تحریر: نقی اشرف
میرا ماننا ہے کہ اگر کوئی انسان پڑھتا،سنتا،دیکھتا اور غور کرتا رہے تو اُس کی سوچ ساکت و جامد نہیں رہتی۔ دلائل و شواہد کا پیچھا کرنے والا ایک ہی جامہ نہیں اوڑھے رہ سکتا۔ کبھی میں سمجھتا تھا کہ عزیر و اقارب ،رشتہ داروں،دوستوں اور قریبی لوگوں کے بارے میں لکھنا معیوب ہے مگر وقت کے ساتھ ساتھ مجھے اپنی رائے سے رجوع کرنا پڑا۔اب میری عرض یہ ہے کہ وہی تحریر بہتر کہلانے کی سزاوار ہے جو اُس موضوع پر لکھی گئی ہو جس کے بارے میں لکھاری سب سے زیادہ جانتا ہو اور اپنے عزیزو اقارب اور دوستوں ساتھیوں کے بارے میں ہی تو انسان خُوب جانتا ہے۔اس لئے اس حوالے سے قلم اُٹھانے سے محض اس لیے گریزپا کیو ں کر ہوا جا سکتا ہے کہ اس تحریر کو کون سے زمرے میں شمار کیا جائے گا۔ انسان دنیا میں ایک ہی بار آتا ہے،کیا لازم ہے کہ ہم پسِ مرگ ہی اُس پر خراج عقیدت کے ڈونگرے برسائیں کہ جب وہ دیکھ سکتا ہو نہ سُن سکتا ہو؟ دُنیا زندہ انسانوں سے ہے۔ زندہ انسانوں کو سراہنا،اُن کی صلاحیتوں کا اُن کی زندگی میں اعتراف کرنا،اُن کے لیے چند کلماتِ خیر کہنا اور اُن کی حوصلہ افزائی کرنے کو،میں اب مطلق معیوب نہیں سمجھتا ۔ ہاں یہ معیوب بھی ہوسکتا ہے جب کسی منفعت کی خاطر یہ عمل کیا جائے۔
ہمارے بچپن میں مختلف کمپنیوں کی بیڈفورڈ بسیں چلتی تھیں۔ان میں ایک کمپنی زمان بس سروس تھی۔ اس کمپنی کی ایک بس راولاکوٹ سے باغ جاتی تھی۔ یہ بس ہمارے آبائی بازار پھجڑ سے دوپہر کے وقت گزرتی تھی۔ اس بس کے سامنے والے بمپر پر دو چھوٹے چھوٹے بورڈ لگے تھے،ایک پر لکھا تھا عمران اور دوسرے پر فرحان۔ میٹرک کے بعد جب میں نےحسین شہید ڈگری کالج(حال پوسٹ گریجویٹ کالج) میں داخلہ لیا تو عمران عزیز ہمارا کلاس فیلو ٹھہرا،اُس سے تعارف ہوا، تب ہمیں معلوم پڑا کہ یہی ہے وہ عمران جس کا نام ہمارے روٹ پر چلنے والی اُس زمان بس پر لکھا ہوتا تھا،اور دوسرا نام فرحان میاں، عمران کے چھوٹے بھائی ہیں۔ عمران سے تعلق جلد ہی دوستی میں ڈھل گیا۔ عمران عزیز کے والدِ محترم بابو عزیز صاحب سے بھی تعارف اور ملاقاتیں ہوئیں(خدا اُنھیں صحت مند زندگی دے)۔ بابو عزیز صاحب تب اپنے والد سردار زمان خان سے ورثے میں ملنے والی ٹرانسپورٹ کمپنی “زمان بس سروس“ کے کرتا دھرتا تھے۔ بابو عزیز صاحب ایک شریف النفس،ملنسار،مہمان نواز اور محفل میں کھری اور دلچسپ گفتگو کرکے حاضرینِ محفل کی توجہ اپنی جانب کھینچ لینے والے انسان ہیں۔ عمران عزیز کے گھر جب آنا جانا ہوا تو عمران کی والدہ محترمہ سے بھی ملاقات ہوتی۔ جب بھی ملی ہیں، بہت شفقت کا مظاہرہ کیا(خدا اُنھیں سلامت رکھے ،صحت اور خوشیوں سے نوازے)۔
لکھنے کے اذلی شوق نے مجھے صحافت تک پہنچایا تو عمران بھی اپنے لکھنے پڑھنے کے ہاتھوں مجبور ہوکر کوچہ صحافت میں وارد ہوا،پریس کلب کا نائب صدر منتخب ہوا۔ اسی عرصے میں عمران کی شادی ہوئی۔ شادی کی سب سے خاص بات یہ تھی بارات لے جانے کے لیے سردار ابراہیم صاحب نے اپنی وہ اکلوتی مرسڈیز کار عنایت کی جو وہ کبھی کسی کو نہیں دیتے تھے۔ بابو عزیز صاحب سردار ابراہیم صاحب سے بہت قربت رکھنے والے کارکنان میں سے ایک تھے،اس لیے اُنھوں نے بابو عزیز صاحب کو یہ اعزاز بخشا۔
نوے کی دہائی کے اختتام پر میں تلاش معاش میں یورپ آگیا۔ اسی دوران عمران نےراولاکوٹ سے راولپنڈی ہجرت کرکے وہاں رئیل اسٹیٹ کا کاروبار شروع کیا،جب میں پہلی مرتبہ وطن واپس گیا تھا تو عمران نے ویسٹریج میں ایک چھوٹا سا پراپرٹی ڈیلنگ کا دفتر بنا رکھا تھا،دوسری دفعہ گیا تو بحریہ ٹاون میں ٹھاٹھ باٹھ والا آفس بنا چکا تھا اور آج اُس کا کاروبار کافی وسیع ہو چکا ہے۔۔ مجھ سے اکثر لوگ یہ پوچھتے ہیں، عمران عزیز نے اتنی ترقی کیسے کی تو میرا جواب ہمیشہ یہی ہوتا ہے کہ اُس نے اپنی خدادا صلاحیتوں،اخلاق،مسکراہٹ،نرم گفتاری،مہمان نوازی،دیانت داری کھلے دل و دماغ کا مالک ہونے کے باعث کی۔ ممکن ہے عمران کی ترقی میں اُن سجدوں کا بھی عمل دخل ہو جو عمران نے حرم پاک میں ادا کیے،میں نے اُسے اس طرف بھی کثرت سے سفر کرتے دیکھا۔ عمران عزیز ایک باغ و بہار اور مرنجاں مرنج انسان ہے۔ تعلق بنانا اور نبھانا کوئی بس اُس سے سیکھے۔ ہمیں تو زندگی میں جن چند لوگوں سے تعلق ہے ،وہی نبھ جائے تو بڑی بات ہے مگر اس عمران عزیز کو میں دیکھتا ہوں کہ نہ صرف نئے نئے لوگوں سے تعلق بناتا جاتا ہے بلکہ خوبصورتی سے نبھاتا بھی جاتا ہے۔ گاہے مجھے حیرت ہوتی ہے کہ جس جس سے بھی عمران عزیز کا تعلق و دوستی ہے اُن سب کی غمی خوشی میں کیسے جاپہنچتا ہے،صرف پہنچتا ہی نہیں بلکہ میزبانوں میں شامل ہوتا ہے۔ یہ سب کیسے کرلیتا ہے، یہ راز اُس نے ایک دوست ہونے پر بھی کبھی ہم پر افشا نہیں کیا۔ عمران عزیز کو مہمان نوازی کی بھی لت لگی ہے،جتنا کھلا اُس کا دل ہے اتنا ہی کھلا اُس کا دسترخوان ہے۔ جب میں اُسے صاحبِ ثروت دیکھتا ہوں تو دل کو ایک اطمینان سا ہوتا ہے۔ کسی دل کے امیر آدمی کو خدا غربت کی حالت نہ دکھائے۔ عمران ایک درد دل رکھنے والا انسان ہے، کسی انسان کو مشکل اور پریشانی میں دیکھتا ہے تو جو کچھ اُس سے بن پڑتا ہے،کرتا ہے۔ وہ اپنی گِرہ سے سب کی غربت اور مسائل دُور نہیں کرسکتا مگر انسانی دکھوں کا بساط بھر مداوا کرتا رہتا ہے۔ عمران عزیز جسے لوگ ہمارے سماج کا اگر بڑا نہیں تو چھوٹا موٹا اثاثہ ضرور ہیں۔ایسے لوگوں کی صللاحیتوں کا اُن کی زندگی میں اعتراف کرنے اور اُن کی حوصلہ افزائی کے لیے چند کلماتِ خیر کہنے سے ہمیں گریز نہیں کرنا چاہیے اور وہ سب ہمیں پسِ مرگ کہنے کے لیے اُٹھا نہیں رکھنا چاہیے۔ خدا عمران عزیز کو کامرانیوں اور خوشیوں سے نوازے۔
( نقی اشرف بلجییم میں مقیم کشمیر ی کالم نگار اور دو کتابوں کے مصنف ہیں )
Discover more from Press for Peace Publications
Subscribe to get the latest posts sent to your email.