قدرتی آفات اور وباٶ ں کے خواتین اور بچوں پر اثرات : تجزیہ نسیم اختر

You are currently viewing قدرتی آفات اور وباٶ ں کے خواتین اور بچوں پر اثرات : تجزیہ نسیم اختر
An aerial view shows houses surrounded by flood waters in Multan district, Pakistan on Sunday, Sept. 14, 2014. Civil and military officials have been using helicopters and boats to evacuate marooned people since Sept. 3, when floods triggered by monsoon rains hit Pakistan and Kashmir, which is divided between Pakistan and neighboring India. Hundreds of people have died in the flooding. (AP Photo/Mansoor Abbas)

قدرتی آفات اور وباٶ ں کے خواتین اور بچوں پر اثرات : تجزیہ نسیم اختر

تحریروتجزیہ نسیم اختر
پچھلے چند سالوں میں پاکستان کو بہت سی قدرتی آفات کا سامنا رہا ہے،جن میں زلزلے ،طوفان، خشک سالی، کووڈ اور سیلاب شامل ہیں۔جن میں لاکھوں انسانوں کو مال و متاع معاش،زراعت اور جانوروں کے بے تحاشا نقصان سے دوچار ہونا پڑا۔ قدرتی آفات کسی بھی خطہ زمین پر بنا فرق کیے آتی ہیں ۔مگر اس سے متاثر زیادہ تر غریب مما لک ہی ہوتے ہیں۔
گزشتہ دو دہائيوں کے دوران قدرتی آفات کی تعداد ميں خاطر خواہ اضافہ ہوا ہے اور بر اعظم ايشيا سب سے زيادہ متاثر ہوا۔تیرہ اکتوبر 2020 میں اقوام متحدہ کے ادارے”ڈيزاسٹر رسک ریڈکشن کے  ماہرين نے تنبيہ کی تھی کہ اگر موسمياتی تبديليوں کا سلسلہ جاری رہا تو زمين پر اور بھی زيادہ آفات ممکن ہيں رپورٹ ميں شامل ڈيٹا کے مطابق پچھلی دو دہائيوں ميں آنے والی قدرتی آفات سے سب سے زيادہ متاثر بر اعظم ایشیا ہوا، جہاں 3,068 بڑے واقعات رپورٹ کيے گئے۔ شمالی اور جنوبی امريکا ميں 1,756 اور افريقہ ميں 1,192 قدرتی آفات ريکارڈ کی گئيں۔ انفرادی طور پر ممالک کو ديکھا جائے، تو ايسے سب سے زيادہ 577 واقعات چين ميں اور پھر 467 واقعات امريکا ميں ريکارڈ کيے گئے۔
اقوام متحدہ نے تنبيہ کی ہے کہ سن 2030 تک ايسے افراد کی تعداد ميں 50 فيصد کا اضافہ ممکن ہے، جنہيں انسانی بنيادوں پر مدد کی ضرورت ہو۔
پاکستان میں دنیا کے سب سے بڑے غیر قطبی گلیشئرز موجود ہیں جو موسمی تبدیلیوں کے باعث بہت تیزی سے پگھل رہے ہیں ۔  ماحولیاتی تبدیلیوں کی زمہ دار مضر گیسوں کے اخراج میں پاکستان کا حصہ ایک فی صد سے بھی کم ہے جب کہ پاکستان ماحولیاتی تبدیلیوں کے شکار بڑے دس ممالک میں شامل ہے.
گرین ہاوس ایفیکٹ کی وجہ سے کاربن ڈاٸی آکساٸیڈ کا اخراج بڑھ رہا ہے اور ماحولیاتی آلود گی ان گلیشئرز کے پگھلنے کا باعث ہے ۔یہی تبدلیاں قدرتی آفات کا باعث بنتی ہیں ۔موجودہ صورتحال کو سامنے رکھتے ہوۓ حالات کا جاٸزہ لیں تو  ہمیں معلوم ہو گاوطن عزیز کا شمار آلودہ ترین ممالک میں ہوتا ہے ۔ کراچی  پاکستان کا سب سے بڑا شہر ہے آبادی کے حساب سے ٹریفک کا بے انتہا رش اور صنعت آلودگی کا بڑا سبب ہیں  ۔ پچھلے دس سالوں میں کراچی میں صفاٸی کا ناقص انتظام ابلتے ہوۓ گٹر
بلد یہ کی غیر ذمےداری کا منہ بولتا ثبوت ہیں ۔2021 میں روزانہ کی بنیاد پر دنیا بھر کے آلودہ شہروں کے اعداو شمار پیش کیے گٸے ان میں لاہور کا نمبر دنیا بھر کے آلودہ شہروں میں دوسرا رہا۔
  ہماری گورنمنٹ کی بے حسی کا عالم تو سیلاب زدگان کی حالت میں انکی دلچسپی یا انکے مسائلکے حل کے لیے کی جانے والی کوششوں سے لگا سکتے ہیں ۔
 قدرتی آفات کا اثر بچوں اور خواتین کی زندگی پر بہت منفی انداز ۔میں مرتب ہوتا ہے  سیلاب  ان سے متاثرہ علاقوں میں  چھ لاکھ سے زائد  خواتین حاملہ ہیں ،  ان کےلیے مناسب نگہداشت کا انتظام نہیں ،خوف ،ڈپریشن،ناکافی اورغیر متوازن غذا ان  خواتین کے ساتھ ساتھ بچوں کے لیے بھی مضرہے۔خواتین کے  سینٹری کے مساٸل بھی ہیں  ۔پردہ کرنے والی خواتین کو دوسرے خاندانوں کے ساتھ خیموں میں وقت گزارنا پڑرہا ہے ۔جہاں بیت الخلا تک کی سہولت بھی موجود نہیں ہے ۔ ہسپتال اور ڈاکٹروں کی سہولت انتہائی کمیاب ہے
کئی علاقوں میں سیلابی پانی کھڑا ہونے کے باعث مچھر ، مکھی اور زہریلے کیڑوں کی وجہ سے وباٸیں پھیل رہی ہیں جو کہ کم عمر بچوں کے لیے نہایت خطر ناک ہیں ۔
شدید خدشہ ہے کہ آنے والے دنوں میں پاکستان کو صحت کے بحران کا سامنا بھی کرنا پڑے گا۔
حکومت کو ان تمام حالات کو سامنے رکھتے ہوۓ ان مساٸل کو جلد از جلد حل کر نا چاہیے ۔
بلوچستان اور سندھ میں تباہی زیادہ بڑے پیمانے پر ہوٸی جس سے غذاٸی قلت اور خشک سالی جیسی مساٸل بھی منہ کھولے کھڑے ہیں کیونکہ صوباٸی حکومتیں ابھی بھی عوام کے مساٸل کو حل کرتی نظر نہیں آرہی ہیں ۔انہیں عوام کے مساٸل سے زیادہ دلچسپی غیر ملکی امداد سے ہے ۔سندھ میں کھجور کی فصل جو کہ تیار تھی اسے   بری طرح نقصان پہنچا ہے جو گندم ذخیرہ کی گٸی تھی بہہ گٸی ہے یا خراب ہو چکی ہے ۔
 بلوچستان اورجبوبی پنجاب کی ہزاروں ایکٹر  زمین پرفصلیں جو کہ پک کر تیار ہو چکیں تھیں یا تیار ہونے کے قریب تر تھیں سیلابی ریلوں کی نذر ہو چکیں ہیں ۔
سیلاب متاثرین کی مدد میں عام شہری حکومتی اداروں سے زیادہ فکر مند اور انکے مسائل کے حل کے لیے کوشاں نظرآتے ہیں ۔جب انسانوں پر کڑی آزماٸشیں آتی ہیں تو اللہ رب العزت ان انسانوں کو کم انکے ادر گرد کے لوگوں کو زیادہ آزما تا ہے تاکہ یہ جان سکے کون اس کے بندوں سے پیار کرتا ہے اور کسے اپنے مال و متاع سے محبت ہے ۔
او رآج بھی ہمارا سیاستدان طبقہ اسی گروہ کا حصہ ہے جو لینے والا ہاتھ ہیں ۔ تاریخ میں اس کی بہت سی مثالیں ملیں گی اگر انسانوں کو کڑا وقت دے کر آزمایا گیا تو انہیں بعد میں آنے والے وقتوں میں اس سے کہیں بڑھ کر نواز دیا گیا ۔
کیو نکہ اللہ رب العزت کا یہ وعدہ ہے کہ ”ہر مشکل کے ساتھ آسانی ہے ۔“
یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہے کہ حکومتیں ماحولیاتی تبدلیوں کا باعث بننے والے عوامل پر قابو پانے سے قاصر رہی ہیں  ساٸنسدانوں کے  متعدد بارخبر دار کرنے باوجود کوٸی تسلی بخش اقدامات نہیں کیے گٸے  ۔مگر ابھی بھی وقت ہے ہمیں ان حالات کے مطابق پالیسیاں نہ صرف مرتب کرنی چاہیں بلکہ ان پر سختی سے عملدرآمد کرانے کے لیے بین الاقوامی سطح پر بھی آواز بلند کرنی چاہیے ۔ ہمیں خود ایک قوم بن کر اپنے ماحول کو بچا نا ہے ہم شاید وہ آخری نسل ہیں جو زمین کو تباہی سے بچا سکتی ہیں ۔وزیر اعظم پاکستان شہباز شریف نے عالمی برادری سے پاکستان میں ماحولیاتی تبدیلیوں کے باعث پیدا ہونے والے حالات کا نوٹس لینے کا مطالبہ کیا ہے اور کہا ہے کہ ترقی یافتہ ممالک مضر گیسوں کے اخراج پر قابو پانے کی تدابیر اختیار کریں جن کی وجہ سے دنیا قدرتی آفات کی زد میں ہے۔
 مگر اس مطالبے کو بار بار دہرانے کی ضرورت ہے۔
انسانی معاشرتی و سیاسی نظام زندگی میں اطمینان و سکون اور خوشی و راحت پانے کے لئے نئے پیراڈایم میں عمرانی ارتقاء و سماجی شعور کی بیداری و دانش مندی کی آرزو درکار ہے
دہشت گردی کے خلاف جنگ نے پاکستان کو شدید نقصان پہنچایا ہے، جس سے نہ صرف تیس ہزار سے زائد پاکستانی مارے گئے بلکہ اربوں ڈالر کا انتظامی ڈھانچہ بھی تباہ ہوا۔ پاکستان میں طبی ماہرین کا خیال ہے کہ اس جنگ کی وجہ سے ملک کا نظام صحت بھی بری طرح متاثر ہوا ہے کیونکہ وسائل کا ایک بڑا حصہ جنگی اخراجات پر لگا دیا گیا، جس کی وجہ سے صحت کا بجٹ بھی متاثر ہوا۔ اس کے علاوہ دہشت گردانہ کارروئیواں کی وجہ سے نہ صرف جمسانی معذوری بڑھی بلکہ نفسیاتی مسائل بھی بڑھے۔ ان تنازعات سے پاکستان کے سبھی علاقے متاثر ہوئے لیکن   خیبر پختونخوا،  اور بلوچستان ان متاثرہ علاقوں میں سر فہرست ہیں۔ اور یہ علاقے جو کہ ماضی قریب خوفناک جنگ سے چھٹکارا پانے کے بعد ابھی سنبھل بھی نہ پاۓ تھے اب ایک نئی  آفت کا سامنا ہے‘
۔ ان کی نفسیاتی صحت پر بھی اس تباہی نے بہت برا اثر ڈالا ہے۔ لہٰذا حکومت میڈیکل ایمرجنسی نافذ کر کے طبی سہولیات میں اضافہ کرے اور اس کے لئے
 خصوصی فنڈز جاری کرے۔‘‘
کوئٹہ سے ماہر سماجیات و عمرانیات اور مجلس فکر و دانش کے سربراہ عبدالمتین اخونزادہ نے کہا کہ نفسیاتی اور سماجی مسائل کے حل کے لئے
اس طر ح کا کوٸی بھی لاٸحہ عمل تر تیب ہی نہیں دیا گیا ہے کہ اس دوران پاکستان کے بڑے حصے میں عوام اور خاص کر بچے و بوڑھے اور خواتین سیلاب و شدید ترین بارشوں کے باعث معاشرتی ترقی و خوشحالی تباہیوں اور بربادیوں سے دوچار ہوۓ ہیں
اخونزادہ نے کہا  لمحہ موجود میں انسانی نفسیات اور جذبات و احساسات کی ترجمانی و خدمت بہت ضروری ہے کہ بڑی آبادیاں مشکل ترین صورتحال سے دوچار ہوٸی ہیں ، قدرتی آفات جنگی ماحول سے زیادہ خطرناک ثابت ہوتیں ہیں اس لئے کہ زندگی کی رواں کہانی متاثر ہو جاتی ہے تو معنویت اور مقصدیت زندگی تہ وبالا ہوجاتی ہیں اور پاکستان بطور خاص جنوبی پنجاب، خیبر پختونخوا کے جنوبی حصے اور اندرون سندھ و بلوچستان میں عام دنوں میں بھی زندگی کی حفاظت و عظمت برقرار رکھنے کے لئے بہت کھٹن حالات اور واقعات کا سامنا کرنا پڑتا ہے بطور خاص خواتین اور بچوں و بچیوں کے لئے زندگیوں میں بہتری لانے کے لئے مسلسل جدوجہدو جستجو اور تخلیق و تدبیر کی نئی جہتیں تلاش کرنا ہوتے ہیں،_،،
مندرجہ بالا جائزہ رپورٹ میں پاکستان کے مقتدرہ و اشرافیہ دونوں کے لئے نئے پیراڈایم میں ترقیاتی اپروچ اختیار کرنے اور اپنے عوام الناس کی ترجمانی کے لئے ان کے دکھ درد سمجھنے و پاٹنے کے لئے حقیقی معنوں میں ترجمانی کی کوشش کی گئی ہیں تاکہ معاشرتی و سماجی مسائل اور سیاسی افراتفری پھیلنے سے پہلے ریاست کے مقتدرہ کے لئے بنیادی اصلاحات کا تعین اور تعمیری ماحول کی تشکیل و تعبیر نو کے لئے نئے زمانے کے بدلتے ہوئے رحجانات و ترجیحات کے مطابق پالیسیاں تشکیل دینے کی سبیل پیدا کرنا چاہیے ورنہ تبدیلی اور ممکنات کے مواقع ضائع ہو جاتے ہیں تو معاشرتی و معاشی افراتفری پھیلنے سے روکنے میں کامیابی حاصل کرنا ممکن نہیں ہے


Discover more from Press for Peace Publications

Subscribe to get the latest posts sent to your email.