کتاب کا نام ۔۔۔۔ دھندلے عکس (ناول)
مصنفہ ۔۔۔۔۔کرن عباس کرن
مبصرہ ۔۔۔۔۔ خالدہ پروین
اظہارِ تشکر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
“دھندلے عکس”بطور تحفہ ارسال کرنے کے لیے پروفیسر ظفر اقبال صاحب اور اشاعتی ادارے پریس فار پیس فاؤنڈیشن کا بہت بہت شکریہ ۔ ظفر اقبال صاحب کے زیرِ انتظام پریس فار پیس پُل کا کردار ادا کرتے ہوئے نہ صرف مختلف ممالک اور خطوں میں ادب کے فروغ کے لیے اہم کردار ادا کر رہا ہے بلکہ ادب دوست احباب کو ایک لڑی میں پرونے کے حوالے سے بھی اہمیت کا حامل ہے ۔ ادارے کا یہ قدم باعثِ تسکین اور قابلِ تحسین ہے ۔
“دھندلے عکس”
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ناول “دھندلے عکس” میں رسیم ، اسراء ، نایاب اور غادہ کے باطنی سفر پر مشتمل محبت کی افزائش کی کہانی کے بیان کے دوران نہ صرف خود شناسی سے خدا شناسی کا سفر طے ہوتے دکھایا گیا ہے بلکہ اس راہ پر چلتے ہوئے راستے کی دھند اور کشمکش کی بہت عمدہ منظر کشی کی گئی ہے ۔
ناول میں ایک مشکل موضوع جس کی خشکی بعض اوقات تحریر میں عدم دلچسپی کا باعث بن جاتی ہے کو مصنفہ کے خیالات کی روانی اور فن کارانہ مہارت نے شاہ کار کے درجے تک پہنچا دیا ہے ۔
سرِ ورق
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عنوان “دھندلے عکس” سے مناسبت رکھتا دھندلے نقوش پر مشتمل سرِ ورق کسی بھی ادب دوست شخصیت کے لیے دلچسپی اور کشش کا باعث ہے ۔
انتساب
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
انتساب کے لیے لکھی گئی تحریر :
اس عظیم تخلیق کار کے نام
جو اپنی تخلیقی صفت انسان کو سونپ
کر اسے عام سے خاص کر دیتا ہے ۔
ویسے ہی
جیسے کوئی مصور
بے رنگ تصویر میں رنگ بھر کر
اس کی قیمت بڑھا دے۔
اور
الفاظ سے محبت کرنے والوں کے نام
نا صرف مصنفہ کرن عباس کرن کی سوچ کی بلندی بلکہ ناول کے مواد کے معیار کی طرف بھی اشارہ ہے۔
تنقیدی آراء
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پروفیسر ظفر اقبال صاحب کا کرن عباس کرن کا تعارف ، پروفیسر ڈاکٹر عرشیہ جبین (حیدرآباد یونیورسٹی) ، مصنفہ اور ڈرامہ نگار رابعہ رزاق راولا کوٹ ،اسلام آباد ، ڈاکٹر عبدالکریم (مظفر آباد) اور جسٹس منظور حسین گیلانی کی تعریفی اور تنقیدی آراء ناول کے تعارف اور تفہیم کے علاوہ قاری کے لیے دلچسپی کا باعث ہیں ۔
ناول دھندلے عکس کا فنی و فکری جائزہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پلاٹ
۔۔۔۔۔۔۔
فلیش بیک تکنیک کے تحت نایاب کی ڈائری میں موجود فلسفیانہ تحریر اور کردار رسیم کی خود کلامی سے آغاز لینے والے ناول کا پلاٹ اس قدر شان دار اور مربوط ہے کہ ناول کے اختتام پر کامیابی اور ایوارڈ کی تقریب میں اسراء اور رسیم کے کامیابی کے متعلق اظہارِ خیال تک کہیں بھی کوئی جھول دکھائی نہیں دیتا ۔ کڑیوں کی مضبوطی کی بنا پر نہ صرف کہانی دلچسپی اور تجسّس سے بھرپور آگے بڑھتی چلی جاتی ہے بلکہ اختتام پر ناول کے کرداروں کے ہم راہ قاری بھی اپنے آپ کو مطمئن اور منزل سے ہم کنار تصور کرتا ہے ۔
ناول کی تین ابواب
حصہ اول ۔۔۔ مارچ 2010
حصہ دوم ۔۔۔ 2015
حصہ سوم ۔۔۔ 2020
میں دراصل روحانی سفر کے تین مدارج کو بہت عمدگی سے پیش کیا گیا ہے جن سے گزرنے کے بعد کوئی بھی سالک ( رسیم، نایاب اور اسراء) حقیقت شناسی کے مقام تک پہنچ پاتا ہے ۔
پہلا حصہ ۔۔۔۔ اس کشمکش کا مظہر ہے جو کسی بھی سالک میں سفر سے پہلے پائی جاتی ہے جیساکہ رسیم کی فلسفیانہ خود کلامی ، نایاب کا خواب اور اسراء کی تنہائی ۔
دوسرا حصہ ۔۔۔۔اس روحانی سفر سے متعلقہ ہے جس سے گزرتے ہوئے رسیم ، نایاب اور اسراء پر مختلف حقائق منکشف ہوتے ہیں ۔
تیسرا حصہ ۔۔۔۔ کشمکش اور روحانی سفر کے بعد اس کامیابی کا مظہر ہے جس میں نہ صرف سالک وحشتوں کا صفایا کرتے ہوئے متوازن روپ میں سامنے آتا ہے بلکہ تمام دھندلے عکس واضح ہو جاتے ہیں ۔
کردار نگاری
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ناول میں کرداروں کی بھرمار کے بجائے گنتی کے کردار نظر آتے ہیں جو دنیا کی نظروں سے اپنی شناخت چھپانے کے لیے کوشاں ہیں۔
ناول کے آغاز میں کی جانے والی فلسفیانہ خود کلامی اور کرداروں کی کشمکش ان کے تعارف کے علاوہ باطنی سفر کا عمدہ اشارہ ثابت ہوتی ہے ۔
رسیم کا کردار ایک مصور کا کردار ہے جس کے نزدیک :
“فن ، فن کار کے انتہا کی پیداوار ہے”۔
جو زندگی میں وحشتوں کا شکار ہونے کی بنا پر کبھی خوابوں میں الجھا نظر آتا ہے تو کبھی دوسروں کے الفاظ اسے اس کی سوچ کی نفی کرتے دکھائی دیتے ہیں ۔ جو مصوری صرف اپنی سوچ کے اظہار کے لیے کرتا ہے اور تصویروں میں اپنے خون سے رنگ بھرتا ہے ۔ نایاب (مصنفہ اور شاعرہ) اس کی تخلیق کے ذریعے “مرضِ لا دوا” میں مبتلا ہو جاتی ہے جب کہ رسیم میوزیم میں موجود قدیم مصوری کے شاہکار کے ذریعے مصورہ غادہ کی حقیقت جاننے کے لیے بے چینی کا شکار دکھائی دیتا ہے ۔ خواب میں ہونے والی روحانی ملاقاتیں نہ صرف غادہ کی حقیقت افشائی کا باعث ہیں بلکہ ان روحانی ملاقاتوں میں عصرِ حاضر کی غادہ (نایاب) کے وقت سے پہلے رخصت ہونے کی اطلاع بھی دی جاتی ہے ۔ رسیم اپنی وحشتوں اور راہِ سلوک سے دوری کی بنا پر اس اشارے کو سمجھ نہیں پاتا لیکن نایاب کی ڈائری ، رسیم کی طرف سے دیے گئے تحائف اور نایاب کی تحریریں (جو یہ کہہ کر دیے جاتے ہیں کہ یہ امانت ہے جسے نایاب نے آپ تک پہنچانے کا کہا تھا )رسیم کے دل و دماغ پر چھائی دھند کے چھٹنے کے ساتھ ساتھ منزل کو بھی واضح کر دیتے ہیں ۔
نایاب کا کردار ایک خواب نگر کی لڑکی کا کردار ہے جو بارش ، تتلیوں ، پھولوں اور رنگوں کی دیوانی ہے ۔زندگی کے حسین رنگوں میں اپنی ذات کے رنگ بھرتی اپنے بلند عزائم اور زندہ دلی سے متاثر کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے ۔ اپنے جذبات ، احساسات ، خواہشات اور عزائم کو الفاظ کے ذریعے کبھی شعری روپ عطا کرتی ہے تو کبھی افسانے کا ۔جس کے نزدیک تخلیق ، تخلیق کار تک پہنچنے کا ذریعہ ہے ۔یہی فکر اسے لا علاج مرض میں مبتلا کر دیتی ہے ۔وہ دوسروں کی خوشی کے لیے برین ٹیومر کی بیماری کو چھپائے ، درد کو برداشت کرتے حقیقی تخلیق کار سے جا ملتی ہے ۔
اسراء کا کردار ایک ایسی لڑکی کا کردار ہے جو باطن میں پوشیدہ سوالات:
میں کون ہوں ؟
کیا ہوں؟
کیوں ہوں ؟
میں الجھی تنہایوں میں جوابات کی متلاشی ہے ۔ ماحول سے بے خبر تصورات میں اس قدر گم ہے کہ بامشکل بلاوا اور دستک اسے ظاہری دنیا میں لا پاتے ہیں ۔ دانش ور بابا محمد علی کی راہنمائی میں کامیابی کا راز پاتے ہوئے تنہائی سے نکل کر متوازن روپ اور رویوں کا اظہار کرتی ہے ۔ جہاں ایڈووکیٹ غضنفر( محبت کی طاقت دل میں سموئے) جیون ساتھی کے طور پر اس کا معاون ثابت ہوتا ہے ۔
شام کے ایک شہر ” تدمر پالمیرا ” کے صحرا سے تعلق رکھنے والا ماضی بعید (1550) کا کردار غادہ پراسرار شخصیت کی مالک اور حسن و نفاست کی بنا پر معروف ہونے کے باوجود سب کے لیے معما اور خوف کا باعث بنی ہوئی تھی ۔ پراسراریت کا باعث اس کی وہ خاص کیفیت تھی جس میں وہ بہترین تخلیقات تیار کرتی تھی جو اس کے تاجر خاندان کے لیے منفعت کا باعث تھیں ۔ کیفیت کے عالم میں وہ صحرا کا رخ کرتی یا برگد کے پرانے درخت سے باتیں کرتی تھی ۔ شادی کا ذکر جنون طاری کرنے کا سبب بنتا تھا ۔ حکمران کی غادہ سے شادی کی خواہش اور دعوت کے بعد جنون کی کیفیت میں چٹان سے گر کر مر جاتی ہے ۔ رسیم نے غادہ کے فن پارے کے ذریعے غادہ کی شخصیت تک کا سفر کیا تھا ۔ بعد ازاں خواب میں آ کر عہدِ حاضر کی غادہ (نایاب) کے دنیا سے جلدی جانے کی اطلاع دیتی رہی لیکن رسیم اپنی وحشتوں کی بنا پر نہ سمجھ سکا ۔ نایاب کی وفات کے بعد غادہ سے روحانی تعلق کو سمجھ پایا۔
اس کے علاوہ ثانیہ ، عنزہ ،اور ایڈووکیٹ غضنفر کے کردار معاون کردار کے طور پر سامنے آ کر کہانی کو آگے بڑھاتے دکھائی دیتے ہیں ۔یہ کردار دوستی ، ہمدردی اور محبت کی عمدہ مثال ہیں ۔
بابا محمد علی کا کردار ایک راہنما کا کردار ہے جو اسراء کی شخصیت کو معرفت حقیقی کے لیے خدا کی راہ پر راضی رہنے کی راہ دکھاتے ہوئے اس کا رخ متوازن زندگی کی طرف موڑ دیتا ہے ۔
“راضی بہ رضا لوگ وہ خوش قسمت
ہوتے ہیں جو دنیا کے ساتھ اسے بھی
پا لیتے ہیں ۔وہ خدا سے خدا نہیں اس
کی رضا طلب کرتے ہیں،مگر خدا انھیں
خود چُن لیتا ہے “۔
مکالمہ نگاری
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جیسا کہ ناول “دھندلے عکس” میں فلسفے ، خیال اور خواب کا رنگ غالب ہے اسی طرح مختلف کرداروں کے مکالمے برجستہ حسبِ حال اور قال ہیں ۔ اسراء کے مکالمے اس کی کشمکش کے عکاس ہیں تو بابا محمد علی کے روحانیت اور محبت کی ترسیل کرتے ہیں ، رسیم کی گفتگو اس کی فن پاروں سے محبت کی عکاس ہے تو نایاب کے مکالمے معرفت کے مظہر ہیں ۔،ثانیہ کے مکالمے معاون کا رنگ لیے ہوئے ہے تو عنزہ کے مکالمے محبت اور ہمدردی کے مظہر ہیں ۔غادہ کی ماں کی گفتگو تشویش کا اظہار کرتی ہے تو غادہ کے الفاظ کسی اور دنیا کا پتا دیتے ہیں ۔ ایڈووکیٹ غضنفر کے جملے دل میں موجود محبت اور سپردگی کی علامت ہیں جبکہ حاکم کے الفاظ اپنائیت اور ملکیت کا مظہر ہیں ۔
منظر نگاری
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ناول ہو یا افسانہ منظر نگاری تحریر میں جان کی حیثیت رکھتی ہے ۔ “دھندلے عکس” میں رسیم کی وحشت زدہ کیفیت کی عکاسی ہو یا نایاب کی عنزہ اور رسیم سے ملاقات کی منظر نگاری ، اسراء کی تنہائی کی منظر کشی ہو یا غضنفر کی بے خودی کا بیان ، غادہ کی صحرا نوردی کا ذکر ہو یا جنون کے عالم میں چٹان کی طرف دوڑنے اور گرنے کا نظارہ ہر منظر واضح اور دل کو چھو لینے والا ہے۔
زبان و بیان
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
موضوع کے بعد ناول کی انفرادیت اس کی زبان و بیان ہے۔ تصوف سے متعلقہ باطنی سفر پر مبنی گہری سوچ و خیال کی حامل کہانی کے لیے زبان کا فصیح و بلیغ اور بیان کا فلسفیانہ ہونا ضروری تھا ۔ اس کے خواب ، خیال اور خود کلامی کے اسلوب نے نہ صرف معنویت میں اضافہ کیا بلکہ موضوع اور ، زبان و بیان کی مطابقت نے تخلیقی کاوش کو چار چاند لگا دیے ہیں ۔
“دھندلے عکس” میں موجود تشبیہاتی اور استعاراتی انداز قاری کو تحریر میں گم ہو کر غور وفکر پر مجبور کر دیتا ہے ۔
“لوگ کہتے ہیں، لبِ خاموش کی آرزوؤں ،
التجاؤں کو وقت کی ندی خاموشی سے
بہا کر لے جاتی ہے ۔ ماضی کے سفر میں
انسان ان آرزوؤں کے قدموں کے نشان
ڈھونڈتا چلا جاتا ہے مگر وقت کی ندی
کی خاموشی کی ریت کی تہیں بچھا
کر دل و دماغ سے ہر نشان مٹا دینے کی
کوشش کرتی ہے سو چند مدھم خیالات
کے سوا کچھ نہیں بچتا” ۔
تجسیم نگاری کا انداز مجرد خیالات کو دلچسپ اور تفہیم کو آسان بنا دیتا ہے ۔
“روح کے بے کراں دشت میں دیوانگی
کا برہنہ پا رقص اب بھی جاری ہے “۔
موضوع سے مطابقت رکھتے فلسفیانہ جملے ناول کے معیار میں اضافے کا باعث ہیں ۔
“محبت _جس دل میں موجود ہو ،
وہ خدا کا راز داں بن جاتا ہے ۔ خدا کا
عشق اس کی منزل ٹھہرتی ہے ۔ وہ
بندوں کی محبت کے ذریعے اس لافانی
محبت تک پہنچتا ہے اور منزل تک پہنچنے
کے لیے وہ خود بھی محبت بن جاتا ہے “۔
“دل اور روح کی راہ ایک ہی ہے ۔بس دل
ذرا انتہا پسند ہے۔ ہاں روح کا معاملہ جدا
ہے ۔وہ میانہ رو ہے ۔۔۔۔دل اور دماغ تو بس
اپنی محدود روشنیوں ہی میں کچھ دیکھ
پاتے ہیں لیکن روح کی نظر میں بہت وسعت
ہے ۔ یوں سمجھو جس راہ پہ دل و دماغ کا
اتفاق ہو جائے ، وہی روح کی راہ کہلاتی ہے ۔”
“دھندلے عکس” کے اسلوبِ بیان کا خاصہ اس کی تکنیک ہیں جو خواب ، خیال اور خود کلامی کی صورت میں ابلاغ کو مؤثر بنانے کا ذریعہ ہے ۔ تصوف کے موضوعات کی براہِ راست پیش کش تحریر کو غیر دلچسپ اور خشک بنا دیتی ہے جب کہ ناول کی ڈرامائی تکنیک تفہیم و تاثیر میں کئی گنا اضافے کا باعث ہے۔
مجموعی طور پر ایک منفرد تخلیقی کاوش جو موضوع ، مواد اور ہیئت ہر لحاظ سے منفرد اور قابلِ تعریف ہے ۔
اگر چہ “دھندلے عکس”مصنفہ کا پہلا ناول ہے لیکن معیار کے لحاظ سے کہنہ مشق مصنفین بھی اس کے مقابلہ کی تاب نہیں رکھتے۔
اللّٰہ تعالیٰ مصنفہ کی تخلیقی صلاحیتوں کو جِلا بخشتے ہوئے مزید عروج اور کامیابیاں عطا فرمائے۔
Discover more from Press for Peace Publications
Subscribe to get the latest posts sent to your email.