاع سے وزیر اعظم، صدر اور سپیکر کا منتخب ہو نا جمہوریت کے ساتھ سب سے بڑا مذاق ہے۔
تعلیم، صحت اور جنگلات، معدنیات اور سیاحت کے تحفظ اور ان میں بہتری لانے کے لیے آئینی اور قانونی ترامیم کا مطالبہ کیا جائے۔بچوں، خواتین، نوجوانوں اور بزرگوں کے تحفظ، ترقی اور بہتری کے لیے آئینی ترامیم کے مطالبے پر ووٹ دیں۔
اگر ہم ان مطالبات پر ووٹ دیں گے تو کشمیر بدلے گا اور اگر ہم نے ایک بار پھر ٹوٹی، نلکہ، ٹینکی، سکیم، ٹھیکوں کے، برادری اور سرمایہ دارانہ اور سفارشی کلچر کے لیے ووٹ دیے تو پھر ہم آزادکشمیر میں غلام کشمیر کی بنیادوں کو مزید تقویت دیں گے۔
Discover more from Press for Peace Publications
Subscribe to get the latest posts sent to your email.
You must be logged in to post a comment.