محمد ایاز کیانی
جولائی کے انتخابات میں میں آزاد کشمیر میں میں تحریک انصاف انصاف حکومت بنانے میں کامیاب ٹھہری۔۔تحریک انصاف نے آزادکشمیر سے اٹھارہ جبکہ مہاجرین مقیم پاکستان سے نو نشستیں جیتیں۔۔تحریک انصاف قائد ایوان کا فیصلہ بروقت نہ کر سکی جس کی وجہ سے پرنٹ،الیکٹرونک اور سب سے بڑھ کر سوشل میڈیا پر ہر روز نت نئی قیاس آرائیاں ہوتی رئیں کبھی ایک کے حق میں گرین سگنل ملتے کبھی دوسرے دوسرے امیدوار کے حق میں ریڈ سگنل کے اشارے دکھائی دینے لگتے۔الغرض موجودہ وزیر اعظم کے نام کے اعلان تک سوشل میڈیا پر خوب نوراکشتی جاری رہی اور ہر کوئی اپنی خواہشات کو معلومات قرار دے کر ڈس انفارمیشن پھیلانے میں اپنا کردار ادا کرتارہا۔
کابینہ کی تشکیل میں بھی غیر ضروری تاخیر کی گئی بلاآخر خدا خدا کرکے صدر آزاد کشمیر کے حلف اٹھانے کے بعد25 اگست کو کابینہ کا اعلان ہوا،اسی دوران کشمیر کونسل کی خالی ہونے والی نشستوں پر بھی انتخاب مکمل ہوا۔۔۔
سردار عبد القیوم نیازی نے اپنے انتخاب کے بعد میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ مجھے قطعی کوئی توقع نہ تھی کہ اس منصب کے لیے قرعہ فال میرے نام نکلے گا۔اللہ نے اگر آپ کو اتنی بڑی عزت سے نوازا ہے تو ضرورت اس امر کی ہے کہ آپ اس دور کو یادگار بنانے ہوئے آزاد کشمیر کو حقیقی بیس کیمپ بھی بنائیں اور فلاحی ریاست کی طرف بھی پیش قدمی کریں تاکہ محرومیوں کا خاتمہ ہو۔نیازی صاحب کے حوالے سے لوگوں کے عمومی تاثرات اچھے ہیں کہ آپ جینون پولیٹیکل کارکن ہیں پہلے بھی ممبر اسمبلی اور وزیر رہ چکے ہیں۔آپ کے مخالفین بھی آپ کی شرافت،دین داری اور غریب پروری کے حوالے سے حسن ظن رکھتے ہیں۔
سچ تو یہ ہے عبد القیوم نیازی صاحب کے لیے حالات بہت زیادہ موافق نہیں ہوں گے ایک طرف مرکز سے مداخلت اور پھر آزاد کشمیر سے جہاں وزارت عظمیٰ کے ایک سے زیادہ امیدوار جواپنے تئیں سب سے زیادہ اہلیت کے دعوے دارہوں۔وہاں قدم قدم پر مشکلات کا سدراہ ہونا کوئی اچنبھے کی بات نہ ہوگی۔مختلف پریشر گروپس آپ کو اپنے پروگرام پر عملدرآمد کروانے میں سو طرح کی رکاوٹیں پیدا کریں گے۔ویسے بھی کرسی اقتدار نے کبھی کسی سے وفا نہیں کی۔۔اس سے قبل ایک ٹرم میں تین وزراء اعظم تبدیل ہو چکے ہیں۔
جناب وزیراعظم آپ جتنا عرصہ بھی اقتدار میں رہیں کچھ ایسا کر کے چلیں کہ لوگ آپ کے عرصہ اقتدار کو مدتوں یاد رکھیں ورنہ اقتدار کی ہوس ایسی ہے کہ آج تک کوئی اس سے سیر نہ ہو سکا۔ویسے بھی مسلمانوں کی تاریخ یہ ہے کہ بیس بیس سال تک اقتدار میں رہنے کے بعد بھی تشنگی باقی رہتی ہے اور ہل من مزید کی بازگشت سماعتوں سے ٹکراتی رہتی ہے کچھ نے چند ماہ کےاقتدار میں بھی نہایت مثبت تاثر قائم کیا اور کچھ برسوں اقتدار میں رہنے کے باوجود بھی حرفِ غلط کی طرح مٹ گئے ۔۔۔
دوام اور ہمیشگی اللہ پاک کے لازوال اقتدار کے علاؤہ کسی کو حاصل نہیں ہے۔۔۔سب سے پہلے آپ کو اس منصب پر فائز ہونے پر مبارک باد پیش کی جاتی ہے۔اس کے بعد چیدہ چیدہ مسائل آپ کے نوٹس میں لانا چاہوں گا۔یوں تو خطہ کو اگر مسائل کی آماجگاہ کیاجائے تو بے جا نہ ہوگا۔مگر سرکاری بیانات میں راوی ہمیشہ چین ہی چین لکھتاہےاور جو مسائل اپوزیشن میں رہتے ہوئے بہت گھمبیر لگتے ہیں اقتدار میں آتے ہی وہ مسائل مسائل نہیں رہتے بلکہ مخالفین کا ذہنی فتور لگنے لگتے ہیں لہذا مسائل کے ادراک کے لیے یا تو آپ اپنے آپ کو اپوزیشن میں سمجھیں یا کم از کم انھیں عام آدمی کی نظر سے دیکھنے کی کوشش کریں۔۔۔
ہر مسئلہ اپنے طور پر یکساں اہمیت کا حامل ہے اور تقدیم و تاخیر کے حوالے سے ہر ایک کا نقطہ نظر مختلف ہو سکتا ہے۔لہذا ترتیب سے قطع نظر ہر مسئلہ بھرپور توجہ کا متقاضی ہے۔۔۔۔۔۔
این ٹی ایس اور پبلک سرویس کمیشن::
-گزشتہ حکومت سے بے تحاشا اختلافات کے باوجود این ٹی ایس کا نفاذ ایک ایسا کام تھا جس کی بجا طور تحسین کی جانی چاہیے۔ایک طویل عرصے سے شعبہ تعلیم بالخصوص پرائمری ،مڈل اور ہائی سکولوں میں طلباء و طالبات کی تعداد میں مسلسل کمی واقع ہو رہی سیاسی مصلحتوں کے تحت ایسے بے شمار ادارے قائم کر دیے گئے جو کسی طور میرٹ اور مساوات کے مطابق نہ تھے۔مکانیت اور دیگر سہولیات کی طرف توجہ دینے کی بجائے سیاسی وابستگیوں کی وجہ سے اساتذہ کی تعیناتی عمل میں لائی جاتی رہی جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ادارے خالی ہوتے تھے اور ہر کوئی اساتذہ کی کارکردگی پر انگلیاں اٹھانا شروع ہو گیا جزاو سزا کا عمل غیر ضروری ٹھہرا کر ایک طرف رکھ دیا گیا ۔ان حالات میں سابق حکومت نے اساتذہ کی شفاف اور میرٹ پر تعیناتی کے لیے امتحان لینے والے اچھی شہرت کے حامل ادارے “نیشنل ٹیسٹنگ سروس” کی خدمات حاصل کر کے امتحانات کے شفاف اور کسی قسم کی مداخلت سے پاک انعقاد کو ممکن بنایا۔
اس ادارے نے تقریبا تین امتحانات لئے جن میں چند استثنائی صورتوں کے علاوہ سینکڑوں اہل اساتذہ بغیر کسی سفارش اور رشوت کے استاد کے منصب پر فائز کیے۔ اگران اساتذہ کو کسی مربوط نظام کے تحت جزا و سزا کے عمل سے گزار کر خصوصی اہداف دیے جائیں تو اس کے نتائج چند سالوں میں ہی ظاہر ہونا شروع ہو جائیں گے اور سرکاری اداروں پر لوگوں کا اعتماد بحال ہونا شروع ہو جائے گا۔۔۔
اسی طرح گریڈ سولہ سے اوپر کے لیے شفاف پبلک سروس کمیشن کا قیام بھی ازبس ضروری ہے ورنہ بغیر میرٹ کے سیاسی بنیادوں پر تعینات چیئرمین سے آپ کسی جوہری تبدیلی کی امید قطعاً نہیں رکھ سکتے۔میرٹ سے ہٹ کر تعینات شخص ہمیشہ احسان مندی کا قرض چکاتا رہے گا نتیجتاً کئی نسلوں کو اس کا خمیازہ بھگتنا پڑھے گا۔دنیا کے سارے معقول لوگ اس حقیقت سے بخوبی واقف ہیں کہ کوئی بھی قوم تعلیم کو ترجیح اول بنائے بنا شاہراہ ترقی پر گامزن نہیں ہو سکتی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لہذا جناب وزیراعظم ضرورت اس امر کی ہے کہ آپ این ٹی ایس اور پی ایس سی میں پائی جانے والی خامیوں کو ضرور ایڈریس کریں مگر سیاسی مخالفین کا لگایا ہوا پودا سمجھ کر اس کو جڑوں سے اکھاڑ پھینکنا انتہائی ظلم ہو گا۔۔۔۔۔ضروری ہے کہ پچھلے این ٹی ایس میں میرٹ پر آنے والے انتظاریہ فہرستوں میں آنے والے امیدواران کا تقرر فوری طور پر عمل میں لایا جائے تاکہ ان امیدواران کے اندر بے چینی اور فریسڑیشن کا خاتمہ ہو سکے۔۔۔۔۔ہاں پچھلی حکومت کے آخری ہفتے میں کیے جانے والے غلط کام ایڈہاک ملازمین کو بنا کسی امتحانی پراسیس سے گزارے مستقل کیے جانے والے نوٹیفکیشن کو فوری طور پر معطل کیا جائے۔اس حوالے سے اپوزیشن لیڈر آپ کی حمایت کرنے کا اعلان کر چکے ہیں۔ملک کو ایک پراپر ڈگر پر لانے کے لیے اگر چند کڑوے گھونٹ بھی پینے پڑیں تو دریغ نہ کرنا چاہیے۔
پولیس ریفارمز۔۔۔۔۔۔
جناب وزیراعظم آزاد کشمیر چھوٹا سا خطہ ہے۔5134مربع کلو میٹر رقبے پر مشتمل اس علاقے کی کل آبادی اکتالیس لاکھ ہے۔۔چار اضلاع کے دس بن گئے۔ایک آئی جی،ڈی آئی جی،تین ڈویژنز کے تین ڈی آئی جیز،دس اضلاع کے دس ایس پیز،ڈی ایس پیز،ایڈیشنل ایس پیز،کمیشنرز،ڈپٹی کمشنرز،اسسٹینٹ کمشنرز،سیکرٹیز،ڈپٹی سیکریٹریز،ایڈیشنل سیکریٹریز،انٹیلی جنس ایجینسز،جگہ جگہ تھانے،ان میں تعینات اہلکاروں اور قانون نافذ کرنے والے بے شمار اداروں کے باوجود جرائم کی شرح کم ہونے کی بجائے بڑھتی ہی جا رہی ہے۔عام آدمی انصاف کے لیے دھکے کھاتا پھر رہا ہے اور اس کو کسی قسم کا کوئی ریلیف حاصل نہیں ہے۔اسلحہ کی سرعام نمائش ہوتی ہے شادیوں میں اسلحہ کی نمائش ہوتی ہے اور بے تحاشا فائرنگ کی جاتی ہے۔کسی شریف شہری کی عزت محفوظ نہیں ہے۔عام آدمی کی شکایات کو درخور اعتنا نہیں سمجھا جاتا۔قتل ڈکیتی اور منشیات میں ملوث لوگ کسی خوف میں مبتلا ہوئے بنا اپنی کارروائیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔جنسی جرائم کا ارتکاب سر عام ہو رہا ہے چھوٹے چھوٹے بچے بھی محفوظ نہیں ہیں۔عام آدمی تھانے کچہری کے معاملات سے اس قدر خوفزدہ ہے کہ بعض اوقات بڑے بڑے نقصانات پر بھی ان جگہوں پر جانے سے لرزتا ہے۔۔۔۔۔۔ترقی یافتہ ممالک میں لوگ پولیس کو اپنا محافظ سمجھتے ہیں یہاں صورتحال اس کے سو فیصد برعکس ہے۔
جناب وزیراعظم کیایہ ممکن نہیں ہے اس شعبہ کے اندر عملاً تبدیلیاں لائی جائیں۔پولیس کو حکام کے پروٹوکول سے ہٹا کر ان کے اصل کام پر لگایا جائے تاکہ عام آدمی عدم تحفظ کا شکار ہونے کی بجائے قانون نافذ کرنے والے اہلکاروں پر اعتماد کرے اور انھیں اپنا محافظ سمجھے۔پولیس کو تھانے سے لیکر ضلعے تک جوابدہ بنایا جائے۔مادر پدر آزادی کا تصور ختم کیا جائے۔اچھی کارکردگی پر ستائش اور بری پر سرزنش کو لازمی قرار دیا جائے۔پولیس مجرموں سے پیسے لیکر کیس کو ابتدا ہی میں خراب کرنے کی بجائے متاثرہ افراد کے ساتھ تعاون کرے تاکہ سزاؤں کا پراسس بغیر کسی مداخلت اور ناانصافی کی بجائے انصاف کے تقاضوں کے عین مطابق جلد از جلد تکمیل کو پہنچے۔چونکہ انصاف میں تاخیر دراصل نا انصافی ہی کا دوسرا نام ہے۔۔۔۔۔۔۔جب تک مجرموں کو سزائیں نہ دی جائیں گی جرائم میں کمی نہ ہو گی بلکہ وقت کے ساتھ ساتھ ان میں اضافہ ہی ہوتا جائیگا ۔اور خدانخوستہ ایسا وقت بھی آسکتا ہے کہ کسی وی آئی پی کا نشیمن محفوظ نہ رہے گا۔۔۔۔۔۔۔۔
مسائل اس قدر ہیں کہ کسی ایک مضمون میں اسکا احاطہ ناممکن ہے یہاں پر ان کا صرف سرسری ذکر ہی کیا جا سکتا ہے۔۔
محکمہ برقیات۔۔۔۔۔۔
۔آزاد کشمیر میں بجلی کی ترسیل کے لیے قائم ادارے کو محکمہ برقیات کہا جاتاہے۔آج کے دور میں اس محکمہ کی اچھی بری کارکردگی براہ راست عوام کو متاثر کرتی ہے ۔جنرل حیات صاحب کے دور میں آزاد کشمیر میں بجلی کی ترسیل کے لیے ابتدائی کام ہوا اور اسلام آباد سے میں لائین کے ذریعے آزاد کشمیر کے مختلف اضلاع تک برقی رو کی ترسیل ممکن ہوئی۔اگرچہ گاؤں گاؤں قریہ قریہ بجلی کی ٹرانسمیش لائنز بچھا کر بجلی تو پہنچا دی گئی۔ملازمیں کی تعداد میں بھی کئی گناہ اضافہ ہو گیا وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ لوڈ میں کئی گناہ اضافہ کے باوجود نہ تو مین لائینز کو اپ ڈیٹ کیا جاسکااور نہ ہی کوئی جدت لائی جا سکی۔معمولی ہوا اور بارش کے ساتھ ہی بجلی کی سپلائی رک جاتی ہے اور بحالی کا کوئی ٹائم فریم نہیں ہوتا۔چاہئے کوئی ونٹی لیٹر پر ہو یا کسی اور دشواری میں محکمہ کے اہلکاران روایتی سستی اور لاپرواہی کا بھرپور مظاہرہ کرتے ہیں۔اور بجلی کی بحالی میں اکثر اوقات کئی کئی گھنٹے لگ جاتے ہیں۔اس دوران عوام ان اہلکاروں کے رحم و کرم پر ہوتے ہیں۔عوامی شکایات کے ازالے یا انفارمیشن کے لیے کسی قسم کا کوئی شکایات سیل یا اطلاعات کا مرکز نہیں ہے۔۔۔لوکل اہلکاران بجلی کی معطلی کے دوران یا تو فون ہی بند کر دیتے ہیں یا جواب دہی کے خوف سے مکمل آزاد اپنی دنیا میں مست ہوتے ہیں۔آج کے اس جدید دور میں فالٹ کی ڈیٹیکشن کے لیے کسی قسم کا کوئی سسٹم موجود نہیں ہے ۔لائنیں بوسیدہ ہو چکی ہیں اور بعض جگہوں پر اتنی ڈھیلی ہو چکی ہیں کہ انسانوں اور جانوروں کی زندگیوں کے لیے ہمہ وقت خطرہ ہوتا ہے ۔ٹرانسفارمرز اپنی پوری استطاعت کے ساتھ نہیں چل رہے ۔شاخ تراشی کے نام پر کئی کئی ہفتے بجلی تو بند کر دی جاتی ہے مگر شاخوں کو تراشنے کی زحمت نہیں کی جاتی۔بوگس بلات کے ذریعے حکام بالا کی نظروں میں اپنی اہمیت تو بنائی جاتی ہے مگر عوام کے خون پسینے کی کمائی کو ناجائز حربوں سے ان کی جیبوں سے نکال کرخزانے کا پیٹ بھرا جاتا ہے اور پھر ریونیو کولیکشن کا ڈھنڈورا پیٹا جاتا ہے۔میٹر کی قیمت مارکیٹ سے زیادہ وصول کی جاتی ہے۔نئے کنکشن کے لیے متعلقہ اہلکار عدم تعاون کی پالیسی پر عمل پیرا ہوتے ہیں۔تار اور میٹر اپنا خرید کر دینے کے باوجود کنکشن کے جارجز کے نام پر بھتہ خوری کا دھندہ بھی جاری ہے۔سرکاری خزانے سے تنخواہیں وصول کرنے کے باوجود عوامی شکایات کے ازالے کے لیے رشوت طلب کی جاتی ہے۔۔۔
جناب وزیراعظم یہ محکمہ فوری طور پر جوہری ریفارمز کا متقاضی ہے۔تاکہ غریب عوام کو بھاری بھر کم بلات سے نجات اور بجلی کی بلاتعطل ترسیل کے حوالے سے سہولیات بہم پہنچائی جاسکیں۔اگر خصوصی اہداف مقرر کر کے ہر ماہ صرف ایک کلومیٹر فاصلے تک لائنوں کو ازسرنو تعمیر کیا جاتا رہے تو ایک سال میں 80فیصد مسائل حل کیے جا سکتے ہیں۔مگر اس کے لیے مشنری جذبے اور فوری عملی اقدامات وقت کی ضرورت ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
محکمہ صحت یا ہیلتھ ڈیپارٹمنٹ۔۔۔۔
۔بدقسمتی سے سب سے زیادہ خراب صورتحال اگر کسی شعبہ کی ہے تو وہ اس محکمہ کی ہے چونکہ کسی بیمار آدمی کو سب سے زیادہ توجہ کی ضرورت ہوتی ہے اور اس کو موخر نہیں کیا جاسکتا مگر یہاں سب سے زیادہ استحصال مریضوں کا ہوتا ہے۔۔۔سرکاری ڈاکٹرز کی اکثریت بھاری بھر کم تنخواہوں کے باوجود اپنا کام پوری دیانت داری اور یکسوئی سے نہیں کرتے۔۔ذلزلے کے بعد راولاکوٹ،مظفرآباد اور باغ میں جدید عمارتیں اور جدید ترین مشینری تو بین الاقوامی اداروں اور ڈونرز نے مہیا کردیں۔۔۔مگر اگر کوئی چیز نہیں بدلی تو وہ قوم کے مسیحاؤں کا رویہ نہیں بدلہ۔سرکاری شفا خانوں میں عدم توجہی اور لاپرواہی کے انتہائی رویے کا مظاہرہ کیا جاتا ہے۔کسی بھی پیچیدہ مرض کی یا تو پراپر تشخیص ہی نہیں ہو پاتی مگر اگر کسی خوش بخت کے مرض کی تشخیص ہو جائے تو اسے یہاں سے راولپنڈی یا اسلام آباد بھیج دیا جاتا ہے۔البتہ پرائیویٹ کلینکس پر صورت حال مختلف ہوتی ہے یہی وجہ ہے کہ سرکاری مسیحاؤں نے بڑے بڑے ہسپتال پرائیویٹ سیکٹر میں قائم کر دیے ہیں ۔۔
مگر دیگر شعبہ ہائے زندگی کی طرح یہاں بھی کسی قسم کا چیک اینڈ بیلنس موجود نہیں ہے۔۔۔حکومت سے نان پریکٹیسنگ الاؤنس لینے کے باوجود پرائیویٹ پریکٹس بھی جاری ہوتی ہے بلکہ اصل میں تو زندگی کا بیشتر حصہ انہی پرائیویٹ کلینکس میں ہی گزرتا ہے۔۔سرکاری ہسپتالوں میں بیشتر کا دم گھٹتا ہے یہی وجہ ہے کہ جلد از جلد اپنے پرائیویٹ کلینکس کا رخ کرتے ہیں تاکہ دکھی انسانیت کی خدمت کا جذبہ ماند نہ پڑ جائے۔
جناب وزیراعظم اگر آپ کسی طرح ان مسیحاؤں کو بھی کسی ڈسپلن کا پابند کرسکیں تو اللہ کے ہاں سالہا سال کی عبادت سے زیادہ ثواب حاصل کر پائیں گے۔کبھی تو آغاز باب ہو کوئی تو عوام کا پرسان حال ہو۔کبھی تو اس ملک کے عام شہری کو یہ حق حاصل ہو کہ وقت کے حکمران کے سامنے اپنا دکھ بیان کریں تو ان کے درد کا درماں کیا جائے۔اور کوئی تو ہو جو عوام کو احساس دلا سکے کہ ریاست ان کو لاوارث نہیں چھوڑے گی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
–شاہرات کی حالت زار۔۔۔۔۔
۔آزاد کشمیر میں سڑکوں کی حالت بھی کافی پریشان کن ہے۔سب سے زیادہ توجہ کی ضرورت آزاد کشمیر کو پاکستان سے ملانے والی مرکزی شاہرات کو درست کرنے کی ہے۔گوئی نالا اور ڈھلکوٹ کی سڑکوں کی حالت سب سے زیادہ قابل رحم ہے ان سڑکوں کی خراب حالت کی وجہ سے آئے روز حادثات میں قیمتی انسانی جانوں کا نقصان ہوتا ہے۔اس کے بین الاضلاعی سڑکوں اور اندرون ضلع سڑکوں کی حالت فوری توجہ کی مستحق ہے ۔۔ان سڑکوں کی بہتری سے نہ صرف سیاحت کی صنعت ترقی کرے گی بلکہ وقت اور ایندھن کی بھی بچت ہو گی۔خطہ کشمیر میں موجود سیاحت کے پوٹینشل سے بھی بھرپور فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے۔سیاحت کی ترقی سے بیروزگاری میں کمی آئے گی اور ملکی معیشت پر نہایت مثبت اثرات مرتب ہوں گے۔اس حوالے سے ٹھیکیداروں کی جزاوسزا کا عمل کیے بنا ملکی وسائل کا یونہی نقصان ہوتا رہے گا۔۔۔7-جنگلات اور زراعت۔۔۔ان محکمہ جات کو فعال بنانا وقت کی ضرورت ہے۔یہ محکمے مکمل طور پر سفید ہاتھی بن چکے ہیں۔ہزاروں ملازمین تو موجود ہیں مگر نہ تو جنگلات تو جنگلات کے رقبے میں اضافہ ہو رہا ہے نہ ہی زراعت ہی کچھ ترقی کر رہی ہے۔بلکہ اگر یہ کہا جائے تو شاید زیادہ بے جا نہ ہو کہ جب سے یہ محکمہ برسرزمین بروئے کار آئے ہیں نہ جنگلات بچے ہیں نہ ہی زراعت۔۔
بھرے بازاروں میں دن دھاڑے نہ صرف غیر قانونی لکڑی کی نقل و حمل جاری رہتی ہے بلکہ بڑی بڑی مشینوں پر بھی ہمہ وقت لکڑی کا کام جاری وساری رہتا ہے۔۔زراعت تو پہلے سے بھی زیادہ تیزی سے روبہ زوال ہے۔
لائیو سٹاک اور پولٹری کے محکمہ جات بھی حقیقی معنوں میں عوامی شعور پیدا کرنے اور عملاً پیداوار بڑھانے میں مکمل ناکام ہیں۔ضرورت اس امر کی ہے کہ ان محکمہ جات کو خصوصی اہداف دیے جائیں اور بازپرس کا نظام ہو تاکہ حقیقی ثمرات زمین پر نظر آسکیں۔
ٹیکنکل تعلیم کا شعبہ بھی خصوصی توجہ کا مستحق ہے تاکہ ہنر مند افراد کار پیدا کرکے بیروزگاری کے چیلنجز کا مقابلہ کیا جا سکے۔
شہروں کی ٹاؤن کمیٹیز اور بلدیہ کو خصوصی اہداف دیے جائیں تاکہ وہ پلاننگ کرکے بے ہنگم تعمیرات اور ٹریفک کے بے تحاشا مسائل سے نبٹنے کے لیے مؤثر اقدامات کر سکیں۔زیادہ تر شہر پرانے دور کے تعمیر ہوئے ہوئے یا موجودہ تعمیرات میں بھی بلڈنگ کوڈ کو اختیار نہیں کیا گیا جس کی وجہ سے شہروں میں ٹریفک کے بڑھتے ہوئے دباؤ کا سامنا آئے روز دشوار تر ہوتا جا رہا ہے اور قیمتی وقت اور ایندھن کا نقصان ہو رہا ہے۔اس حوالے سے موثر پلاننگ اور ہنگامی اقدامات کی فوری اور اشد ضرورت ہے۔
غیر پیداواری شعبہ جات اور محکموں کو ختم کرکے ان کے ملازمین کو دوسرے محکمہ جات میں کھپایا جائے تاکہ وسائل پر بوجھ کو کم سے کم کیا جا سکے۔
سرکاری دفاتر میں سائلین کے ساتھ ہتک آمیز سلوک کی بجائے حسن سلوک سے پیش آنے کے حوالے سے خصوصی اقدامات وقت کی ضرورت ہیں ۔۔اپنے کام کے حوالے سے معلومات کا حصول ہر شہری کا حق ہے اس حوالے سے نا صرف ان کی دلجوئی ہونی چاہیے بلکہ سائلین کی عزت نفس کا بھی بہرصورت خیال رکھا جانا از بس ضروری ہے اگر ان کے کام میں بلاوجہ کے روڑے اٹکائے جائیں تو بازپرس کا میکنزم موجود ہو جہاں دادرسی کے لیے رجوع کیا جا سکے۔
آخر میں اتنا کہنا چاہوں گا کہ غیر ضروری پروٹوکول اور وی آئی پی کلچر کا خاتمہ نہایت ضروری ہے۔ہمارا شمار پسماندہ ترین ممالک میں ہوتا ہے ہمارا زیادہ تر انحصار بیرونی امداد اور قرضوں پر ہوتا ہے۔۔۔۔
جب کہ دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں وزراء اور اعلیٰ حکومتی عہدے دار بغیر کسی پروٹوکول کے اکیلے سفر کرتے ہیں جب ان کی شان میں کوئی کمی نہیں آتی تو یقین مانیے آپ کا قد کاٹھ بھی کم نہ ہو گا۔۔پروٹوکول اور ہٹو بچو کا کلچر ختم ہونے سے نہ صرف ملکی وسائل کی بچت بھی ہو گی بلکہ لوگ آپ کی دل سے عزت کریں گے کہ یہ ہم سے ہیں ۔۔۔آپ ایک دفعہ حقیقی خادم بن کر تو دیکھیں عوام کس طرح آپ کو پذیرائی دیتی ہے۔۔خوشامدی کلچر سے وقتی لذت تو حاصل ہوتی ہو گی مگر حقیقی عزت کبھی حاصل نہیں ہو سکتی۔۔۔اللہ آپ کا حامی و ناصر ہو۔۔۔۔۔
بارے دنیا رہوغم زدہ یا شاد رہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کچھ ایسا کر کے چلو یہاں کہ بہت یاد رہو۔۔
Discover more from Press for Peace Publications
Subscribe to get the latest posts sent to your email.
You must be logged in to post a comment.